ایک دوست ہیں ہمارے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کا بھی چہرہ دیکھ کر اُس کی اصلیت
جان سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔
صاحب، یہ ہمارے دوست کا دعویٰ ہے، ہمارا نہیں۔ کیونکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ خود
اپنا چہرہ دیکھ کر بھی اپنی اصلیت نہیں جان سکتے تو بھلا کسی اور کی کیا خاک جانے
گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!۔
ہاں البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی کے ساتھ کچھ مدت کے لیئے میل جول اور
گفت و شُنید ہوتی رہے تو کسی حد تک موصُوف یا موصُوفہ کے بارے میں کچھ ٹوٹا پھوٹا
سا اندازہ لگا ہی لیا کرتے ہیں۔ البتہ پورے وثوق کے ساتھ پھر بھی کہہ نہیں سکتے کہ
ہمارا اندازہ کتنا درست ہوتا ہے کیونکہ ہم تو اِس بات پر ایمانِ کامل رکھتے ہیں کہ
دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
لیکن انسانوں کا ایک طبقہ ایسا ضرور ہے جن کے بارے میں پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں
کہ ہم ان کی اصلیت سے خاطر خواہ حد تک واقف ہیں۔ البتہ یہ واضح کرتے چلیں کہ یہ
واقفیت ہمارے اُن دوست صاحب کی مانند ہرگز نہیں کہ جنھیں اپنی پہلی اور میلی نظر پر
اتنا گمان ہے کہ بقول اُن کے وہ زیرِتبصرہ شخصیت کی سات پشتوں تک کی اصلیت بتا اور
جتا سکتے ہیں۔
ہمارا یہ دعویٰ تو بس ہمارے حقیر سے مشاہدے کا مرہونِ منت ہے کہ جب سے ہوش سنبھالا
ہے اِس طبقے، جو کہ ملک کے طُول و عرض بلکہ گوشے گوشے اور ہر کونے کُھدرے میں یوں
وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جیسے کسی مٹھائی والے کی دکان پر مکھیاں۔ سچ پوچھیئے
تو اِن کی حرکات بھی مکھیوں سے کافی مشتریک ہیں۔ جیسے مکھیاں جہاں میٹھا دیکھتیں
ہیں فوراً ہی وہاں پل پڑتی ہیں۔ ٹھیک اُسی طرح سے یہ لوگ بھی کچھ اہسی ہی صفاتِ
فقیرانہ سے مالامال ہیں کہ جہاں حلوہ مانڈہ دیکھا تو نہ آو دیکھتے ہیں نہ تاو بس
جئے، ذندہ باد، بلے بلے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، کا فلک شگاف نعرہِ مستانہ بلند کرتے ہوئے
ایسے پل پڑتے ہیں کہ جب تک وہ سارا "حلوہ مانڈہ" چٹ کر نہ لیں چین سے نہیں بیٹھتے۔
ہاں البتہ اِن میں اور مکھیوں میں اتنا تفاوت ضرور ہے کہ بے چاری مکھیوں کا کہنا
ہے: "مپٹھا میٹھا ہپ ہپ تے کڑوا کڑوا بھی ہپ ہپ"۔ لیکن صاحب، ان لوگوں کا کہنا ہے:
" میٹھا میٹھا ہپ ہپ تے کڑوا کڑوا تھو تھو"۔ بلکہ کہنا کیا یہ تو ان کا ازلی ٹریڈ
مارک ہے۔
تو صاحبان، اب تک تو آپ سب سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہم کس مخلوق کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اُس دوست کی طرح سے آپ میں سے بھی کئی ایسے ہیں جو
ماشاءاللہ اڑتی چڑیا کے بھی پر گن لیتے ہیں تو بھلا اس زمینی مخلوق اور اُس کی
حرکات اور اصلیت سے بھلا کیوں کر واقف نہ ہوں گے۔
جی ہاں یہ حضرات ہمارے "سیساسی کارکنان" ہیں جو ہر تقریب، جلسے و جلوس میں محض اُس
وقت تک ہی صبرِ و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جب تک کھانا کھل نہیں جاتا، کیک کٹ
نہیں جاتا اور کہیں کسی سیساسی تقریب یا جلسے و جلوس میں جو اگر والاً بیان کردہ
لوازمات نہ ہوں تو پھر اِس صورت میں جلسہ گاہ میں لگیں کرسیاں دیکھ نہیں لیتا اپنی
بھرپور سیساسی بصیرت کا بھرپور مظاہرہ کرتا رہتا ہے لیکن جہاں کھانا کھلنے اور کیک
کٹنے کا اعلان ہوا بس اللہ کی پناہ وہ بھگڈر مچتی ہے کہ مانو جیسے اس تقریب یا جلسے
میں تقسیم کیا جانے والا کھانا یا کیک ان کی ذندگی میں انہیں میسر آنے والا پہلا
اور آخری من و سلویٰ ہی تو ہو۔
ہم ذاتی طور پر ایسے درجنوں کارکنان سے واقف ہیں کہ وہ کسی بھی سیساسی تقریب میں
جانے سے پہلے یہ ضرور معلوم کرلیتے ہیں کہ آیا وہاں کیک شیک، بوتل شوتل، بریانی
سریانی، روٹی شوٹی اور کرسی شُرسی کا تسلی بخش انتظام ہے یا نہیں اور اگر جو ایسا
نہیں ہے تو پھر حاضری الاوئنس کی مد میں کچھ نقد نقدی ہاتھ آنے کی امید ہو تو ہی
مذکورہ سیساسی تقریب، جلسے و جلوس کے منتظمین کو پُٹھے پر ہاتھ دھرنے کی اجازت دیتے
ہیں۔ بصُورت دیگر آپ سب نے مرزا داغ دہلوی کا وہ شعر تو سنا ہی ہوگا اور اگر جو آپ
نے نہ بھی سنا ہو تو انہوں نے نہ صرف سن بلکہ اپنی گرہ سے باندھ بھی رکھا ہے:۔
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
اِن سیاسی تقریبات، جلسے اور جلوسوں میں ہونے والی عظیم الشان بھگڈر کی تازہ ترین
مثال 28 مئی کو منائے جانے والے ایٹمی دھماکہ کی سالگرہ کے موقعہ پر دیکھنے میں آئی
کہ جب کارکنان کی جان تقریب میں سجے سجائے کیک دیکھ دیکھ کر لبوں تک آ گئی۔ جیسے ہی
کیک کٹا ویسے ہی سب نے اس معصوم و مسکین سے کیک پر ہلہ بول دیا۔ ایک منچلے تو سارے
کا سارا کیک ہی اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا۔ اُس کی یہ جراتِ رندانہ دیگر ساتھیوں کے
لیئے مہمیز ثابت ہوئی اور وہ سب بھی وہاں موجود دیگر کیکوں پر ٹوٹ پڑے۔ جسے پلیٹ
میسر آئی وہ بھی اور جیسے نہ آئی وہ بھی۔ ہاں البتہ پلیٹ کے بغیر ہی ٹوٹ پڑنے والوں
نے اپنے ہاتھوں ہی میں کیک کو کچھ یوں بھر بھر لیا کہ جیسے ایک ننھے مگر ندیدے بچے
کو اچانک کہیں ٹافیوں کا ڈھیر نظر آ جائے اور وہ وارفتگی میں اپنی دنوں مٹھیوں میں
جس قدر بھی ہو سکے اُنہیں بھر لے۔
سنا ہے کہ کیک کو کارکنان کی جانب سے اس طرح سے "ہاتھوں ہاتھ" لیئے جانے پر مذکورہ
تقریب کے منتظمین اور کرتا دھرتاوں نے اپنی شدید خفگی اور افسوس کا بھی اظہار کیا
کیونکہ انہوں نے یہ تقریب یہ سوچ کر منعقد کی تھی کہ تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات
چاہیے اور اِس بہانے سے اُنہیں تقاریر و تصاویر کا موقعہ بھی ہاتھ لگے ہی جائے گا
اور اگلے روز کے اخبارات اور ٹی وی کے بلیٹن ان کی تصاویر و تقاریر کی بھرپور عکاسی
کرتے نظر آئیں گے۔ لیکن کارکنان نے بجائے انہیں "ہاتھوں ہاتھ" لینے کے اُن دو
کوڑیوں کے کیک کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور میڈیا اور ان کے کمیرہ مینوں نے کیک پر جھپٹے
امنڈتے کارکنان کو۔ یوں تقریب کی کاروائی کی نیوز "بریکنگ نیوز" میں تبدیل ہوگئی۔
اس طرح سے اُن بیچاروں کی تو ہینگ لگی اور پھٹکری بھی اور رنگ بھی چوکھا نہ آیا۔
چوکھا تو کیا کوئی رنگ آیا ہی نہیں۔ ہاں اگر آیا تو ان کے چہروں پر اور وہ بھی رنگِ
ملال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!۔
ویسے دیگر پارٹیوں سے وابستہ یا محض ہمدردی رکھنے والوں کو خوش ہونے کی چنداں ضرورت
نہیں۔ ایسے رُوح پرور مناظر اور ایمان افروز واقعات تواتر کے ساتھ کم و بیش تمام ہی
سیساسی جماعتوں کی تقریبات اور جلسے جلوسوں میں دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ بس فرق
صرف اتنا ہوتا ہے کہ کبھی کیک کی جگہ ٹھنڈے مشروبات کی بوتلوں کے کریٹ تو کبھی سالن
یا بریانی سے بھرے تھال لے لیتے ہیں اور کچھ بھی نہ میسر آیا تو وہاں جلسہ گاہ میں
پڑی کرسیوں کی شامت آ جاتی ہے۔ وہ دھینگا مشتی ہوتی ہے کہ جلسہ، جلسہ گاہ کم اور
میدانِ جنگ ذیادہ معلوم ہوتا ہے۔
تو جناب یہ تو ہوا ان کارکنانِ سیساسیانِ ملت کا ظاہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ اگر آپ کا
مشاہدہ قدرے عمیق ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ان کا باطن نہ جان پائیں۔ سوال یہ
اٹھتا اور ویسے ہی اٹھتا ہے جیسے کہ اپنے فیص صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ دھواں سا
کہاں سے اٹھتا ہے؟ کہ اس چھینا جھپٹی، دھینگا مشتی اور ہلڑ بازی کا آخر محرک کیا
ہے؟۔
تو جناب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ جواب آسان اور سیدھا ہے اور وہی ہے جو ہم اپنے بچپن سے ہی سنتے
آئے ہیں۔ بچہ اپنے بڑوں کو جیسا کرتا دیکھے گا ویسے ہی تو سیکھے اور دھرائے گا نہ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔
جی کیا فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟۔ کیا مطلب ہے ہمارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟۔
صاحب، مطلب صاف ظاہر ہے۔ اپنے لیڈران کرام کے کالے کرتوت دیکھ کر ان کے زیرِاثر
سیاسی کارکنان نے بھی تو وہی کرنا ہے نہ جو ان کے آئیڈیل لیڈران الیکشن جیت کر کرتے
ہیں۔ ملک و قوم کی دولت کو نانی اماں کی فاتحہ کا کیک [معاف کیجئے گا، فاتحہ میں
کیک تو نہیں البتہ کھچڑی ہوا کرتی ہے۔ لیکن ہم نے کیک اس لیئے کہا کہ ان کمبختوں کے
منہ کو تو خون لگ چکا ہے بھلا وہ کیوں کھچڑی کو منہ لگانے لگے] سمجھ کر اُس کی
چھینا جھپٹی۔ اسمبلیوں کے فلوروں کو اکھاڑے گردانتے ہوئے آئے روز بپا کیئے جانے
والے دنگل تے دھنیگا مشتیاں۔ عوام کے ووٹوں کے نتیجے میں ملنے والی کرسیوں کو اپنی
جاگیر سمجھتے ہوئے ہونے والی آپسی بندر بانٹ۔ تو اب بھلا جب ان بیچاروں کارکنان کی
ایسی "شاندار" سیاسی تربیت ہوگی تو پھر وہ بھی جہاں موقعہ ملے گا تو کیونکر اپنے
لیڈران کی تقلید سے باز رھ سکتے ہیں۔
غور طلب امر یہ ہے کہ جب یہ تمام اعلیٰ تربیت یافتہ سیساسی کارکنان کیک، بریانی کے
تھالوں اور جلسہ گاہ کی کرسیوں کی چھینا چھپٹی، آپسی دھینگا مشتی اور ہلڑبازی جیسی
اعلیٰ جمہوری و سیساسی جدوجہد اور بھرپور مشقوں سے بہرہ مند ہو کر عنانِ اقتدار
سنبھالے گے تو پھر اپنی اِس تربیت کو جو کہ اب شاید اُن کی جبلت کا خاصہ بن چکی ہے
بروِکار لاتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کے کیک پر تمام تر اخلاقی و قانونی حدود و قیود
اور قواعد و صوابط کو بالاِطاق رکھ کر ٹوٹ پڑے گے اور بالا ہی بالا ساری بالائی ہڑپ
کرنے میں اپنے سابقہ لیڈران سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھ بڑھ کر کارہائے نمایاں سر انجام
دیتے نظر آئیں گے۔
کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب دراصل وہ خود اپنی تربیت کی نیت سے کرتے
ہیں۔ ممکن ہے کہ انہوں نے حصرتِ اقبال کا یہ شعر بھی سن رکھا ہو۔
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
اور جو اگر اُن کارکنان نے یہ شعر کبھی نہ بھی سنا ہو تو ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ
سکتے ہیں کہ اُن کے لیڈران نے تو ضرور سن رکھا ہوگا اور وہ اپنی سیساسی تقریبات،
جلسے جلسوں میں جانتے بوجھتے ہوئے کیک، سالن، بریانی اور کرسیوں کا بندوبست کر کے
اپنے حال کے کارکنان اور مستقبل کے لیڈران کی زہنی و اخلاقی تربیت کا سامان اور
موقعہ فراہم کرتے ہیں تاکہ کہیں اِن کے بعد اُن کی جاری کردہ چھینا جھپٹی، دھینگا
مستی اور ہلڑ بازی کی سنہری روایات ماند نہ پڑھ جائے۔ |