اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یوں تو اسلامی علوم کی ابتداء
آغازِ اسلام ہی سے ہو گئی تھی اور نزولِ وحی کے زمانہ ہی سے علم عقائد ،علم
تفسیر ،علم حدیث اور علم فقہ کی تعلیم شروع ہو چکی تھی مگر چونکہ کسی خاص
ترتیب اور اُصول کیساتھ یہ علوم مدون نہیں ہو ئے تھے اور نہ ہی ان کو فن کی
مستقل حیثیت حاصل تھی۔ اس لئے یہ علوم کسی خاص فرد کی جانب منسوب نہ ہو سکے
تھے ،لیکن جب دوسری صدی ہجری میں تدوین و ترتیب کا آغاز ہوا تو جن حضرات نے
خاص علوم کو نئے انداز فکر کیساتھ ترتیب دیا وہ ان علوم کے بانی کہلائے ۔چنانچہ
اسی مناسبت سے امام الائمہ کاشف الغمہ ،سراج الامہ حضرت نعمان بن ثابت
المعراف امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کو علم فقہ کا بانی کہا جاتا ہے
۔ لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے سب سے پہلے
علم فقہ کی تدوین کی ہے ؟ اس سوال کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ ہاں تاریخ
شاہد ہے کہ علم فقہ کی تدوین سب سے پہلے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
نے کی ہے ۔جیسا کہ مقدمۂ جامع المسانید کی عبارت اور ائمہ و محدثین کے
اقوال سے اسکی تائید ہوتی ہے ۔چنانچہ مقدمہ جامع المسانید کی عبارت ہے
امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :الناس کلھم عیال علی ابی حنیفۃ فی
الفقہ ۔(کتاب المبسوط جلد اول صفحہ3)
اور امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں :’’کہ امام اعظم کو فقہ کی توفیق دی
گئی ہے ۔‘‘(تاریخ الفقہ صفحہ29)
اور اسی طرح مسند خوار زمی میں ہے کہ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے سب سے پہلے
علم شریعت کی تدوین کی ،کیونکہ صحابہ و تابعین نے علم شریعت میں ابواب فقہ
کی ترتیب پر کوئی تصنیف نہیں کی کیونکہ ان کو اپنی یاد پر اطمینان تھا ۔لیکن
امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے صحابہ و تابعین کے بلاد اسلامیہ میں منتشر ہونے
کی وجہ سے علم شریعت کو منتشر پایا اور متاخرین کو سوء حفظ کا خیال کر کے
تدوین شریعت کی ضرورت محسوس کی ۔ لہٰذا ان تمام اقوال سے یہ بات روزِ روشن
کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ علم شریعت کی تدوین سب سے پہلے امام اعظم ابو
حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے ہی کی ہے ۔
لیکن کچھ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ بین الاقوامی قانون ایک جدید
چیز ہے اور پہلا شخص جس نے اس شعبۂ قانون کی بنیاد ڈالی وہ ہالینڈ کا گروٹس
ہے۔ لیکن جس شخص نے بھی امام اعظم کے شاگرد امام محمد رحمۃ اﷲ علیہ کی کتاب
السیر کا مطالعہ کیا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ گروٹس سے نو برس پہلے یہ علم
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاتھوں بڑی تفصیل کیساتھ مدون ہو چکا
تھا اور اس طرح بین الاقوامی قانون کے بانی بھی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ
اﷲ علیہ ہی ہیں نہ کہ ہالینڈ کا گروٹس ۔(امام ابو حنیفہ اور انکا کارنامہ )
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے جس طرز پر تدوین فقہ کا کام کیا یہ
ایک ایسا عظیم الشان تاریخی کارنامہ تھا جس کی نظیر غیر اسلامی تاریخوں میں
نہیں ملتی ہے اور یہ در حقیقت رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کی تعمیل تھی جو
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :’’ کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے
عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ اگر کوئی ایسا امر پیش آئے جس میں امر و نہی منصوص
نہ ملے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟تو رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فقہاء و
عابدین سے معلوم کرو اور کسی ایک کی بات پر مت چلو۔‘‘(طبری)
چونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا یہ کارنامہ جتنا عظیم الشان تھا
اتنا ہی پر خطر اور وسیع تھا۔ اسلئے انہوں نے اتنے بڑے کارنامہ کو صرف اپنی
ذاتی رائے پر منحصر رکھنا مناسب نہ سمجھا ،اسی وجہ سے اپنے ایک ہزار
شاگردوں میں ایسے چالیس اشخاص کو منتخب کیا جو اپنے عصر کے بڑے بڑے مجتہد
اور بعد کے اجلہ محدثین کے شیخ الشیوخ تھے اور دیگر علوم مثلاً علم لغت ،علم
حدیث ،علم تفسیر اور علم تصوف وغیرہ میں بھی یکتائے روزگار اور اُستاذ
زمانہ تسلیم کئے جا چکے تھے ۔ جیسا کہ مجلس تدوین فقہ کے متعلق وکیع بن
الجراح مشہور محدث کا قول ہے کہ :’’یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے
کلام میں غلطی کیسے باقی رہ سکتی ہے جب کہ واقعہ یہ تھا کہ ان کیساتھ امام
ابو یوسف ،امام زفر اور امام محمد جیسے لوگ قیاس و اجتہاد ماہرین موجود تھے
اور حدیث کے باب میں یحییٰ بن زائدہ ،حفص بن غیاث ،حبان او رمندل جیسے
ماہرین حدیث ان کی مجلس میں شریک تھے اور لغت و عربیت کے ماہرین میں سے
قاسم یعنی عبد الرحمن بن عبد اﷲ بن مسعود جیسے حضرات شریک تھے اور داؤد بن
نصیر طائی ، فضیل بن عیاض جیسی معظم ہستیاں تقویٰ و ورع اور زہد وپرہیز
گاری کے پیکر موجود تھے ۔تو جس کے رفقائے کار اور ہم نشیں اس قسم کے لوگ
ہوں وہ غلطی نہیں کر سکتا ، کیونکہ غلطی کی صورت میں صحیح امر کی طرف یقینا
واپس کر دیتے ہوں گے ۔‘‘(معجم المصنفین صفحہ52)
نیز یہ کہ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ خود بھی علم و اجتہاد کے پیکر اور دیگر
علوم کے بحر ناپید کنار تھے ۔جیسا کہ ائمہ و محدثین کے اقوال سے تائید ہوتی
ہے چنانچہ عبد اﷲ ابن مبارک کا قول ہے :افقہ الناس ابو حنیفۃ ما رایت فی
الفقہ مثلہ۔(تاریخ الفقہ الاسلامی ،صفحہ 105)
جعفر بن ربیع فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال امام ابو حنیفہ رحمۃا ﷲ علیہ کے
پاس رہا میں نے ان سے زیادہ خاموش آدمی نہیں دیکھا لیکن جب ان سے فقہ کے
متعلق سوال کیا جاتا تو وہ نالے کی طرح بہنے لگتے اور ولولہ انگیز گفتگو
فرماتے ۔(ایضاً)
نیز یہ کہ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ تعالیٰ نے اس کام کے لئے منتخب
فرمایا تھا اور اﷲ تعالیٰ کی توفیق ان کے ساتھ تھی ،جیسا کہ امام مالک رحمۃ
اﷲ علیہ کا قول گزرا کہ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کو فقہ کی توفیق دی گئی ہے
اور خلف بن ایوب کا قول ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے علم سرورِ عالم ﷺ کو حضور ﷺسے
صحابہ کرام کو اور صحابہ کرام سے تابعین عظام کو اور تابعین عظام سے امام
اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کو عطا ہوا۔فقہاء نے تدوین فقہ کا نقشہ اس طرح
کھینچا ہے کہ فقہ کا کھیت حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ نے بویا اور
حضرت علقمہ نے اس کو سینچا اور حضرت ابراہیم نخعی نے اس کو کاٹا اور حضرت
حماد نے اس کی مالش کی یعنی دانے کو بھوسے سے الگ کیا اور حضرت ابو حنیفہ
نے اس کو پیسا اور حضرت ابو یوسف نے اس کو گوندھا اور حضرت امام محمد نے اس
کی روٹیاں پکائیں اور باقی لوگ اس کے کھانے والے ہیں۔(رد المختار علی
الدرالمحتار)
یعنی اجتہاد و استنباط کا طریقہ حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے جاری
ہوا اور حضرت علقمہ رضی اﷲ عنہ نے اس کو تقویت پہنچائی ،حضرت ابراہیم نخعی
نے اس کے فوائد متفرقہ کو جمع کیا حضرت حماد نے فروع کو زیادہ کیا امام
اعظم نے اس کو کمال پر پہنچا کر تدوین فقہ کی مہم سر کی ۔تقریباً ساڑھے
بارہ لاکھ مسائل و جزئیات کو جمع کرا کر ابواب فقہ پر مرتب کرایا پھر آپ ہی
کے نقشے قدم پر چل کر امام مالک ،امام شافعی ،امام ابو یوسف ،امام محمد اور
امام زفر نے مرتب کئے اور فقہ ،اُصولِ فقہ ،اُصولِ حدیث اور رجال وغیرہ کی
بہترین کتابیں وجود میں آئیں ۔چنانچہ اُصول فقہ حنفی میں سب سے پہلے امام
ابو یوسف نے کتابیں لکھیں اور اُصولِ فقہ شافعی میں امام شافعی نے کتابیں
لکھیں ۔
امام اعظم کو تدوین فقہ کا خیال کیوں اور کب ہوا؟تاریخ سے اس اَمر کا پتہ
لگانا بہت دشوار ہے کہ تدوین فقہ کے خیال کی خاص وجہ کیا تھی ؟ اور یہ خیال
امام اعظم کو کب پیدا ہوا؟ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ امام اعظم کو تدوین فقہ
کا خیال 120ھ میں پیدا ہوا ۔جب ان کے اُستاد حضرت حماد کا انتقال ہو گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب کہ اسلامی حکومت کا رقبہ سندھ سے اندلس تک طولاً اور
شمالی افریقہ سے ایشیائے کو چک تک عرضاًپھیل گیا تھا ۔اسلامی مدنیت میں بڑی
وسعت آچکی تھی۔ عبادات و معاملات کے متعلق اس کثرت سے واقعات پیدا ہو چکے
تھے اور ہو رہے تھے کہ ایک مرتب قانون کے بغیر محض روایتوں اور وقتی طور پر
واقعات میں غور و فکر سے کسی طرح کام نہیں چل سکتا تھا ،اس کے علاوہ سلطنت
کی وسعت حاصل کر لی تھی کہ زبانی سند و روایت اسکی متحمل نہ ہو سکتی تھی ۔
جس کا اب تک دستور تھا ان حالات میں قدرتی طور پر اس خیال کا آنا یقینی تھا
کہ فقہ کے جزئی مسائل کو غور و فکر کیساتھ اُصول و ضوابط کے ما تحت ترتیب
دیکر فن کی مستقل حیثیت دی جائے اور فن میں کتابیں لکھی جائیں ۔اسی مقصد کے
پیشِ نظرامام اعظم کو تدوین فقہ کا خیال پیدا ہوا اور اس امرِ عظیم کو
منزلِ مقصود تک پہنچایا۔
طریقہ تدوین فقہ حنفی:تدوین فقہ کا طریقہ یہ تھا کہ کسی بات کا مسئلہ پیش
کیا جاتا اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق ہوتے تو اسی وقت قلم بند کر لیا
جاتا اور نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں کبھی کبھی عرصۂ دراز تک مباحثہ
قائم رہتا ۔امام اعظم بہت غور و تحمل کیساتھ سب کی تقریریں سنتے اور آخر
میں ایسا فیصلہ فرماتے کہ سب کو تسلیم کرناپڑتا ۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ
امام صاحب کے فیصلہ کے بعد بھی لوگ اپنی اپنی رائے پر قائم رہتے ۔ اس وقت
تمام مختلف فیہ اقوال قلم بند کر لئے جاتے اور اس بات کا خاص التزام تھا کہ
جب تک تمام حضرات شریک نہ ہوتے کسی مسئلہ کو طے نہ کیا جاتا۔ تمام شرکاء
مجلس حاضر ہو جاتے اور اتفاق کر لیتے تب وہ مسئلہ تحریر کیا جاتا اس طرح
تیس سال کے عرصہ میں یہ عظیم الشان کا م انجام کو پہنچا۔(سیرت ائمہ اربعہ)
فقہ حنفی کی خصوصیات
۱﴾ فقہ حنفی کا اُصول عقل کے موافق ہونا: سب سے مقدم اور قابل قدر خصوصیت
جو فقہ حنفی کو حاصل ہے وہ مسائل کے اسرار و مصالح پر مبنی ہونا چاہئے
۔جیسا کہ احکامِ شریعہ کے متعلق شروع ہی سے اسلام میں دو فرقے قائم ہو گئے
۔ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ احکام محض احکام ہیں یعنی ان میں کوئی راز و
مصلحت نہیں ہے ۔مثال کے طور پر شراب نوشی یا فسق و فجور صرف اسلئے
ناپسندیدہ ہے کہ شریعت نے ان سے منع کیا ہے اور زکوٰۃ و خیرات وغیرہ صرف اس
لئے مستحسن ہے کہ شارع نے اس کی تاکید فرمائی ہے ورنہ فی نفسہ یہ افعال برے
یا بھلے نہیں ہیں۔ چنانچہ امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ کا میلان اسی طرف پایا
جاتا ہے اور شاید اسی کا اثر تھا کہ ابو الحسن اشعری نے جو شافعیوں میں علم
کلام کے بانی ہیں علم کلام کی بنیاد اسی مسئلہ پر لکھی ،دوسری طرف دوسرے
فرقہ کا یہ مذہب ہے کہ شریعت کے تمام احکام مصالح پر مبنی ہیں ۔البتہ بعض
مسائل ایسے بھی ہیں جن کی مصلحت عام لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔لیکن در حقیقت یہ
مصلحت سے خالی نہیں ہے چونکہ تمام مہمات مسائل کی مصلحت و غایت خود کلام
الہٰی میں مذکور ہے جیسا کہ نماز کی مصلحت کے متعلق قرآن ناطق ہے ۔ تَنْھٰی
عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَر۔ روزے کے متعلق گویا ہے ۔لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُوْن ۔جہاد کے متعلق بیان کر رہا ہے ۔حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ ۔
اسی طرح دیگر احکام کے متعلق بھی قرآن و حدیث میں جا بجا تصریحات اور
ارشادات موجود ہیں کہ ان کی غرض و غایت کیا ہیں امام ابو حنیفہ اور دیگر
حنفیہ کا یہی مذہب ہے اور یہ اُصول ان کے مسائل فقہ کے عموماً مرعی ہیں
۔اسکا نتیجہ ہے کہ فقہ حنفی جس قدر اُصول عقلی کے موافق ہے دیگر فقہ نہیں
ہے ۔(سیرت ائمہ اربعہ)
۲﴾ فقہ حنفی کا آسان اور یسیرا لعمل ہونا: دوسری خصوصیت یہ ہے کہ فقہ حنفی
دیگر فقہوں کی بہ نسبت نہایت آسان اور یسیرا لعمل ہے۔ مثال کے طور پر سب کے
نزدیک متحقق ہے کہ سرقہ کی سزاء قطع ید ہے ۔ لیکن مجتہدین نے سرقہ کی تعریف
میں چند شرطیں لگائی ہیں ۔جن کے بغیر قطع ید کی سزا نہیں ہو سکتی ۔ان شرائط
کے لحاظ سے احکام پر جو اثر پڑتا ہے وہ ذیل کے جزئیات سے معلوم ہو گا کہ
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کا مذہب کس قدر آسان تمدن و شائستگی کے
موافق ہے ۔
i: امام اعظم کا مذہب ہے کہ نصاب سرقہ کم از کم ایک اشرفی ہے لیکن اس کے
برخلاف دیگر ائمہ کے نزدیک 4 اشرفی ہے ۔
ii : امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے نزدیک کفن چور پر قطع ید نہیں ہے
لیکن دیگر ائمہ کے نزدیک ہے ۔
iii : قرابت قریبہ والے مثلاً چچا ،بھائی وغیرہ پر قطع ید نہیں ہے مگر دیگر
ائمہ کے نزدیک ہے ۔
iv: لکڑی یا وہ چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں ان کے سرقہ سے امام اعظم کے
نزدیک قطع ید نہیں آتا ۔ لیکن دیگر ائمہ کے نزدیک قطع ید لازم آتا ہے ۔
۳﴾ فقہ حنفی کے قاعدے کا تمدن کے موافق ہونا :فقہ کا بہت بڑا حصہ جس سے
دنیوی ضروریات متعلق ہیں معاملات کا حصہ ہے یہی وہ موقع ہے جہاں مجتہد کی
دقت نظر اور نقطہ شناسی کا پورا اندازہ ہو سکتا ہے ۔مثال کے طور پر عقد
نکاح کے لئے مہر ضروری ہے ۔اختلاف اس امر میں ہے کہ کتنا مہر ضروری ہے۔ تو
امام اعظم کے نزدیک کم از کم مقدار مہر دس درہم ہے ۔اس سے کم میں نکاح نہ
ہو گا ۔اس سے مقصد یہ ہے کہ مرد کو آسانی کیساتھ طلاق دینے کی جرأت نہ ہو
سکے ۔کیونکہ یہ مقدار غریب اور مفلس کے لئے ہے جس کو اس مقدار کا ادا کرنا
اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ امیروں کو دو چار ہزار ادا کرنے میں دشواری ہوتی
ہے ۔لیکن امام احمد ابن حنبل اور اما م شافعی کے نزدیک اسکے برخلاف اگر ایک
دانہ بھی ادا کر دے تو عقد نکاح ہو جائے گا ۔ لیکن ایسی صورت میں یہ نتیجہ
نکلنا ممکن ہے کہ مرد بغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیگا اور عورت کو تفریق کے
بعد مفلسی اور ناداری کی زندگی گزارنی پڑیگی جو کہ سخت تکلیف کا احتمال
رکھتا ہے ۔
۴﴾ فقہ حنفی کا ذمیوں کے حقوق کی حفاظت کاضامن ہونا :ایک بڑی خصوصیت جو فقہ
حنفی کو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ذمیوں کو یعنی ان لوگوں کو جو مسلمان
نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کی حکومت میں مطیعانہ رہتے ہیں ۔نہایت فیاضی اور
آزادی سے حقوق بخشے ہیں ۔ ذمیوں کے حقوق کے متعلق سب سے بڑا مسئلہ قتل و
قصاص کا ہے ۔حنفیوں کے نزدیک ذمی کا خون مسلمانوں کے خون کے برابر ہے یعنی
اگر مسلمان کسی ذمی کو عمداً قتل کر دے تو وہ بھی اس کے بدلے قتل کیا جائے
گا اور اگر غلطی سے قتل کر دے تو جو خون بہا مسلمان کے قتل بالخطا سے لازم
آتا ہے وہی ذمیوں کے قتل سے بھی لازم آئے گا ۔اسکے بر خلاف دیگر ائمہ کے
مسائل کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ شافعیہ کے نزدیک اگر کسی نے ظلماً
عمداً کسی ذمی کو قتل کیا تو وہ اس کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ صرف دیت
ادا کرنا ہو گی اور وہ بھی مسلمانوں کی دیت کا ایک ثلث اور مالکیہ کے نزدیک
صرف نصف دیت ادا کرنی ہو گی ۔حالانکہ حق و انصاف تویہ ہے کہ اسلام جیسی
عادل و منصف حکومت میں شاہ و گدا کا حق برابر ہے ۔کیونکہ اسلام ہی ایک ایسا
انصاف پرور دین ہے جس نے اپنی رعایا کو اپنے برابر سمجھا ۔جیسا کہ اسکی
تائید صحابہ کرام کے اقوال و عمل سے ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ
کا قول ہے : ’’یعنی ذمی کا خون ہمارے خون کی طرح ہے اور اسکی دیت ہماری دیت
کی طرح ہے ۔‘‘(سیرت ائمہ اربعہ)
۵﴾ فقہ حنفی کا نصوص شرعی کے موافق ہونا :ایک خصوصیت جو فقہ حنفی کو حاصل
ہے وہ یہ ہے کہ جو احکام نصوص سے ماخوذ ہیں اور جن میں ائمہ کا اختلاف ہے
ان میں امام ابو حنیفہ نے جو پہلو اختیار کیا ہے وہ عموماً نہایت قوی اور
مدلل اور نصوص شرعی کے موافق ہے ۔مثال کے طور پر امام اعظم کا مسلک یہ ہے
کہ اثنائے نماز تیمم کرنے والے کو اگر پانی مل جائے تو تیمم ختم ہو جائے
گا۔ اسکے بر عکس امام شافعی اور امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ تیمم باطل نہیں
ہو گا۔ امام اعظم کی دلیل یہ ہے کہ قرآن حکیم میں تیمم کا جواز اس شرط
کیساتھ مشروط ہے کہ پانی میسر نہ ہوتو تیمم کرو جیسا کہ قرآن کریم میں ہے
:’’لہٰذا جب شر ط باقی نہ رہی تو مشروط بھی باقی نہ رہے گا ۔‘‘(سیرت ائمہ
اربعہ)
اسی طرح بہت سی مثالیں موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فقہ حنفی ہی قرآن و
سنت کا حقیقی مجموعہ ہے۔ |