قرۃالعین حیدر نام ہے اس ادبی
لیجنڈ کا جس نے اردو فکشن کا وقار بالا کیا۔ظاہر ہے کہ ان کے ادبی قد کا
ذکر نہ تو اتنا آسان ہے اور نہ ہی اتنا مختصر کہ جسے چند صفحات کے مضمون
میں قلم بند کر دیا جائے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آمدم برسرِ مطلب کہہ
کر جلد از جلد اپنے موضوع کی طرف ہی آجایا جائے۔
میرے پیش نظر ان کا ناولٹ ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ ہے جسے ان کے شاہکار میں شمار
کیا جاتا ہے۔ اور جو 1966میں شائع ہو کر مقبول ہو چکا تھا۔ در اصل یہ ناولٹ
بھی آگ کے دریا کی طرح بٹوارے کے حالات پر مبنی ہے۔ عینی آپا کا دورِ تحریر
1940سے شروع ہو کر 2000پر محیط ہے(2000کے بعد ان کی کوئی تحریر سامنے نہیں
آئی) اس ساٹھ سالہ دور میں ہند و پاک پر جس واقعہ کا سب سے بڑا اور گہرا
اثر پڑا ہے وہ بٹوارہ ہے۔ عینی آپانے اس تمام واقعے، حادثے اور سانحے کا
بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہمیشہ
رہا وہ یہ کہ جب انھوں نے اس جہانِ رنگ و بو میں آنکھ کھولی یعنی1926میں اس
وقت تک انگریز سرکار اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے بعد ہندوستان پر پوری
طرح قابض ہو چکے تھے صرف ایک چیز تھی جو ہندوستانیوں میں باقی تھی وہ ان کی
جاگیرداری تھی جسے انگریزوں نے بشرطِ وفاداری چند علاقوں میں ودیعت کر
رکھّی تھی لیکن اس پر انھوں نے اپنی گرفت مضبوط کی ہوئی تھی اور وقتاً
فوقتاً وہ ان جاگیرداروں،تعلقہ داروں اور زمین داروں کو معمولی معمولی
باتوں پر بھی صرف اس لیے بھی سخت سے سخت سزائیں دیتے تھے تاکہ دوسرے
جاگیردار و تعلق ہ دار ہی نہیں بلکہ عام عوام بھی ان کے رعب میں رہیں اور
وہ اس میں کامیاب رہیں۔ عینی آپا کی تمام تحریروں کو پڑھنے سے اس امر کا
صاف پتہ چلتا ہے۔
ان کی تحریروں کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ جس طرح آزادی کی اولین جنگ
1857کو سمجھنے کے لیے مرزا غالب کے خطوط کو پڑھنا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح
ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور دو تہذیبوں کے زبردست ٹکراؤ کو سمجھنے کے
لیے عینی کی تحریروں کا پڑھنا نا گزیر ہے۔
ہاؤسنگ سوسائٹی میں عینی آپا نے جہاں ایک طرف بٹوارے کے پہلے کے ہندوستان
کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے وہیں بٹوارے کے بعد ان افراد کی تبدیلی ذہن
کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
ناولٹ کے شروعات میں ہی جس طرح انھوں نے جاگیرداری نظام کے کاروبار کو ایک
فیصلے کی محفل منعقد کر کے پیش کی ہے وہ اس پورے نظام کے جبر کو واضح
کردینے کے لیے کافی ہے۔
’’سورج کی روشنی تیز ہوئی کیمپ میں چہل پہل شروع ہو گئی۔ آم کے باغ میں
اجلاس لگ گیا دور دور تک کھیت کی منڈیروں کے ساتھ یکّے،ادھے،بہلیاں اور
سائکلیں کھڑی تھیں۔ اہل کار عرضی نویس محرر، کسان، زمیندار،گواہ،موکل
درختوں کے نیچے بیٹھے تھے۔ دو کہار ایک ڈولی اٹھائے اجلاس کی سمت آئے ڈولی
درخت کے نیچے رکھدی گئی اس کے اندر بیٹھی عورت آہستہ آہستہ رونے لگی۔ مقدمے
کی سماعت کا آغاز ہوا عورت نے اپنا بیان دیا۔ پھر وہ سسکیاں بھر بھر کر
رونے لگی۔‘‘
اس پہلے حصّے میں جو کردار ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ہیں مرزا قمر الدین احمد
کی اہلیہ جنھیں لوگ میم صاحب اس لیے کہتے ہیں کہ وہ انگریز نژاد ہیں لیکن
انگریزی انھیں واجبی سے آتی ہے اور ان کی چھوٹی سی بیٹی جو ہاتھی پر سوار
ہو کر مسماۃ ثریا سلطان عرف بسنتی بیگم کے سامنے سے گذرتی ہے جس کی ماں
اپنے بیٹے کے قتل اور بارہ سالہ ثریا کے اغوا کا کیس لے کر تعلقہ دار کے
عدالت میں حاضر ہے اور رو رہی ہے بارہ سالہ اس بچّی بسنتی بیگم نے جب اپنی
عمر سے کچھ چھوٹی بچی کو ہاتھی پر سوار دیکھا تو اسے پریوں کی کہانیوں والی
پری یاد آ گئی اور اس کی تصویر زمین پر اکیرنے لگی۔ کہانی رفتہ رفتہ آگے
بڑھتی ہے اور مختلف حالات کے تحت بٹوارہ ہو جاتا ہے لوگ ادھر سے ادھر منتقل
ہو جاتے ہیں پریوں جیسی لگنے والی لڑکی جسے سارے علاقے کے لوگ چھوٹی بٹیا
کے نام سے جانتے ہیں کراچی میں آکر ایک بوسیدہ مکان میں اپنی ماں میم صاحب
کے ساتھ مقیم ہوتی ہے اور پھر اپنے علاقے کے ایک معمولی کارندے کے بیٹے
جمشید علی کے یہاں جو یہاں ایک بڑا کاروباری ہے نوکری کرتی ہے شروع شروع
میں وہ ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے ہیں لیکن بڑے ڈرامائی انداز میں جب ان
دونوں کے درمیان بسنتی بیگم جو اب معروف آرٹسٹ ثریا حسین ہو گئی ہے کا
داخلہ ہوتا ہے تو پھر اس کا راز کھلتا ہے کہ ثریا مرزا کون ہے۔
عینی آپا کے تمام ناول اور ناولٹوں کی طرح اس ناولٹ میں بھی کرداروں کی
بہتات ہے۔ لیکن ان تمام کرداروں کے بیک گراؤنڈ میں جو یکسانیت ہے وہ صرف یہ
کہ یہ سب بدلتی ہوئی تہذیب اور اس کے مختلف رنگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
عینی آپا کے اس ناول میں مارکسیت ایک خاص انداز میں رونما ہوتا ہے اور بڑے
ہی عجیب انداز میں اس کا انجام ہوتا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ
کہیں قرۃ العین حیدر مارکسزم سے متاثر تو ہیں لیکن ان کے لیڈروں کے رویّے
سے بے حد نالاں بھی۔اس ناولٹ میں سلمان مرزا ایک ایسا ہی کردار ہے جو مرزا
قمر الدین کا لڑکا اور چھوٹی بٹیا سلمیٰ مرزا کا بھائی ہے۔ ماں باپ کی
خواہش ہے کہ وہ کمپٹیشن کے اگزام میں بیٹھ کر اعلیٰ عہدے دار بنے لیکن وہ
مارکسزم سے متاثر ہو کر سب کچھ چھوڑ دیتا ہے اور فکری طور پر ہی نہیں بلکہ
پوری طرح سے کمیونسٹ بن جاتا ہے بٹوارے کے بعد وہ پاکستان بھی جاتا ہے لیکن
وہاں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جاتا ہے۔
عینی آپا نے اس ناولٹ میں جہاں دو تہذیبوں کی رسّہ کشی کو پیش کیا ہے وہیں
عورتوں کے مسائل کو بھی سامنے رکھا ہے جمشید اور اس کی منکوحہ منظور النسا
کی شادی جو جمشید کی چچازاد بہن ہے اور پھر ان کا طلاق اور آخر میں اس کی
موت ناول کو انتہائی سنگین صورتحال سے دو چار کر دیتے ہیں۔ عینی آپا کا
کمال ہے کہ وہ ہر ناول یا ناولٹ میں جس طرح مسائل کو پیش کرتی ہیں ایسا
لگتا ہی نہیں کہ وہ اسے پیش کرنا چاہتی ہوں ۔ مسائل کرداروں کے ساتھ خود
بخود سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہاؤسنگ سوسائٹی اس ذہن کے لوگوں کو
معقول جواب فراہم کرتا ہے جن کو لگتا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ایک خالص
اسلامی ملک کا نقشے میں اور اضافہ ہو جائے گا لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس
ہے۔
ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہندوستان کے مشترکہ کلچر اور تہذیب کی جس طرح نمائندگی
ملتی ہے اسے شاید ہی کسی اور اردو کے قلمکار نے اس طرح پیش کیا ہو۔
جمشید جب پاکستان میں سیٹل ہو جاتا ہے اور بڑا کاروباری بن جاتا ہے تو اسے
اپنی بیٹی کا خیال آتا ہے جو ہندوستان میں اس کی مطلقہ بیوی کے ساتھ ہے وہ
اسے لینے اپنے آبائی گاؤں آتا ہے اور جب وہاں وہ اپنے چچایا خسر سے اس کی
تعلیم کے بارے میں پوچھتا ہے تو اسے جواب ملتا ہے:
’’ہم خود پڑھاتے ہیں اردو اور قرآن شریف، شمبھو بھیّا انگریزی بھی پڑھادیتے
ہیں اے،بی،سی،ڈی۔ گوسائیں بھیّا اسے ہندی پڑھا رہے ہیں ۔سید مظہر علی نے
فخر سے بتایا جمشید کو ایسا محسوس ہوا جیسے گاؤں کے لوگ اس کی بیٹی کو ذاتی
ذمّہ داری سمجھتے تھے۔ وہ یہ کہنے ہی والا تھا کہ اس کا ارادہ ہے کہ کراچی
لے جانے کے کچھ عرصے بعد وہ فرحت النسا کو تعلیم کے لیے سوئٹزر لینڈ بھیجدے
مگر اب چچا ابااور شمبھو دادا اور گوسائیں کا کا کو یہ بتاتے ہوئے اسے بے
حد شرم آئی۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس صرف فکشن کا حصّہ نہیں بلکہ حقائق کی روداد ہے جس کے بل
پر ہندوستان کے لوگ آج بھی ساری دنیا میں اپنی ایک الگ اور قابلِ مبارکباد
شناخت رکھتے ہیں اور یہی وہ حصّہ ہے جسے لکھ کر عینی نے ادب کی دنیا میں
بھی حقائق کی روداد لکھنے کی مدعی قرار دی گئی ہیں۔ عینی نے کبھی بھی
ناسٹلجیا کو منفی انداز میں پیش نہیں کیا بلکہ وہ اس کے لیے ایک معقول جواز
فراہم کرتی ہیں اپنے ادب پارے میں اس کے لیے گنجائش نکالتی ہیں کردار خلق
کرتی ہیں ان کرداروں کی تاریخی حیثیت کی پڑتال کرتی ہیں تب جا کر اسے پیش
کرتی ہیں۔
عام طور پر لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ عینی آپا نے جاگیردارانہ گھرانے
میں آنکھ کھولی اور ان کے فن پارے میں اس طبقہ کی بہترین نمائندگی ملتی ہے
یہ حقیقت تو ہے لیکن ہاؤسنگ سوسائٹی میں انھوں نے جاگیردارانہ سماج پر جس
طرح گرفت کی ہے اور اس کے لیے جس طرح کا بیک گراؤنڈ انھوں نے خلق کیا ہے
اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا۔
ناولٹ کے آخر میں ناولٹ نگار نے جس طرح اس کا اختتام کیا ہے وہ ہاؤسنگ
سوسائٹی کو پوری طرح اجاگر کر دیتا ہے۔ ہاؤسنگ سوسائٹی ہے کیا ایک ایسا
استعارہ جس کے ذریعہ سماج کے اس طبقے کو اکھٹا دکھانا مقصود ہے جو صرف ذاتی
مفاد اور پیسے کے حصول کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن اس ہاؤسنگ سوسائٹی
میں جگہ حاصل کرنے کے لیے جو کچھ فروخت کرنا پڑتا ہے اسے ناول نگار کی
زبانی سنیے ناولٹ کا یہ وہ حصّہ ہے جہاں جمشید یہ جان چکا ہے کہ اس کی
پرسنل سکریٹری ماضی کی جاگیردار چھوٹی بٹیا ہے جو پریوں کی طرح ہاتھی پر
بیٹھ کر سیر کیا کرتی تھی۔ وہ اسے ایک خط لکھتا ہے اور کہتا ہے۔
’’بٹیا میں در پردہ ہر ممکن طریقے سے آپ کی مدد اور اعانت کروں گا اور آپ
کو کسی بھی دفتر میں ایک معقول ملازمت دلوا دوں گا۔ آپ کی اور آپ کی والدہ
صاحبہ مکرمہ کی خدمت میرا فرضِ اولین ہے۔ بٹیا — اب میں آپ کے بزرگ کی
حیثیت سے چند پند و نصائح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ دنیا
بڑی ذلیل جگہ ہے میں بھی دنیا کا ایک فرد ہوں۔ آپ کے بھائی نے دنیا سے
سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اور
امید ہے کہ بہت جلد اسے معلوم ہو جائے گا یا شاید معلوم ہو چکا ہو کہ اس کے
تجزیے اس کی انتہا پسندی اور آئیڈیلزم قطعاً غلط ہے۔ آپ نے اپنے حالات اور
اپنی مجبوریوں کے تحت میرے ذریعہ دنیا سے ایک حد تک سمجھوتہ کر لیا جس طرح
ثریّا نے میرے ذریعہ دنیا سے سمجھوتہ کر کے سورج کے نیچے اپنی جگہ بنالی
مجھے یقین ہے کہ قطعی فیصلہ کرنے سے قبل اسے شدیدذہنی کش مکش کا سامنا کرنا
پڑا ہوگا۔ مگر اسے معلوم ہو چکا ہے اور آپ بھی دیکھ چکی ہیں کہ آج کی دنیا
ایک بہت عظیم الشان بلیک مارکیٹ ہے جس میں ذہنوں دماغوں، دلوں اور روحوں کی
اعلیٰ پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے فن کار دانش ور، عینیت پسند
اور خدا پرست میں نے اس چور بازار میں بکتے دیکھے ہیں میں خود اکثر ان کی
خرید و فروخت کرتا ہوں۔
میں یہ سب باتیں آپ کو اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آپ ذہنی طور پر بڑی ہو جائیں
اور زندگی کی طرف سے کسی قسم کے مزید الوزن اور خوش فہمیاں آپ کے دل میں
باقی نہ رہیں ورنہ آپ کو مرتے دم تک مزید صدمے اٹھانے پڑیں گے۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ قلمکار نے کس خوبی کے ساتھ نئی تہذیب کے ساتھ در آئی نئی
ذہنی تہذیب کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے اور جن باتوں پر انھوں نے انگشت
نمائی کی ہیں ان تمام چیزوں کی کتنی توانا شکل آج ہمارے سامنے مجسم موجود
ہیں ہم دیکھ رہے ہیں محسوس کر رہے ہیں کہ اس آکٹوپس نما عفریت نے ہمارے
پورے عہد کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور ہم بے بسی سے اپنی تمام چیزوں کو
فنا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے اس ناولٹ میں یہ صاف کر دیا ہے کہ :
’’جس نظام نے اس مذہبی عصبیت کو جنم دیا اسی عصبیت کے ہاتھوں اس سماج کے
محل جلا دیے گئے۔ مگر ثریا محض اسی وجہ سے آج ان بنیادی تقاضوں کو مزید
تقویت حاصل ہوئی ہے ماضی کی محل سرائیں جل کر راکھ ہوئیں مگر ابھی ان ملبوں
کی بنیادوں پر دونوں ملکوں میں نئی بورژوازی کے نئے محل کھڑے ہوں گے کل کے
جاگیردار کی جگہ آج کا سرمایہ دار حاصل کرے گا۔‘‘
یہ وہ حقائق ہیں جن کا انکشاف کرنا اس ناولٹ کا مقصد ہے اور یہ ایقان ہے یا
تجربہ یا پھر ایک قلم کار کی دور بینی جسے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے
سماج میں اتنے ذہین و حق پسند قلم کار پیدا ہوئے ہیں۔اسی لیے عینی ایک عہد
پر حکومت کرتی رہیں اور آج ان کے انتقال کے بعد ایسا لگنے لگا ہے کہ اردو
دنیا میں جو خلا پیدا ہو گیا ہے اس کا پُر ہونا تو دور اس میں اڑوار لگانا
بھی نا ممکن ہے۔ |