اﷲ عزوجل او ر اس کا رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بس: (جانِ دو عالم)

 حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا۔ اتفاقاََ اس زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجود تھا۔میں نے کہا آج اتفاق سے میرے پاس مال موجود ہے ،اگر میں ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کبھی بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ یہ سوچ کر میں خوشی خوشی گھر گیا اور جو کچھ گھر میں تھا اس میں سے آدھا لے آیا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ،میں نے عرض کیا:کہ چھوڑ آیا، حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: آخر کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا کہ آدھا چھوڑ آیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جو رکھا تھا سب لے آئے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا:ابو بکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا۔ انہوں نے عرض کیا: ان کے لئے اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو چھوڑآیا ہوں۔
پروانے کو چراغ ہے تو بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس

یعنی اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے نام کی برکت ،ان کی رضا اور خوشنودی کو چھوڑآیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ یہ قصہ غزوہ تبوک کے لئے فراہمی مال و اسباب کا ہے۔ (شرح العلامۃ الزرقانی،باب غزوۃ تبوک،ج۴،ص۶۹)

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے صحیفہ اخلاق میں حب رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اور اتباع سنت کے نہایت نمایاں ابواب ہیں انھوں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اسلام کو اپنے گھرانے پر شروع دن ہی سے پر تو فگن دیکھا۔ ان کی والدہ حضرت ام سلیم ، سوتیلے والد حضرت ابو طلحہ، چچا حضرت انس بن نضر ، بھائی حضرت براء بن الملک، خالہ ام حرام اور سبھی سروردو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے مخلص شیدائی تھے۔(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)

خاندان میں ہر وقت ذات رسالتمآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اور آپ کی دعوت حق کا چرچا ہوتا رہتا تھا۔اس پاکیزہ ماحول نے کمسن انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دل میں حضور پر نور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی محبت کا بیج بودیا ۔ اس کے بعد ان کو مسلسل دس برس تک رحمت دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت کر نے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دوران، ان کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے بے مثل اخلاق عالی نے اتنا متاثر کیا کہ وہ اپنے شفیق آقاو مولا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے عاشق صادق بن گئے۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے جب وصال فرمایا، تو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی دنیا اندھیر ہوگئی۔ رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی یاد ان کو ہروقت تڑپاتی رہتی تھی۔ ان کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی تھی جس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا ذکر خیر نہ ہو۔ عہد رسالت کا کوئی واقعہ کسی سے سنتے یا خود بیان کرتے تو آنکھیں نم ہوجاتیں اور شدت تاثر سے آواز بھر اجاتی۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اپنے آپ پر قابو نہ رہتااور سخت بے چینی کے عالم میں محفل سے اٹھ کھڑے ہوتے اور جب تک گھر پہنچ کر تبرکات نبوی کی زیارت نہ کر لیتے کل نہ پڑتی تھی۔

ایک دن سرور کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا حلیہ بیان کر رہے تھے کہ: ’’ میں نے کبھی کوئی ریشم رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہیں چھوا،اور نہ کبھی کوئی خوشبوحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے بدن مبارک سے زیادہ خوشبودار سونگھی‘‘
(صحیح البخاری،کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ، الحدیث۳۵۶۱، ج۲، ص۴۸۹)

اسی طرح بیان کرتے کرتے فرط محبت سے اتنے بے قرار ہوگئے کہ گریہ طاری ہوگیااور زبان پر بے اختیاریہ الفاظ آگئے۔

’’ قیامت کے دن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی تو عرض کروں گا یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم آپ کا ادنیٰ غلام انس حاضر ہے‘‘۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے بے پناہ محبت اور عقیدت کایہ اثر تھا کہ انھیں اکثر خواب میں سید الانام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی زیارت نصیب ہوجاتی تھی۔ اﷲ اور اس کا رسول عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ان کو دنیا کی ہر شے سے محبوب تر تھے۔
(المسند لامام احمد بن حنبل،مسندانس بن مالک بن النضر،الحدیث۱۳۳۱۵،ج۴،ص۴۴۲)

صحیح بخاری میں خود ان سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے فرمایا کہ تین باتیں ایسی ہیں جو کسی شخص میں پائی جائیں تو گویا اس نے ایمان کی حلاوت پالی۔ ایک یہ کہ اﷲ اوراﷲ کا رسول عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اس کو ساری دنیا سے عزیز تر ہوں، دوسرے یہ کہ جس سے محبت کرے اﷲ عزوجل کی خاطر کر ے، تیسرے یہ کہ اسلام لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹ جانے کو ایسا نا پسند کرے جیسا کہ آگ میں پڑجانے کو کرتا ہے۔
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حلاوۃالایمان،الحدیث۱۶،ج۱،ص۱۷)

حضرت زاہررضی اﷲ تعالیٰ عنہ : ایک بدوی صحابی زاہر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جوبظاہرحسین نہ تھے، جنگل کے پھل سبزی وغیرہ آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ لایا کرتے تھے۔ جب وہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے رخصت ہوتے تو آپ شہر کی چیزیں کپڑا وغیرہ ان کو دے دیا کرتے تھے۔ سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو ان سے محبت تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہماراروستائی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔

ایک روز آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بازار کی طرف نکلے تو دیکھا کہ زاہر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنی متاع بیچ رہے ہیں۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے پیٹھ کی طرف جاکر ان کی آنکھوں پر اپنا دست مبارک رکھا اور ان کو گود میں لے لیا و ہ بولے کون ہے ؟ مجھے چھوڑ دو۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم تھے۔ اپنی پیٹھ (بقصدبرکت) اور بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے سینے سے لپٹا نے لگے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا کوئی ہے جو ایسے غلام کو خریدے وہ بولے یارسول اﷲ! صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اگر آپ بیچتے ہیں تو مجھے کم قیمت پائیں گے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلمنے فرمایا:’’ تو خدا کے نزدیک گراں قدر ہے۔‘‘
(جامع الترمذی،شمائل محمدیۃ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ،باب ماجاء فی صفۃ مزاح...الخ،الحدیث۲۳۸،ج۵،ص۵۴۵)(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)

وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.