از:مولانامظہر حسین علیمی
نبوت کا بارہواں سال تھا اور ماہ رجب کی ۲۷ ویں تاریخ تھی ، رات اپنی سیاہ
چادر لپیٹتی جارہی تھی ،روئے زمین پر شادی کا سما ںتھا ، فلک پر ملائکہ محو
حیرت تھے ،حرم خوشیوں سے جھوم رہا تھا ، کائنات کا دولھاحضرت اُم ہانی بنت
ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں بستر استراحت پر جلوہ فرما ہے
۔اتنے میں طائر سدرہ حضرت جبریل امین حاضر بارگاہ رسالت ہوئے ،دیکھا کہ
اللہ کے رسول کی چشمان مازاغ عشق ربانی کے سرمدی خمار سے بوجھل ہیں مگر قلب
اطہر اپنے معبود کی یاد میں مصروف ہے ۔کیوں کہ آپ کی شان یہ ہے کہ’’ تنام
عینہ ولا ینام قلبہ‘‘ آ پ کی آنکھیں سوتی ہیں مگر دل بیدار رہتا ہے۔جبریل
امین نے اپنے کافوری لبوں کو شب اسریٰ کے دولھا کے قدمان ناز سے مس کیا ،
آنکھیں کھلیں ، آنے کا سبب دریافت کیا جبریل امین نے رب تعالیٰ کی طرف سے
مژدئہ جانفزا سنایا’’ اِنّ ربَّک یشتاق الیک‘‘آپ کا رب آپ کی ملاقات کا
مشتاق ہے ۔ حضور اٹھے ،چاہ زمزم کے قریب لائے گئے،سینۂ مبارک کو چاک کیا
گیا اور قلب اطہر میں ایمان وحکمت بھراہوا طشت انڈیل دیا گیا ، پھر سینۂ
مبارک درست کیا گیا ۔
حرم سے باہر تشریف لائے تو سواری کے لئے ایک جانور پیش کیا گیا ،جو براق کے
نام سے موسو م ہے اس کی تیز رفتاری کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ پڑتی تھی
وہاں قدم رکھتا تھا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس پر سوار ہو کر بیت
المقدس آئے اور جس حلقہ سے انبیا علیھم السلام کی سواریاں باندھی جاتی تھیں
اس سے براق کو باندھ دیا گیا ، حضور مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے جہاں جملہ
انبیاء سابقین حضور کے چشم براہ تھے۔ آپ کی اقتدا میں سب نے نماز ادا کی
۔اس طرح ارواحِ انبیاء سے جو یہ عہد لیا گیا تھا ’’لتو منن ّبہ ولتنصر نّ
‘‘ کہ تم میرے محبوب پر ضرور ایمان لانا اور ضرور ان کی مدد کرنا کی تکمیل
ہوئی ۔
بعد ازاں مرکب ہمایوں بلندیوں کی جانب مائل پرواز ہوا ۔مختلف طبقات آسمانی
پر مختلف انبیائے کرام سے ملاقاتیں ہو ئیں ۔پہلے آسمان پر ابو البشر حضرت
آدم علیہ السلام ،دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیھما السلام
سے ملاقات ہوئی ،تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ،چوتھے ، پانچویں اور چھٹے آسمان
پر بالترتیب حضرت ادریس ،حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیھم السلام سے ملاقات
ہو ئی اور ساتویں آسمان پر اپنے جد کریم ابوالانبیا حضرت ابراھیم خلیل اللہ
علیہ السلام سے ملاقات کی حضرت خلیل علیہ السلام نے ’’مرحبا بالنبی الصالح
والابن الصالح ‘‘ یعنی اے نبی صالح خوش آمدید اور اے فرزند دلبند مرحبا کے
محبت بھرے کلمات سے استقبال کیا ۔ حضرت خلیل علیہ السلام بیت المعمور سے
پشت لگائے بیٹھے تھے ، بیت المعمور کیا ہے ؟ بیت المعمور وہ مقدس جگہ ہے
جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہو تے ہیں اور دوبارہ نہیں آتے۔ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو انوار وتجلیات
ربانی کی مرکز تھی۔سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے ؟ سدرۃ المنتہیٰ ایک درخت ہے جس کی
جڑ چھٹے آسمان پر ہے اور شاخیں ساتویں آسمان سے بھی گزر گئی ہیں۔اس کے پتے
ہاتھی کے کانوں کے مثل ہیں اور اس کے پھل بڑے مٹکوں کے مانند ہیں، مخلوق
خدا میں سے کوئی اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتا ،یہاں پہنچ کے حضرت
جبرئیل علیہ السلام دست بستہ عرض کرنے لگے جس کی ترجمانی بلبل شیراز حضرت
شیخ سعدی علیہ الرحمہ یوں فرماتے ہیں ۔
اگر یک سرموئے بر تر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
یا رسول اللہ علیک السلام !اگر میں ایک بال کے برابر بھی آگے بڑھا تو
تجلیات الٰہی میرے بال وپر جلاڈالیں گے۔
یہاں حضور نے چار نہریں ملاحظہ فرمائیں،ان نہروں کے متعلق حضرت جبرئیل سے
دریافت فرمایا تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ چاروں
نہریں جنت کی ہیں اس میں دو ظاہری ہیں اور دو باطنی ، ظاہری نہریں نیل
وفرات ہیں اور باطنی کوثر وسلسبیل ،بعدہ مالک جنت ،نوشۂ بزم جنت نے بہشت کی
سیر فرمائی، اس میں ایک نوخیز بہت ہی حسین وجمیل عورت کو دیکھا ،آپ نے اس
سے پوچھا کہ تو کس کی ہے؟ اس نے کہا : زید بن حارثہ (رضی اللہ تعالیٰ
عنہ)کی ،پھر دیگر مشاہدات فرمائے،قدرے تفصیل حسب ذیل ہے ۔
آپ نے دوزخ کو دیکھا ،داروغۂ جہنم حضرت مالک نے دوزخ کا ڈھکنا کھولا تو
جہنم جوش میں آگیا ،اور بلند ہو نے لگا،پیارے آقا سیاح لامکاں فرماتے ہیں
:’’میں خیال کرنے لگا کہ ان تمام چیزوں کو جنھیں میں دیکھ رہا ہوں ضرور
اپنی گرفت میں لے لے گا ،آقا فرماتے ہیں :میں نے بہت سارے لوگوں کو مختلف
دردناک عذاب میں مبتلا دیکھا ۔
سیاح لامکاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا: میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ کا شت کررہے تھے ،ایک دن میں وہ بیج بوتے
دوسرے دن وہ فصل کاٹ لیتے ،حضور نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا : ھولاء
المجاھدون فی سبیل اللہ تضاعف لھم الحسنات سبع مائۃ ضعف وماانفقوا من شئی
فھو یخلفہ ‘‘ یہ اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں ، انہیں سات سو
گنا تک اجروثواب دیا جاتا ہے اور جو کچھ یہ خرچ کرتے ہیں وہ ان کے لئے
ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے ۔
پھر ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جن کے سر پتھروں سے کوٹے جارہے تھے ،جب کوٹ
دیا جاتا وہ
دوبارہ پہلی حالت پر آجاتا ، درمیان میں کچھ بھی مہلت نہ تھی ۔حضور علیہ
الصلوۃ والسلام نے پوچھا جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کیا :یہ وہ لوگ ہیں
جن کے سر فرض نماز کی ادائیگی سے غافل رہتے تھے ۔
پھر آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے اگلی اور پچھلی شرمگاہوں پر
کپڑے کے ٹکڑے تھے اور وہ وہاں اونٹوں اور بکریوں کی طرح چرتے تھوہر (ایک
خار دار زہریلا پودا)اور دوزخی پتھر کھارہے تھے ۔میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟
بلبل سدرہ نے عرض کیا :یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اموال میں سے صدقہ نہیں کرتے
تھے اور اللہ جل شانہ کسی پر ظلم نہیں فرماتا ۔
پھر آپ کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے سامنے ہنڈیوں میں گوشت پک
رہا تھا اور کچھ کچا ناپاک گوشت بھی تھا وہ لوگ ناپاک اور خبیث کچا گوشت
کھا رہے تھے اور حلال پکا ہوا گوشت چھوڑ رہے تھے ،آقا نے پوچھاجبریل !یہ
کون لوگ ہیں ؟ بتایا یہ آپ کی امت کے ایسے لوگ ہیں جو حلال بیوی چھوڑ کر
غیر حلال عورت کے ساتھ راتیں بسر کرتے تھے۔
اب آپ کو ایسے لوگ دکھا ئے گئے جنہوں نے لکڑیوں کے ایسے گٹھے جمع کر رکھے
ہیں جنہیں اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے اور وہ اس میں اضافہ کررہے ہیں ۔پوچھا
یہ کون ہیں ؟ بتایایہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جن کے پاس لوگوں کی امانتیں
تھیںاور ان کی ادائیگی پر قادر نہیں لیکن وہ مزید اٹھائے جارہے ہیں ۔
پھر غمخوار امت شفیع رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو
دیکھا جن کی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے ،کٹنے کے بعد وہ
پہلی حالت میں آجاتے ،اس کے درمیان بالکل مہلت نہ ملتی،حضور نے پوچھا جبریل
!یہ کون ہیں ؟ عرض کیا یہ فتنہ پرور خطبااور مقررین ہیں ۔ (اللہ ہم سب کو
اپنے حفظ و امان میں رکھے )
مدنی آقا فرماتے ہیں :پھر میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک چھوٹا سا سوراخ تھا
جس سے بڑا بیل باہر نکلااب وہ واپس اس میں داخل ہونے کی کوشش میں تھا لیکن
ایسا نہ ہونے پارہا تھا ،آقائے محتشم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا
تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا ’’ یتکلم بالکلمۃ العظیمۃ فیندم علیھا فلا
یستطیع ان یقدرھا ‘‘ یہ وہ شخص ہے جو بڑی بات کرکے اس پر نادم ہوتا مگر اس
پر طاقت نہیں رکھتا ۔
غیب داں رسول فرماتے ہیں :پھر میں ایک ایسی وادی میں پہونچا جس میں خوشبو
،ٹھنڈک اور کستوری تھی ،وہاں آواز سنی ، میں نے پوچھا یہ مہک اور خوشبو دار
آواز کیسی ہے ؟بتایا:یہ جنت کی آواز ہے جو کہہ رہی ہے :میرے رب !اپنے وعدہ
کے مطابق مجھے عطافرما ،میرے کمرہ جات ،برتن ،ریشم ،سندس ،عبقری ،مرجان
،سونا ، اور چاندی ،ستارے ،کوزے،شہد ، پانی اور دودھ کثیر ہیں ۔تو حکم
الٰہی ہوا تیرے لئے ہر مسلمان مرد عورت اور جس نے مجھ پر اور میرے رسولوں
پر ایمان لایا ،نیک اعمال کئے اور میرے ساتھ شرک نہ کیا یہ تمام تیرے لئے
ہیں ،جو مجھ سے ڈر گیا وہ امان پاگیا ،جس نے مجھ سے مانگا میں اسے عطا کرتا
ہوں ،جس نے مجھے قرض دیا میں اس پر بدلہ دیتا ہوں اور جس نے مجھ پر بھروسہ
کیا اس کیلئے میں کافی ہوں ۔
آقائے رحمت فرماتے ہیں :پھر میں ایک وادی پر پہونچا وہاں بہت بری آواز سنی
اور بدبو آئی ،میں نے پو چھا یہ بدبو اور آواز کیسی ہے ؟بتایا :یہ دوزخ کی
آواز ہے جو عرض کررہی ہے :اے میرے رب !مجھے حسب وعدہ عطا فرما ،میرے زنجیر
،بیڑیا ں ،گڑھے ،پیپ ،اور عذاب کے کیڑے مکوڑے اور میری گہرائی بہت ہے اور
میری گرمی شدید ہے ،رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :ہر مشرک مردو عورت ،خبیث
مردوعورت تیرا ہے ،میدان حساب میں کسی متکبر کیلئے امان نہ ہو گی ،اس نے
عرض کی میں خوش ہوں ۔
سفر معراج کے واقعات ومشاہدات نہایت تفصیل طلب ہیں نہ تو اوراق میں گنجائش
ہے اور نہ مجھ جیسا کم علم اس کی طاقت رکھتا ہے ۔
اس کے بعد سیاح لامکاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نورانی قدم لامکاں کی
جانب بڑھے پھر آپ اتنا آگے بڑھے کہ ان قلموں کی آواز سنائی پڑنے لگی جو
فرشتے حق تعالیٰ کی تقدیروں کی کتابت کرتے تھے ،آپ بالکل تنہا تھے ،کوئی
فرشتہ اور انسان آپ کے ساتھ نہ تھا ،حجاب در حجاب آپ گذرتے جارہے تھے کہ آپ
کو رب تعالیٰ کی عظمت وجلال کی دہشت پیش آئی کہ اتنے میں ایک آواز یار غار
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنائی پڑی وہ بھینی اور مدھر
الفاظ یوں تھے ’’قف یا محمد ! فان ربک یصلی (ٹھہرئے آپ کا رب آپ پر صلوٰۃ
بھیجتا ہے )آپ کو اس آواز سے انس پیدا ہو ا ۔ پھر حریم بارگاہ صمدیت سے بے
حرف وصوت کانوں میں رس گھو لتی ندائیں آئیں ،ادن یا خیر البریۃ ،ادن یا
محمد !ادن یا احمد! عاشق رسول امام احمد رضا محدث بریلوی نغمہ سرا ہیں ؎
بڑھ اے محمد! قریں ہو احمد! قریب آ سرور ممجد!
نثار جاؤں اے یہ کیا نداتھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
پھر حجابات اٹھادیئے گئے ،آپ فورا سجدہ ریز ہو گئے یہاںتک کہ دنیٰ فتدلیٰ
فکان قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام رفیع پر فائز ہوئے ،اپنے رب کو ماتھے کی
نگاہوں سے دیکھا پھر کیا کیا باتیں محبوب ومحب ہی جانیں ۔اعلیٰ حضرت علیہ
الرحمہ نغمہ سنج ہیں ؎
اٹھے جو قصر دنی کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جاہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پر دے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
اس مقدس سفر میں رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کو او لین وآخرین کے علوم عطا
فرمائے ،امت کے لئے تحفہ میں پچاس نمازیں فرض فرمائیںجو نو بار کی آمدو رفت
میں کم ہو کر پانچ رہ گئیں ۔پھر معراج کا دو لہا اس عظیم سفر سے واپس آکر
بستر نور پر جلوہ فرما ہوا ،صبح ہوئی ،آپ نے لوگوں کے سامنے سفر معراج کے
متعلق بتا یا ،کفار نے تکذیب کی ،یار غار حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے تصدیق کی اور صدیق کے لقب سے مشرف ہوئے ۔
مفسر قرآن حضرت علامہ پیر کرم شاہ ازہری تحریر فرماتے ہیں ’’ واقعۂ معراج
کی اہمیت اسی قدر نہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے اور برگزیدہ رسول
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو زمین و آسمان بلکہ ان سے بھی ماورااپنی قدرت
و کبریائی کی آیات بینات کا مشاہدہ کرایابلکہ اس میں ستم رسیدہ اہل اسلام
کے لئے بھی ایک مژدہ ہے کہ شب غم اب سحر آشنا ہونے والی ہے ،تمھارا آفتاب ِ
اقبال ابھی طلوع ہو اچاہتا ہے ۔شرق و غرب میں تمہاری سطوت کا ڈنکا بجے گا
لیکن مسند اقتدا ر پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پروردگار کو فراموش نہ
کرنا۔اس کی یاد اور اس کے ذکر میں غفلت سے کام نہ لینا اور اگر تم نے نشۂ
حکومت سے بد مست ہوکر نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو پھر ان کے
ہولناک نتائج سے تمہیں دوچار ہونا پڑے گا ۔دیکھو! تم سے پہلے ہم نے بنی
اسرائیل کو غلامی اور ظلم و ستم سے نجات دی ،بحر احمر کو ان کے لئے پایاب
کیا،ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے جابر دشمن کو سمندر کی موجیں خس و خاشاک
کی طرح بہا لے گئیں ۔لیکن جب انہیں عزت ووقار بخشا گیا تو وہ اپنے مالک
حقیقی کے احکام سے سرتابی کرنے لگے اور اس کے انعامات کا شکریہ ادا کرنے کے
بجائے انہوں نے نافرمانی اور نا شکر گزاری کو اپنا شعار بنا لیا تو ہم نے
ان پر ایسے سنگدل دشمن مقرر کر کر دئے جنہوں نے انہیں تباہ و برباد کرکے
رکھ دیا اور ان کے مقدس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔اسی عبرت آموزی کے لئے
واقعۂ معراج کے بعد بنی اسرائیل کا ذکر فرمایا ۔
اللہ رب العزت ہم سب کو تقاضائے معراج اور تحفۂ معراج کی قدر کی توفیق
عطافرمائے ۔آمین
مآخذ و مراجع: (۱) ضیاء النبی ج۲، (۲) |