خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنیؓ کا فرمان ہے کہ انسان کو کسی بات پر غصہ آنا ،اس
کے انسان ہونے کی دلیل ہے اور پھر اس غصے کو پی جانا اسکے مومن ہونے کی
پہچان ہے۔ اس ایک عظیم قول کے اندر ایک فلسفہ موجود ہے۔ اپنے معاشرے میں
بعد میں اور اپنے آپ پر پہلے نگاہ دوڑائی جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ
لگا یا جا سکتا ہے کہ ابن آدم کی جہاں مٹی سے تخلیق ہوئی ہے تو ساتھ ہی اس
مٹی کے پتلے کے اندر ایک آتش فشاں کی موجودگی کا پتا چلاہے۔ یہ آتش فشاں اس
وقت کھولتا ہے جب اس پر بیرونی ضرب لگتی ہے۔ یہ بیرونی ضرب در اصل وہ
ناگوار بات ہے جو کسی بھی انسان کو دوسرے انسان کے قول،فعل اور احساسات و
حرکات کی نسبت پہنچتی ہے۔ یہ ضرب جب انسان کے دل و دماغ کو لگتی ہے تو اندر
آتش فشاں پھٹتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو لاوا باہر کو نکلتا ہے وہ غصہ کی
شکل میں آتا ہے۔ غصہ ایک ایسا خطرناک عمل ہے جس کی ضرب انسان کو اس وقت
محسوس نہیں ہوتی جب وہ اس کا اظہار کر رہا ہوتا ہے ۔ گالم گلوچ،ما ر کٹای،
برے الفاظ و القابات کی بوچھاڑ،ماضی کے واقعات کو موجودہ حالت میں لا کر
ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی لاج نہ رکھنا سمیت دیگر عوامل غصہ کے اظہار میں
شامل ہیں۔ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھنے کی وجہ سے غصے میں بے حال جو دل
چاہتا ہے وہ اس وقت ہم اظہار کر دیتے ہیں اور جب غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تب اپنی
غلطی و ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ شیخ سعدی ؒ کا قول ہے کہ غصہ ہمیشہ تنہا
آتا ہے اور اپنے ساتھ جاتے ہوئے حسن و اخلاق،سیرت و کردار ،عقل سمیت سب کچھ
لے جاتا ہے ۔ غصہ دراصل انسان کی انا کا نام ہے۔انا انسان کو نظر سے گرا کر
قدموں پر بیٹھا دیتی ہے۔ انا اس کھولتے ہوئے گرم پانی کی مانند ہے ،جس کے
نیچے ہر وقت آگ جل رہی ہے اورگرم پانی کھول رہاہے۔ ہم لوگ کسی کی چھوٹی بات
کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر اس پر یوں برستے ہیں کہ اللہ پنا ہ دے۔ انا
دنیا کے مہلک ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہے۔ کسی بھی اسلحہ کے غلط استعمال
سے آپ کسی کا بھی خون ایک مرتبہ کر سکتے ہیں لیکن انا آپ کے تمام
سیاسی،سماجی ،مذہبی،علاقائی تعلقا ت کا خون کر دیتی ہے اور آپ اپنی انا کی
وجہ سے کچھ اچھا کرنے کا قابل نہیں رہتے۔ انسان کے ذریعے دو طرح کے زخم
پہنچتے ہیں ایک تلوار سے اور دوسرازبان سے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تلوار کا
لگایا زخم ٹھیک ہو سکتا ہے مگر زبان کے ذریعے دیا ہو ا زخم مندمل نہیں
ہوتا۔غصہ جذبات سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے۔ گزشتہ عرصہ ایک
ایسی جگہ جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک دیوار پر کچھ یوں تحریر تھا5’’منٹ کے
جذبات اور 25سال کی ندامت۔۔۔۔!!‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تمہیں غصہ آئے تو تم وضو کرو،ایک
اور جگہ فرمایا ہے کہ جب تمہیں غصہ آئے اور تم کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ ،اگر
بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔ ایک اور مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے کہ اگر تمہیں غصہ آئے تو تم پانی پیو۔ غصے میں اپنے آپ کو کنٹرول
کرنا چاہیے اور اگر کسی کی بات ناگوار گزرے تو عفو و درگزر سے کام لینا
چاہیے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کرامؓ کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے ،اتنے
میں ایک بدو(دیہاتی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا او ر اپنی
چادر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچنے لگاا ور
اتنے زور سے کھینچی کہ چادر کے نشانات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن
مبارک پر ظاہر ہوگئے اور گردن مبارک سرخ ہوگئی اور ساتھ بدونے کہا کہ اے
محمدصلی اللہ علیہ وسلم مجھے دو اونٹ دیجیئے ایک پر جو لدے ہوں اور دوسرے
پر کجھوریں۔ یہ ماجرا دیکھ کر صحابہ کرامؓ اس بدو کر مارنے کے لیے اٹھے تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں منع فرمایا اور بدو سے مخاطب ہو
کر فرمایا کہ اے اعرابی تجھ سے تیری اس حرکت کا بدلہ لیا جائے گا ،یہ سن کر
بدو بولا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں اور برائی کا بدلہ
برائی سے نہیں بلکہ نیکی سے دیتے ہیں،یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ اس بدو کو جو اور کجھوروں سے لدے ہوئے دو اونٹ
دیئے جائیں ۔ یہ تھا اخلاق،کس قدر گستاخی کی گئی اور ہمارے پیارے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے کیا رویہ اختیا ر کیا، عفو و درگزر سے کام لیا۔ نواسہ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرزند علیؓ حضرت حسنؓ اپنے مہمانوں کے ہمراہ
دسترخوان پر تشریف فرما تھے اور ان کی لونڈی کھانا لگانے میں مصروف
تھی،لونڈی سالن سے بھرا برتن لے کر آئی اور نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے قریب پہنچی تھی کہ برتن اس کے ہاتھ سے پھسل گیا اور سارا سالن حضرت حسنؓ
کے اوپر گر گیا۔ لونڈی حواس باختہ ہو گئی اور حضرت حسنؓ نے لونڈی کی جانب
تیز نگاہ سے دیکھا تو وہ فورا بول اٹھی (والکظمین الغیظ )غصہ کو پی جانے
والے،یہ سننا تھا کہ حضرت حسنؓ نے فورا کہا کہ میں غصہ میں نہیں ہوں، لونڈی
فورا بول پڑی( والعافین عن الناس)اور لوگوں سے در گزر کرنیوالے،حضرت حسنؓ
نے پھر جواب دیا ،میں نے تجھے معاف کیا،لونڈی نے پھراسی آیت مبارکہ کا اگلا
حصہ پڑھا(واللہ یحب المحسنین)اللہ نیک و کاروں کو پسند کرتا ہے،یہ سننا تھا
کہ حضرت حسنؓ نے اپنی اس لونڈی کو آزاد کر دیا۔ (یہ آیت مبارکہ سورۃ آل
عمران کی آیت نمبر 134 کاآخری حصہ ہے اور یہ واقعہ اس آیت مبارکہ کی
تفسیرمیں ہماری اصلاح کے لیے درج ہے )۔ حضرت حسنؓ نے کس طرح اپنے قول و فعل
سے اللہ کے دین کی نا صرف حفاظت کی بلکہ قرآن حکیم کی آیت مبارکہ پر عمل کر
کے ہمارے لیے ایک بہترین سبق اور راہ متعین کر دی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے ،صحابہ کرامؓ کی سیرت
کا مطالعہ کیا جائے تو بے شمار اس قسم کے ایمان افروز واقعات ملتے ہیں
جنہیں دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں غصہ سے اجتناب اور عفو و
درگزر کرنے کا کتنا حکم و فضلیت ہے۔ غصہ ایک شیطانی عمل ہے اور آسان الفاظ
میں کسی دوسرے کے نا گوار عمل کی سزا اپنے آپ کو دینا غصہ کہلاتی ہے۔ ہم
جانتے ہیں کہ شیطان ہمارا دشمن ہے اور شیطان بھی آگ سے بنا ہے اور غصہ بھی
نار ہے۔ شیطان ابن آدم سے اپنے جنت سے نکالے جانے کا بدلہ لے رہا ہے اور
ہمیں گمراہ و غصہ دلوا نے کے لیے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ہمیں غور کرنا
چاہیے اپنے آپ پر اور کسی کی ناگوار بات سن کر کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اسے
اپنے اندر جذب کر لیں اور یہی رحمان کے بندوں کی صفت ہونی چاہیے۔ ہمیں
چاہیے کہ ہم لوگوں کی ناگوار باتوں پر ان کو ایسے معاف کریں جیسے ہم اپنے
رب سے اپنی معافی کی امید رکھتے ہیں۔ |