آج کل ہمارے ہاں بے شمار تعلیمی
ادارے کھل چکے ہیں جہاں ہر کوئی آگے نکلنے کے چکر میں ہیں اس کے لیے مغرب
کا لبادہ اوڑے سکول ہامیں وقتی طور پر بہت اچھے لگتے ہیں مگر ان کا رزلٹ
بہت بھیانک ہوتا ہے تعلیم جوکہ انسان کو شعوردیتی ہے اسے جینے کا اصل ڈھنگ
سکھاتی ہے اس کو تو تماشہ بنا دیا گیا ہے ہمارے بچوں کو جو کہ پاکستان کا
مستقبل ہیں ان کو ان تعلیمی اداروں(بزنس سینٹروں) میں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے
جہاں ان کا مستقبل سنوارنے کی بجائے بگڑ رہا ہے وہ تعلیمی ادارے جو کھبی
تربیت کی عظیم درسگاہیں تھیں آج صرف اور صرف ایک کاروبار بن چکا ہے جہاں
بچے علم کی پیاس نہیں بلکہ تفریح کرنے کے لیے آتے ہیں تعلیم کے معانی جہاں
سیکھنے کے ہیں وہاں اس کا سب سے بڑا مقصد انسان کی صیحح تربیت ہے اسکی مثال
ہم اپنے بزرگوں کی لے سکتے ہیں جن کے زمانے میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے
برابر تھیں لیکن انھوں نے اپنی تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر ہر شعبہ ہائے
زندگی میں گراں قدر خدمات سراانجام دیں ان درسگاہوں میں سہولیات نہ ہونے کے
باوجود کوئی ابن خلدون بنا کوئی زکریا رازی کوئی شاہ ولی اﷲ اور کوئی علامہ
اقبال ان میں سے بعض تو اپنے کارناموں کی وجہ سے اور بعض اپنی تحریروں کی
وجہ سے ہمارے دلوں پر راج کر رہے ہیں اور ان کا نام روشن ستاروں کی طرح
رہتی دنیا تک چمکتا رہے گا آج کے اس دور میں ہمارے بچوں کو دنیا بھر کی
سہولتیں میسر ہیں ایک کلک پر دنیا جہاں کی معلومات ان کے سامنے ہوتی ہیں
لیکن ان میں وہ تبدیلی پیدا نہیں ہورہی جو کہ ان میں پیدا ہونی چاہیے اس کی
کیا وجہ ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہماری اپنی غلطیاں اور کوتائیاں ہیں جن سے ہم
نظریں چرائے بیٹھے ہوئے ہیں صبح ماں باپ اپنے بچوں کو تیار کر کے سکول
بیجتے ہیں مگر دن بھر کسی بھی تفریح گاہ میں چلیں جائیں یہی قوم کے معمار
آپ کو وہاں نظر آئیں گے وہ بچے یہ نہیں جانتے کہ وہ اپنا مستقبل اپنے
ہاتھوں سے خراب کر رہے ہیں یہ سب ہماری غلطیاں ہیں دوسرا آج کے دور میں ہم
اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کی بجائے مغربی تعلیم دلوانے کے حق میں نظر آتے
ہیں آج ہمارے بچے انگریزی تو بولتے ہیں مگر ان میں تہذیب نام کی کوئی چیز
نظر نہیں آتی آج ہماری نوجوان نسل کو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھے ماحول
کی اور اچھی تربیت کی بھی ضرورت ہے -
تعلیمی اداروں میں جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت اور اسلامی
اقدار سے روشناس کروانے کے لیے اساتذہ کو کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ آنے
والی نسلوں کو محب وطن بنایا جا سکے میں یہ نہیں کہتا کہ بچوں کو مغربی
تعلیم نہ دی جائے بلکہ مغربیت کو اپنے اوپر تاری نہ کرنے دیاجائے کیونکہ
کسی سے کچھ سیکھ لینا کوئی بری بات نہیں انسان کسی سے کچھ بھی سیکھ سکتا ہے
مگر اس کو استعمال اپنے اسلامی طریقے سے کر سکتا ہے دوسرے لفظوں میں اسلامی
روایات اوراقدرا کا تحفظ بھی اس پر لاگو ہوتا ہے -
تاریخ کی کتابوں میں واضح ہے کہ غیر مسلم ممالک نے اسلام سے بنیادی قوانین
کو سیکھ کر اپنے اوپر لاگو کر لیا ہمارے کتابوں سے بہت کچھ سیکھا گیا ایسے
ہی ہمیں بھی ان کی ریسرچ سے سیکھنے کی ضرورت ہے ہمیں ان کی تعلیم میں
اسلامی تعلیم کو شامل کرنا ہو گا تاکہ برائیوں سے نکل سکیں اور دنیا میں
اپنا نام پیدا کر سکیں میں یہ بھی نہیں کہتی کے تمام کے تمام ادارے ایک
جیسے ہی ہیں مگر ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو کہ تعلیم کو تعلیم سمجھ کر
پھیلا رہے ہیں لیکن اب تو اکثر کا رجحان صرف اور صرف بزنس ہی بن گیا ہے اور
جو لوگ تعلیم کو تعلیم سمجھ کر ڈیلور کر رہے ہیں وہ معاشرے کی ترقی کے ضامن
ہیں بلکہ ایسے لوگوں کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھتی ہے میرے لکھنے کا مقصد بھی
یہی ہے کہ ہماری نوجوان نسل جو کہ ہماری اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کے
دھانے پر کھڑی ہے اس کو بچایا جا سکے تاکہ ہم اپنے خدا اور اپنے بزرگوں کے
سامنے کل قیامت کو سرخرو ہو سکیں جنہوں نے ہمیں اس ملک کی بھاگ دوڑ کے لیے
تعلیم دلوائی تھی اور اس کا ہم سے حساب بھی لیا جائے گا کہ ہم نے اپنے علم
سے لوگوں کو کیا فائدہ دیا مجھے امید ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ میری اس بات
سے اتفاق کریں گے کہ اگر ہم اپنے تعلیمی معیار کو جدید اسلامی طریقے کے
مطابق بنا لیں تو دنیا کے کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں رہیں گئے کیونکہ ایک
مسلمان جانتا ہے کہ اس کی ترقی کا راز اسلامی تعلیمات میں چھپا ہوا ہے اور
یہ میراث مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جس کو ڈھونڈے کی ضرورت آج کے دور میں
بہت شدت سے محسوس کی جارہی ہے شاید اسی کے لیے علامہ نے فرمایا تھا کہ
: نامید نہ ہو اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے |