پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس نے ایک ایسے
تیرہ سالہ لڑکے کو بازیاب کرا لیا ہے جسے فیس بک کی مدد سے اغوا کیا گیا
تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایک جرائم پیشہ گروہ
نے ایک ماہ پہلے اس لڑکے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر آن لائن
گیمنگ دوست بن کر رابط کیا۔
|
|
حکام کا کہنا ہے کہ اس کے بعد لڑکے کو ایک ہفتہ قبل گھر سے باہر ملاقات کا
جھانسا دے کر بلایا گیا اور اغوا کر لیا گیا۔
اغواء کاروں نے رہائی کے بدلے پانچ لاکھ ڈالر یا پانچ کروڑ پاکستانی روپے
کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان میں جرائم پیشہ افراد اور شدت پسند اکثر اوقات اغواء کے واقعات میں
ملوث ہوتے ہیں تاہم سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے بچوں کو اغواء کے
لیے جھانسا دینا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔
اطلاعات کے مطابق بازیاب ہونے والا تیرہ سالہ لڑکا ایک اعلیٰ کسٹم آفیسر کا
بیٹا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام موبائل فونز کے ریکارڈ کے
ذریعے اغواء کاروں تک پہنچے۔
ایک اہلکار کے مطابق لڑکے کی بازیابی کے لیے کیے گئے آپریشن میں چار اغواء
کار مارے گئے۔
بچے کی ماں نے دوسرے بچوں کے والدین سے درخواست کی ہے کہ فیس بک کے استعمال
کے دوران اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔
|
|
جنگ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق:
سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی
سی سی) نے حب چوکی کے قریب مشترکہ کاروائی کر کے ایک مغوی بچے کو بازیاب
کرا لیا۔
سیکورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں 4 اغوا کار مارے گئے جن کا تعلق
لیاری گینگ وار سے تھا۔ ملزمان کے ایک ساتھی کو پولیس نے زخمی حالت میں
گرفتار کرلیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں پولیس کے 2 سپاہی بھی زخمی ہوئے۔
اغوا کاروں نے مغوی بچے کی رہائی کے عوض 5 کروڑ روپے تاوان مانگا تھا۔
تفصیلات کے مطابق بہادر آباد کے رہائشی تاجر رضوان ڈوسل کے 13 سالہ
صاحبزادے مصطفی ڈوسل کو جمعہ 24 مئی کو اغوا کیا گیا جس کے بعد اغوا
کنندگان نے مغوی کے لواحقین سے 5 کروڑ روپے تاوان طلب کیا۔
|
|
مغوی کے اہلخانہ نے اس کی اطلاع پولیس اور سی پی ایل سی کو دی۔ پھر سی پی
ایل سی کے چیف احمد چنائے اور اے وی سی سی کے ایس ایس پی نیاز احمد کھوسو
کی سربراہی میں ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی گئی جس نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز۔II میں واقع فاؤنڈیشن اسکول کے نویں جماعت میں
زیرتعلیم مصطفی ڈوسل کے سماجی ویب سائٹ ”فیس بک“ پر اس کے ہم عمر ارسلان سے
دوستی ہو گئی تھی جو ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی فیز۔IV کا رہائشی اور ایک سابق
کسٹم آفیسر کا بیٹا تھا۔
ارسلان کے توسط سے مصطفی اس کے بڑے بھائی 29 سالہ تیمور سے فیس بک پر کبھی
کبھی بات کر لیتا تھا جمعے کو ارسلان نے مصطفی کو دوپہر کے کھانے پر اپنے
گھر بلایا تھا جس کی اطلاع مصطفی کے والدین کو تھی پھر 24 مئی کو صبح 11
بجے تیمور اپنی گاڑی میں مصطفی کو لینے اس کے اسکول پہنچا مگر وہ اسے اپنے
گھر لے جانے کے بجائے حب چوکی کے قریب ایک گوٹھ لے گیا اور وہاں بہانے سے
مصطفی کو اتار کر ایک گھر میں قید کر لیا گیا۔
ملزمان نے اسے وہاں ایک زنجیر سے باندھ کر رکھا تھا۔ شواہد کی بنیاد پر سی
پی ایل سی اور اے وی سی سی کی مشترکہ ٹیم نے پہلے تیمور کو اس کے گھر سے
حراست میں لیا اور پھر اس کی نشاندہی پر پیر کو علی الصباح حب چوکی کے قریب
متعلقہ گوٹھ پر چھاپہ مارا تو وہاں موجود اغوا کاروں نے فائرنگ شروع کردی
جس کی زد میں آکر پولیس کے 2 سپاہی اور ملزم تیمور زخمی ہو گیا۔
بعدازاں پولیس کی جوابی فائرنگ میں 4 اغوا کنندگان مارے گئے اور مغوی بچے
کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔ مارے گئے اغوا کاروں میں سے 2 کی شناخت لیاری
کے رہائشی ماجد ولد احمد بلوچ اور مواچھ گوٹھ کے رہائشی امتیاز ولد محمد
اعظم بلوچ کے ناموں سے ہوئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مارے گئے ملزمان کا تعلق لیاری گینگ وار سے ہے ان کے
پاس سے اسلحہ اور کارتوس بھی برآمد ہوئے جبکہ ملزم تیمور کو پولیس نے حراست
میں لیکر تفتیش شروع کر دی ہے۔ |