جامعة الصابر میں تقریب ختمِ بخاری شریف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علم انسانیت کا وہ طغرائے امتیاز ہے جس کی بدولت اسے فرشتوں پر برتری عطاءکی گئی اور معلّم وہ عظیم منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے سرکاردوعالمﷺ کو فائز کیا گیا اورپھر آپ نے اسے اپنے تعارف کے طور پر بیان فرماتے ہوئے کہا: انما بعثت معلما(میں ایک معلم اور استاذ بنا کربھیجا گیا ہوں)۔ اسی کے ساتھ جہاد وہ امرِ ربی ہے جو انسان کو فرشتوں کی مقدس جماعت کے مشابہ بنا دیتا ہے بلکہ اللہ تعالی کا پڑوس عطاءکردیتا ہے، چنانچہ نبی کریمﷺ اپنی بعثت کے اس پہلو کو یوں بیان فرماتے ہیں: بعثت بالسیف( مجھے تلوار دے کر بھیجا گیا ہے)۔ گویاعلم اور جہاد دونوں میراث نبوت ہیں اور ان دونوں کو تھامنے والے ہی سچے وارثین نبوت کہلائیں گے۔ اسی لئے علماءکرام نے حق کی جماعت کی نشانیوں میں علم اور جہاد کی جامعیت کو ذکر کیا ہے، کہ جو جماعت ان دونوں اوصاف کی جامع ہوگی وہ جماعت نجات پانے والی ہے اور جس جماعت میں یہ دونوں باتیں نہ ہوں یا ان میں سے ایک ہواور دوسری نہ ہو توہ وہ خسارے میں ہے اور وہ جماعت ”طائفہ منصورہ“ یعنی اللہ تعالی کی مددیافتہ جماعت نہیں کہلا سکتی۔

ہمارے اکابر دیوبند جنہوں نے دینی مدارس کی بنیاد رکھی اور آج جن کی شاخیں دنیا بھر میں دین اسلام کی خدمات کی روشن کرنیں بکھیر رہی ہیں وہ سب علم اورجہاد کے جامع تھے، اور محض فکری اور نظریاتی طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر ان دونوں میدانوں کے کامیاب وقابل رشک شہسوار تھے۔ ان کی زندگیوں کا مطالعہ انسان کوکامیابی کی درست سمت کا پتہ دیتا ہے اور ان حضرات کے بلند پایہ علمی مقام کے ساتھ ان کی شجاعت وبہادری اور خودداری وملت کی غم خواری کا عظیم سبق دیتا ہے۔ آخر کیا وجہ تھی کہ یہ حضرات باوجود اس کے کہ بے سروسامان تھے، تشہیر اور نام ونمود کے وسائل اور نامور لوگوں سے تعلقات سے بالکل دورتھے پھر بھی ان کا فیض ایسے انداز میں چار دانگ عالم میں پھیلا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی؟ جی ہاں! اس کی وجہ ان حضرات کا اعلیٰ اخلاص اور سب سے بڑھ کی پوری امت اسلامیہ کی غم خواری اور خیرخواہی کا وہ عظیم اور نیک جذبہ تھا جس نے ان کی فکر اور پیغام کو پوری امت اسلامیہ کی رگوں تک پہنچادیا۔ان حضرات کی خدمات میں ایک نمایاں خدمت دینی مدارس کا کردار ہے اور یہ مدارس دیگر مدارس سے اس طور پر بہت مختلف ہیں کہ یہاں علم برائے معلومات نہیں پڑھایا جاتا بلکہ علم برائے عمل پڑھایا جاتا ہے، اور علم وجہاد کی جو نسبت ان حضرات میں جمع تھی وہ ان مدارس کے ذریعے اس ”جامع نسبت“ کو ہمیشہ کے لیے جاری کردینا چاہتے تھے۔

اکابر دیوبند کی اسی ”جامع نسبت: علم وجہاد“ کاامین جامعة الصابر نام کا وہ حسین گلشن بھی ہے جس کو وجود میں آئے ابھی بلوغت کی عمر بھی نہیں آئی مگر اس کی خوشبو اور نیک اثرات دوردورتک پھیل گئے ہیں۔یہ حسین گلشن مرکزعثمان وعلی رضی اللہ عنہما اور جامعة الصابر اکابر کی انہی امنگوں کا ترجمان ہے جو دارالعلوم دیوبند کی بنیاد وں شامل تھیں، اگر دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ انگریز نے مسلمانوں کے نظام تعلیم پر جو فکری حملہ کیا ہے اسے کے آگے بند باندھا جائے اور پھر اس دارالعلوم نے اپنے اس مشن کو پورا بھی کردکھایاتو جامعة الصابر کا مقصد تاسیس بھی انگریزوں اور ان کے نمک خوروں کی خاص اُس یلغار کو روکنا ہے جو انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف برپا کی اور الحمدللہ اب ایسے علماءکی کھیپ تیار ہورہی ہے جو علم وجہاد کی عظیم نسبتوں سے اپنا دامن بھر کر دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے میں اپنا کردار اداءکررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ان شاءاللہ
جامعة الصابر میں اس وقت (الحمد للہ )درج ذیل شعبوں میں خدمات جاری ہیں:
(۱)شعبہ حفظ وناظرہ تعلیم قرآن کریم
(۲)شعبہ تجوید وحسن قراءات
(۳)شعبہ درس نظامی (عالِم کورس)
(۴)شعبہ تخصص فی الفقہ (مفتی کورس)
(۵)شعبہ دراسات دینیہ( تین سالہ فہم دین کورس)
(۶)شعبہ دارالبیان( تصنیفی وتحقیقی ادارہ)
(۷)مکتبہ ولی حسنؒ( قابل قدر لائبریری ومطالعہ ہال)
٭....٭....٭
۶۱مئی بروز جمعرات بعد ازنماز مغرب جامعة الصابر مرکز عثمان وعلی رضی اللہ عنہما،بہاولپور میں فضلائے کرام ،متخصصین علمائ، اور حفظ وتجوید قرآن کریم سے فراغت پانے والے طلبہ کرام کے اعزاز میں ایک عظیم الشان تقریب ختم بخاری شریف اور سالانہ جلسہ دستاربندی وتقریب رومال پوشی معنقدہوئی۔ اس تقریب کی صدارت جامعہ کے مہتمم، امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعودازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کے برادرصغیر، استاذ الحدیث حضرت مولانا طلحہ السیف حفظہ اللہ تعالی نے فرمائی، نگرانی کے امور مرکز شریف کے ناظم محترم جناب بھائی رشید کامران صاحب کی ہدایات کے مطابق انجام پائے،نقابتِ مجلس کے فرائض المرابطون کے ناظم مولانا محمد خادم قاسمی صاحب نے نبھائے، آخری حدیث کا درس جامعہ کے شیخ الحدیث مولانا سیدعبدالرحمن شاہ صاحب نے دیا اور مہمان خصوصی امیرالمجاہدین حضرت مولانا محمد مسعودازہر حفظہ اللہ تعالیٰ کے برادرصغیر مفتی عبدالروف اصغر حفظہ اللہ تھے۔ اس تقریب کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:
اس عظیم تقریب کا انعقاد جامع مسجد عثمان وعلی رضی اللہ عنہما کے وسیع صحن میں کیا گیا تھا، جہاں مسجد کے شمالی جانب ایک خوبصورت مگر سادگی کاروپ دھارے اسٹیج تیار کیا گیا تھا جس کے عقب میں دو دلکش پینا فلیکس آویزاں تھے جس پر کلمات تبریک وغیرہ درج تھے۔ اسٹیج کے دائیں طرف مہمان علماءکرام وغیرہ حضرات کے لیے خصوصی نشستوں کی جگہ بنائی گئی تھی جبکہ صحن مسجد کا بقیہ حصہ سامعین کے لئے مختص تھا، مسجد کی چار دیواری اورمدرسہ کے درودیوار مختلف موضوعات پر مشتمل اقوال زریں سے آراستہ بینرز سے سجائے گئے تھے اور مسجد ومدرسہ کی چھت جہادی پرچموں سے لہراتی نہایت بھلی محسوس ہوتی رہی۔

تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، بعد ازاں نعت ونظمیں پیش ہوئیں ،بیانات میں ”جامعة الصابر کی عظیم نسبت“ کے عنوان پر جامعہ سے فاضل نوجوان عالم دین مولانا جمال الدین صاحب نے خطاب کیا، نبی کریمﷺ اورجہادکے موضوع پر جامعہ کے دورہ حدیث کے شریک طالب علم مولوی ابوبکر صدیق نے اور درجہ تخصص فی الفقہ کے شریک مولوی مدثر اقبال نے بیانات کئے۔ اسی دوران نئے آنے والے مہمانوں کو کھانا بھی کھلایا جاتا رہا،یہاں تک کہ عشاءکی نماز کا وقت ہوگیا اور اسی پر پہلی نشست کا اختتام ہوگیا۔

دوسری نشست:
عشاءکی نماز کے بعد اس تقریب کی دوسری نشست کا آغاز ہوا، اولاً مرکز شریف کے یومیہ معمول کے مطابق حضرت مولانا قاری محمد صادق صاحب نے درس قرآن ارشاد فرمایا، ان کے بعد تقریب کاباقاعدہ آغاز کرتے ہوئے جامعہ کے طالب علم شریک درجہ سابعہ مولوی محمد راشد کو تلاوت کلام پاک کی دعوت دی گئی، تلاوت کے بعد معروف جہادی نظم خوان جناب قاری غلام عباس صاحب کو نعت ونظم کی دعوت دی گئی جنہوں نے اپنی پرسوز اور جادو اثر آواز سے سامعین کی سماعتوں پر قبضہ کرلیااور سب کو اپنے ساتھ شریک نظم خوانی کردیا۔بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دینے کےلیے اسٹیض پر شیخ الحدیث صاحب اور طلبہ کے لئے نشستوں کااہتمام کیا گیا تھا، حضرت شیخ الحدیث صاحب اپنی نشست گاہ پر تشریف لائے، ایک طالب علم مولوی حق نواز (جو امیرالمجاہدین حفظہ اللہ کے بھتیجے ہیں) نے آخری حدیث کی عبارت پڑھی اور پھر حضرت شیخ الحدیث صاحب نے اس پر مفصل اور عام فہم گفتگو فرمائی۔ انہوں نے بتایا کہ انسان اس دنیا میں عمل کے اعتبار سے تین قسم کے ہیں: ایک وہ جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں ہی نیکیاں ہیں، دوسرے وہ جن کے نامہ اعمال میں برائیں ہی برائیاں ہیں اور تیسرے وہ جن کے اعمال مخلوط ہیں یعنی کچھ اچھے اعمال ہیں تو کچھ برے اعمال بھی ہیں،اور چونکہ انسان کو اللہ تعالی نے دنیا میں آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور آخرت میں اس کا بدلہ دینا ہے تو وہ لوگ جن کے اعمال مخلوط ہیں، ان کے لیے قیامت کے روز ایک میزان قائم کی جائے گی جس میں ان کے اعمال کو تولا جائے گا، پھر جس کے نیک اعمال بھاری ہوئے وہ کامیاب اور یہ اس کا آخری امتحان تھا، اسی طرح جس کے برے اعمال بھاری ہوئے اس کے لیے جہنم کا اعلان ہے تو اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے حسن خاتمہ کی طرف توجہ دلانے کے لیے اپنی کتاب کا آخری باب اس عنوان سے قائم کیا کہ اے انسان تیرے تمام اعمال اوراقوال بے فائدہ نہیں ہیں بلکہ قیامت کے دن تولے جائیں گے اب تو اس دنیا میں ہی غورکرے لے یہ اعمال واقوال بھلائی والے ہیں یا برائی والے ؟اورساتھ ہی نیک اعمال میں وزن پیدا کرنے والے اعمال میں سے ایک اہم عمل بھی حضور اکرمﷺ کی زبانی نقل فرمادیاکہ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم دو ایسے کلمات ہیں جواللہ تعالی کو بہت محبوب ہیں، زبان پر بہت ہلکے ہیں، اور میزان عمل میں بہت بھاری ہیںگویا سبق دے دیا کہ انسان ان کلمات کو کثرت کے ساتھ پڑھتا رہے تاکہ نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوجائے اور کامیابی کا راستہ آسان ہوجائے۔ اس کے بعد جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن مولانا محمد عمار صاحب نے علم کی فضیلت اور علماءکی ذمہ داریوں کے موضوع پر فکرانگیز خطاب فرمایااور یہ تنبیہ فرمائی کہ علم اورعلماءکی جتنی بھی فضیلتیں ہیں وہ سب باعمل اور مخلص علماءکے لئے ہیںورنہ اگر علم پر عمل اور اس میں اخلاص نہ ہو تو یہ علم بجائے ترقی کے تنزلی لاتا ہے اور بجائے اللہ کی رحمت کے اللہ کے غضب کاذریعہ بنتا ہے اور آخرت میں کامیابی کے بجائے ناکامی کے منہ میں دھکیلتا ہے، اس لیے ہم اپنے فضلاءسے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس علم کی حقیقت اور روح کو اپنے اندر پیدا کریں اسی میں کامیابی ہے۔

تقریب سے دوسرا اہم اور مفصل خطاب مفتی عبدالروف اصغر حفظہ اللہ تعالی نے فرمایا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں دینی مدارس کی عظمت، اعلیٰ کردار اور علماءکی فضیلت وفوقیت پر نہایت موثر اورتقابلی انداز میں پیش کیا اور بعض اُن حلقوں کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی جو علم کے نام پر امت کو اُس علم سے کاٹ رہے ہیں جو اکابر واسلاف امت سے متواتر چلا آرہا ہے، نیز انہوں نے طلبہ کرام سے صاف لفظوں یہ کہا کہ آپ لوگ اپنا مقام اور مرتبہ منوانے کے لیے دنیا داروں کے دروزاے پر بھیک مانگنے ہرگز نہ جائیں، اللہ نے آپ کو بہت بڑا مقام ومرتبہ دیا ہے، بس آپ لوگ خود میں اس علم پر عمل اور دینی غیرت وشجاعت کے اوصاف کو پیدا کریں اور اپنا ایسا کردار اپنائیں کہ دنیا دار ولوگ خود آپ کے کردار کو تسلیم کرنے پر مجبو رہوجائیں۔جس کی زندہ مثال ہمارے سامنے ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ تعالیٰ کا روشن کردار ہے جسے دنیاتسلیم کررہی ہے بلکہاوراُن کو مٹانے کا خواب دیکھنے والے خود مٹ رہے ہیں ۔اس لئے میرے عزیزو! آپ حضرات دنیا داری کے دھندوں میں نہ پھنسو بلکہ جہاد کے میدان آپ کے منتظر ہیں، وہاں کی خوددارانہ کردار آپ کا منتظر ہے اگر آپ نے اس راستے کا انتخاب کیا تو دنیا آپ کے سامنے جھکے گی جیسا کہ صحابہ کرام کے جہادی کارناموں سے دنیا ان کے آگے جھکی اور اگر اس جہاد سے روگردانی کی تو پھر دنیا کے آگے ہمیں جھکنا پڑے گا جو ایک امت محمدیہ کے عالم دین کے لیے ہرگز شایان شان نہیں ہے۔

تقریب سے تیسرااہم مگر مختصر خطاب حضرت مولانا طلحہ السیف صاحب نے فرمایا۔ انہوں نے ایک تو آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ اداءکیا اور پھر طلبہ وفضلاءسے اپنے دل کی بات کہتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : اے میرے عزیزو!اس وقت میں تمہیں صرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ حضرات اس جامعہ سے دونسبتیں ضرور لے کر جائیں: ایک تو حضرت اباجی نور اللہ مرقدہ کی دعاوں والی نسبت، یہ گلشن جس سے آپ فیض پاکر جارہے ہیں اس میں ان کی سحر گاہی آہوں اور رقت آمیز دعاوں کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اس لیے آپ حضرات بھی دعاءکو اپنا خاص شعار بنائیں اور اپنی ہرمشکل دعاءکے ذریعے اللہ تعالیٰ سے حل کروانے کی عادت ڈالیں اور دوسری نسبتِ جہاداور نسبتِ امیرالمجاہدین ہے، یہ مدرسہ اور جامعہ اُن کی امنگوں اور توجہات کا ثمرہ ہے اور انہوں نے اپنی ہمت باطنی سے اس میں علم وجہاد کے امتزاج کا حسین رنگ بھرا ہے لہٰذاآپ حضرات اس نسبت کی بھی ہمیشہ لاج رکھنا اور اس پر فخر کرناکیوں کہ میں نے خود فاتح قادیانیت حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی نور اللہ مرقدہ کی زبان سے یہ سنا کہ لوگ اپنے اساتذہ پر فخر کرتے ہیں مگر مجھے اپنے دوشاگردوں پر فخر ہے: ایک مولانا محمد مسعود ازہر اور دوسرے مولانا محمد اعظم طارق شہید۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ آپ کو کتنی بڑی یہ نسبت مل گئی ہے جس پر اتنے بڑے بڑے لوگ فخر کرنا سعادت سمجھتے تھے۔

تقریب میں فضلاءکرام ، متخصصین اور حفظ وتجوید والے طلبہ کی دستاربندی کے علاوہ انہیں شمشیرِ فضیلت دی گئی اور بیش قیمت کتب کا ہدیہ بھی دیا گیاجس کی تفصیل اس طرح ہے:
تخصص فی الفقہ سے فراغت پانے والوں کو ”خیرالفتاویٰ اور فتاویٰ رحیمیہ“ کے مکمل سیٹ دیئے گئے
دورہ حدیث سے فراغت پانے والوں کو ”تفسیر انوارالبیان، آپ کے مسائل اور ان کاحل ، اور تجلیات صفدر کے مکمل سیٹ دیئے گئے
دراسات دینیہ سے فراغت پانے والوں کو”تفسیر فتح الجواد، بہشتی زیور،اور حضرت امیرمحترم کی بعض دیگر کتب کا سیٹ دیاگیا
حفظ وتجوید مکمل کرنے والے طلبہ کو ایک ایک قرآن کریم ہدیہ میں پیش گیا گیا
اس تقریب کے اختتام پر دعائیہ کلمات جامعہ کے استاذ الحدیث مفتی محفوظ احمد صاحب مدظلہ العالی نے ارشاد فرمائے، اور اسی کے ساتھ یہ پُروقار روحانی تقریب رات تقریباً ایک بجے اختتام پذیر ہوئی۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372638 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.