جامعة الرشید کی منفرد سالانہ تقریب تقسیم اسناد

الحمدللہ دینی مدارس نے ہمیشہ سے معاشرے میں پھیلی برائی کے قلع قمع اور معاشرے میں اسلامیت کے فروغ و نفاذ کے لیے مختلف طریقوں سے بھر پور انداز میں کام کیا ہے۔ اس حوالے سے دینی مدارس وقتاً فوقتاً مختلف پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔ جن میں سے دینی مدارس میں ختم بخاری شریف اور تقسیم اسناد کی تقریب قابل ذکر اور انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ 26مئی بروز اتوار ملک کی معروف علمی و دینی درسگاہ جامعة الرشید میں اسی نوعیت کی سالانہ تقریب کچھ مختلف انداز میں منعقد کی گئی۔ جس میں جامعة الرشید کے مختلف تعلیمی کورسز سے فارغ ہونے والے 261 فضلاءکرام کو اسناد اور مختلف انعامات سے نوازا گیا۔جامعة الرشید کی سالانہ تقریب میں ہر سال کی طرح اس سال بھی تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی سے چنیدہ افراد کو مدعو کیا گیا تھا۔ کیونکہ جامعة الرشید کی تقریب میں دعوت عام نہیں ہوتی بلکہ جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبہ اور انتظامیہ کی جانب سے جس مہمان کو کارڈ جاری کیا جاتا ہے، وہی اس تقریب میں شرکت کرتا ہے۔

تقریب کا انتظام جامعة الرشید کے سامنے کیمپس II(ٹو) میں کیا گیا تھا۔ کیمپس (ٹو) کے مرکزی دروازے میں داخل ہوکر دائیں جانب ایک بہت بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ جس کے پیچھے ایک دیو ہیکل پروجیکٹر لگایا گیا تھا۔ جس پر پروگرام کے دوران مہمانانِ گرامی، فضلاءکرام کا تعارف اور جامعة الرشید کے تمام شعبوں سے متعلق ڈاکو منٹری دکھائی گئی۔ اسٹیج کے دائیں اور بائیں جانب اسناد وصول کرنے والے فضلاءکرام مختلف رنگوں کے جبوں میں ملبوس کرسیوں پر تشریف فرما تھے۔ اسٹیج کے سامنے مدعو کیے گئے ہزاروں مہمانان گرامی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔تقریب کا آغاز نماز عصر کے فوری بعد کیا گیا۔ تقریب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تقریب کا ایک حصہ نماز عصر سے نماز مغرب تک جب کہ دوسرا حصہ بعد نماز مغرب سے انتہائے تقریب تک تھا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض مولانا سید عدنان کاکا خیل نے سر انجام دیے،نماز عصر کے فوری بعد تقریب کا آغاز تلاوت کام پاک سے کیا گیا اور اس کے بعد حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی گئیں۔ سب سے پہلے نائب ناظم اعلیٰ وفاق المدارس و مہتمم دارالعلوم فاروقیہ روالپنڈی حضرت مولانا قاضی عبدالرشید صاحب دامت برکاتہم نے مجمع سے خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے عصر حاضر میں دینی مدارس کو درپیش چیلنجز ،دینی مدارس اور اسلام کے نفاذ کی اہمیت اورمعاشرے میں سرایت کرنے والی مغربیت کی خرابیوں کا ذکر کیا۔ان کاکہنا تھا کہ پوری دنیا میں صرف ایک ہی طبقہ ہے جو امن و سکون اور ملک و ملت کی کامیابی کے لیے کامیاب انداز میںکام کرسکتا ہے۔ وہ طبقہ دینی مدارس کا ہے۔ جوں جوں جدید ذرائع آئے ہیں ان کے ساتھ ہی معاشرے میں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لیے جدید ذرائع سے استفادے کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ جامعة الرشید نے اس اہمیت اور ضرورت کو سب سے پہلے سمجھا اور جدید فنون و علوم کو قدیم اسلامی علوم کے تابع کرکے معاشرے میں اسلامیت کے نفاذ کی عملی صورت کے لیے کوشاں ہے۔ جامعة الرشید نے جو باصلاحیت افراد تیار کیے ہیں، قوی امید ہے کہ یہ افراد جدید و قدیم علوم و فنون سے آراستہ ہوکر امت مسلمہ کی بھلائی اور معاشرے میں اسلامیت کے عملی نفاذ کی راہ ہموار کریں گے۔

اس کے بعد تقریب کے پہلے حصے میں کچھ فضلاءکرام کو اسناد دی گئیں۔جن میں سب سے پہلے اسٹیج کے دائیں طرف بیٹھے حفاظ عربک، حفاظ انگلش کے بچوں کو مختلف مہمانان گرامی کے ہاتھوں سے اسناد دلوائی گئیں، اس کے بعد شعبہ تحفیظ القرآن کے بچوں کو اسناد دی گئیں۔ ان میں سے ہر شعبہ کے بعض بچوں کو کسی خاص کارکردگی پر خصوصی انعام بھی دیا گیا۔ اس کے بعد اسٹیج کے بائیں جانب بیٹھے دراسات دینیہ، یک سالہ عربی لینگویج کورس،یک انگلش لینگویج کو رس کے فضلاءکرام کو اسناد دی گئیں۔ اس کے بعد ڈائریکٹر آس اکیڈمی لاہور حضرت مولانا ڈاکٹر شاہد اویس صاحب نے بیان کیا۔ جس میں انہوں نے جامعة الرشید کی انقلابی سوچ اور یہاںکے نظم و ضبط اوریہاں سے فارغ ہونے والے فضلاءکرام کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ ملک کو گھرے مسائل سے چھٹکارہ دلانے کے لیے ایسے افراد ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے بعدماہر تعلیم و کالم نگار جناب پروفیسر ہارون الرشید نے مجمع سے خطاب کیا۔ انہوں نے عصری نظام تعلیم اور جامعة الرشید کے نظام تعلیم کے حوالے سے گفتگو کی اور بتایا جامعة الرشید کا تعلیمی نظام کس قدر عمدہ اور احسن ہے۔ انہوں نے کہا کہ جامعة الرشید کا کلیة الشریعہ کورس نہایت ہی عمدہ اور کامیاب کورس ہے۔ انہوں نے کہا میری معلومات کے مطابق پاک و ہند برصغیر میں کلیة الشریعہ کی نوعیت کا کوئی کورس نہیں جس میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ مدارس میں داخلہ لے کر مدارس کے تمام نظام سے مکمل استفادہ کرکے آگے جاکر دین کا کام کریں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہمارا ملک دنیا میں اپنابلند مقام پیدا کرے تو اس کے لیے جامعة الرشید جیسے ادارے بنانے ہوں گے اور ان افراد کو آگے لانا ہوگا جو دینی و دنیاوی علوم سے آراستہ ہوں، اس کے لیے ملک بھر کے عصری و دینی تعلیمی اداروں کو جامعة الرشید کی تقلید کرنی ہوگی بلکہ جامعة الرشید سے الحاق کیا جانا چاہیے۔ان کے بعد حضرت مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز صاحب سابق پروفیسر پنجاب یونیورسٹی، خطیب جامع مسجد ڈیفنس لاہور نے بیان کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ تمام تعلیمی اداروں کو جامعة الرشید کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔اس قسم کے ادارے ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کھلنے چاہئیں جہاں بھی باہمت افراد ایسا کام کرنا چاہیں تو عوام ان کا بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ جامعة الرشید کے تمام کام قابل تقلید ہیں۔ان کے بیان کے وقت اذان مغرب ہوگئی، جس کے ساتھ ہی تقریب کا پہلا حصہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

مجمع کی کثرت کی وجہ سے نماز مغرب کی ادائی کا انتظام دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد تقریب کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔تقریب شروع کرنے کے ساتھ اسٹیج کے دائیں جانب بیٹھے طلبہ کو اسناد دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ پہلے جامعة الریشد کے شعبہ کلیة الدعوہ کے طلبہ کو اسناد دی گئیں اور اس کے بعد تخصص فی القرات، تخصص فی الفقہ المعاملات، تخصص فی الصحافہ اور تخصص فی الافتا اور تخصص فی الفقہ کے طلبہ کو مختلف مہمانوں کو بلاکر ان کے ہاتھوں سے اسناد دلوائی گئیں۔اس کے بعد اسٹیج کے پیچھے لگے پروجیکٹر پر جامعة الرشید کے مجموعی کام کے حوالے سے ایک ڈاکومینٹری دکھلائی گئی۔ جس میں جامعة الرشید کے تمام اداروں کا تعارف تھا۔ سب سے پہلے جامعہ کے تعلیمی شعبوں کا تعارف کروایا گیا۔جن میںدرس نظامی،شعبہ مھد، شعبہ تحفیظ القرآن، دراسات دینیہ، تخصص فی الفقہ المعاملات، تخصص فی الفقہ، تخصص فی الافتائ، تخصص فی الانجلیزیہ، تخصص فی العربیہ، تخصیص فی الصحافہ، بی بی اے، ایم بی اے اور البیرونی اسکول کا تعارف کروایا گیا، اس کے بعد جامعة الرشید کے غیر تعلیمی ادارے جن میں اہم ادارے یہ ہیں۔ ایس سی ایس(شریعہ کنسیلٹنسی سروسز) جامعة الرشید کے تحت چلنے والا ادارہ ہے۔اس ادارے کے تحت المفتی آن لائن ویب سائٹ بھی چل رہی ہے۔ یہ ادارہ عوام الناس اور خصوصی طور پر تاجر برادری کو پیش آنے والے مسائل کا شرعی طور پرحل بتاتا ہے۔ ماویٰ ہوم جامعة الرشید کا ایسا ادارہ ہے جس میں یتیم بچوں کی کفالت اور ان کی تعلیم و تربیت کی مکمل ذمہ داری لی جاتی ہے۔ اس ادارے نے اس سال 50 بچوں کی کفالت کی ذمہ داری لی ہے۔ ”بچوں کا کلب“ بچوں کی تربیت کے حوالے سے جامعة الرشید کا ایک ادارہ ہے۔ شریعت اینڈ بزنس یہ جامعة کی طرف سے جاری کیا جانے والا ہفت روزہ رسالہ ہے۔ جس میں تجارت اور شریعت ساتھ ساتھ پیش کی جاتی ہے اور معاشی حوالے سے تمام مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے ۔حلال فاﺅنڈیشن پاکستان میں تمام اشیاءکی حرمت و حلت کو واضح کرنے والا وہ واحد ادارہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر کام کررہا ہے، کیوں کہ بہت سی ایشیاءباہر ممالک سے آتی ہیں، ان میں کئی اجزاءحرام بھی ہوتے ہیں لیکن لاعلمی کی وجہ سے عوام ان کو استعمال کرتے ہیں۔ اس ادارے نے اس حوالے سے کافی کام کیا ہے۔اس کے علاوہ شاد باد پاکستان پر بھی کام ہورہا ہے جس میں ملک بھر سے باصلاحیت نوجوانوں کو تعلیم دلواکر اعلیٰ سطح تک پہنچایا جائے گا تاکہ آگے جاکر ملک و ملت کے لیے بہترین کام کرسکیں۔جامعة الرشید کاسب سے اہم ادارہ پالیسی ریسرچ و ڈائیلاگ تھنک ٹینک کا قیام ہے۔ یہ تھنک ٹینک امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔اس کا دفتر اسلام آباد میں ہے۔

اس کے بعد معروف کالم نگار و اینکر پرسن جناب سلیم صافی نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا پاکستانی معاشرہ دو انتہاﺅں میں بٹ چکا ہے۔ ایک لبرلزم کی انتہا جب کہ دوسرا طبقہ شدت پسندی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ جب تک دونوں طبقے قریب نہیں آئیں گے اس وقت تک ملک و ملت کے حالات درست نہیں ہوسکتے۔دوسری بات انہوں نے یہ کی کہ افغانستان سے امریکا کا انخلا قریب ہے اب سب کو مل کر افغانستان کے مستقبل کے لیے غور و فکر کرنا ہوگی۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے جامعة الرشید جیسے ادارے انتہائی اہم کردار انجام دے سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان حضرات کے پاس دین و دنیا کا علم رکھنے والے افراد ہیں اس کے بعد چیئرمین سندھ انوسٹمنٹ بورڈ جناب زبیر موتی والا نے ایک جاندار بیان کیا، ان کا کہنا تھا ملک میں امن و سکون صرف مدارس اور دینی طبقہ کے لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرکے ہی لایا جاسکتا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ سب ہی لگاتے ہیں لیکن تبدیلی نعروں سے نہیں آتی اس کے لیے لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ وہ تبدیلی صرف جامعة الرشید اور دوسرے مدارس دینیہ سے فارغ ہونے والے طلبہ ہی لاسکتے ہیں،تبدیلی لانے کے لیے جامعة الرشید کی سوچ کو پھیلانا ہوگا۔ ہمیں مدارس کے طلبہ کے ذریعے تبدیلی اس وجہ سے نظر نہیں آرہی کیوں کہ ایسے افرد کی تعداد معاشرے میں کم ہے۔ ایک وقت آئے گا ان کی تعدادزیادہ ہوجائے گی تو ان شاءاللہ کراچی سمیت پورے ملک میں امن بھی آئے گا تبدیلی بھی آئے گی۔ اس کے بعد معروف کالم نگار و اینکر پرسن جناب جاوید چودھری نے گفتگو کی، اپنی گفتگو میں انہوں نے جامعة الرشید کی تعریف کی۔ لیکن بعض ایسی باتیں بھی کہیں جو ہمارے اسلاف کے کردار و عمل سے میل نہیں کھاتیں، ان کی گفتگو کے بعد مولانا عدنان کاکا خیل نے برجستہ اور مسکت جواب بھی دے دیا۔ ان کے علاوہ جناب ڈاکٹر عبدالرحمن ذکی چیئرمین کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول، جناب ڈاکٹر فقیر محمد انجم چیئرمین فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، جناب عرفان موتن چیئرمین سائٹ ایسوسی ایشن، جناب نعیم قریشی صدر کراچی بار ایسوسی ایشن اور کئی مہمانوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ تقریب کے آخر میں پیر طریقت مولانا عزیز الرحمن ہزاروں صاحب نے رقت آمیز دعا کروائی، دعا کے درمیان مجمع سسکیاں لے لے کر روتا۔ دعا میں عالم اسلام، پاکستان دینی مدارس، دینی طبقے کی بھلائی کی دعا کی۔ تقریب کے اختتام پر تمام شرکاءکے لیے کھانے کا انتظام مجمع کی کثرت کی وجہ سے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جامعة الرشید کے طلبہ کو کرسیوں پر ہی کھانا پہنچایا گیا تھا۔ انتظامیہ کی طرف سے بلائے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام جامعة الرشید کے کیمپس (ون) میں جب کہ طلبہ کی طرف سے بلائے گئے مہمانوں کے لیے جامعہ کے کیمپس (ٹو) میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.