عشق و محبت(جانِ دو عالم) ۔

لَایُوْمِنُ اَحَدُکُمْ
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک(کامل) مومن نہ ہوگاجب تک کہ میں اسے اس کے باپ، اس کی اولاد ، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حب الرسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ...الخ، الحدیث۱۵،ج۱،ص۱۷)

اسی طرح ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں گی وہ حلاوت ایمان پا جائے گا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مومن کے نزدیک اﷲ اور اس کارسول(عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم )سب سے زیادہ محبوب ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف اﷲ عزوجل کیلئے کرے ۔ اور تیسری بات یہ کہ کفر سے نجات پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے کو اسطرح ناپسند کرے جس طرح و ہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہو۔
(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حلاوۃ الایمان،الحدیث۱۶،ج۱،ص۱۷)

اس حدیث میں ایمان کی بنیاد اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی محبت کو بتایاگیا۔ اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کرکے اسکی غیر معمولی اہمیت بھی بتادی گئی جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ محبت رسولصلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم جان ایمان ہے۔

﴿۱﴾ ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بے شک آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سوائے میری جان کے جو میرے دو پہلوؤں میں ہے، میرے نزدیک ہر شے سے زیادہ محبوب ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے کوئی ہر گز مومن(کامل) نہیں بن سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔‘‘ یہ سنکر حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب میں عرض کیا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آ پصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم پر کتاب نازل فرمائی ۔ بیشک آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے نزدیک میری جان سے جو میرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:’’ اَلاٰن یا عمر یعنی ہاں اب!اے عمر!۔‘‘
(صحیح البخاری،کتاب الایمان والنذور،باب کیف کانت یمین النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم،الحدیث۶۶۳۲،ج۴،ص۲۸۳)

﴿۲﴾ حضرت عمر و بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا توآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے اپنی تین حالتیں بیان کیں۔ دوسری حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ کوئی شخص میرے نزدیک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم سے زیادہ محبوب اور میری آنکھوں میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے زیادہ جلالت و ہیبت والا نہ تھا۔ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی ہیبت کے سبب سے آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف نظر بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا۔‘‘ (الشفاء،الباب الثالث،ج۲،ص۶۸)

﴿۳﴾جب فتح مکہ کے دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والد ابو قحافہ ایمان لائے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم خوش ہوئے۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے عرض کیا:’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دین حق کے ساتھ بھیجا ہے،ان (ابو قحافہ) کے اسلام کی نسبت (آپ کے چچا) ابو طالب کا اسلام (اگر وہ اسلام لاتے) میری آنکھوں کو زیادہ ٹھنڈا کرنے والا تھا۔‘‘
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم،الباب الثانی،ج۲،ص۴۱)

﴿۴﴾ حضرت ثمامہ بن اُثال یمامی جو اہل یمامہ کے سردار تھے ایمان لاکر کہنے لگے:
’’ خدا عزوجل کی قسم میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ آج وہی چہرہ مجھے سب چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ اﷲ عزوجل کی قسم میرے نزدیک کوئی دین آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے دین سے زیادہ برانہ تھااب وہی دین میرے نزدیک سب دینوں سے زیادہ محبوب ہے۔ اﷲ عزوجل کی قسم میرے نزدیک کوئی شہر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے شہر سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ اﷲ عزوجل کی قسم اب وہی شہر میرے نزدیک سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب وفدبنی حنیفۃ،الحدیث۴۳۷۲،ج۳،ص۱۳۱)

﴿۵﴾حضرت ہند بنت عتبہ (زوجہ ابوسفیان بن حرب) جو حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا کلیجا چبا گئی تھیں،ایمان لاکر کہنے لگیں:’’ یارسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ میری نگاہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے اہل خیمہ سے زیادہ مبغوض نہ تھے۔ لیکن آج میری نگاہ میں روئے زمین پر کوئی اہل خیمہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے اہل خیمہ سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘
(صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ذکر ہند بنت عتبۃ،الحدیث۳۸۲۵،ج۲،ص۵۶۷)

﴿۶﴾حضرت صفوان بن امیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حنین کے دن رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے مجھے مال عطا فرمایا، حالانکہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم میری نظر میں مبغوض ترین خلق تھے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلممجھے عطا فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم میری نظر میں محبوب ترین خلق ہوگئے۔
(جامع الترمذی،کتاب الزکاۃ،باب ماجاء فی اعطاء المؤلفۃ قلوبہم،الحدیث۶۶۶،ج۲،ص۱۴۷)

﴿۷﴾فتح مکہ میں حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، ابوسفیان بن حرب کو جواب تک ایمان نہ لائے تھے، اپنے پیچھے خچر پر سوار کرکے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں لائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے عرض کیا: اگر اجازت ہوتو اس دشمن خدا کی گردن اڑادوں؟ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم ! میں نے ابوسفیان کو پناہ دی ہے۔ حضرت فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اصرار کیا تو حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا:اے ابن خطاب !اگر ابوسفیان قبیلہ بنو عدی میں سے ہوتے تو آپ ایسا نہ کہتے۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہنے کہا: اے عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ! جس دن آپ اسلام لائے، آپ کا اسلام میرے نزدیک خطاب کے اسلام سے (اگر وہ اسلام لاتا) زیادہ محبوب تھا، کیونکہ آپ کا اسلام رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب تھا۔
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم،الباب الثانی،ج۲،ص۴۱)

﴿۸﴾ جنگ احد میں ایک عفیفہ کے باپ بھائی اور شوہر شہید ہوگئے۔ اسے یہ خبر ملی تو کچھ پرواہ نہ کی اور پوچھا یہ بتاؤ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کیسے ہیں ؟ جب اسے بتا دیا گیا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم بحمداﷲ بخیر ہیں تو بولی کہ مجھے دکھادو۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کو دیکھ کر کہنے لگی:
کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلآپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہوتے ہر مصیبت ہیچ ہے۔
(المرجع السابق،ص۴۲)
بڑھ کر اس نے رخ اقدس کو جو دیکھا تو کہا
تو سلامت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رنج والم
میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دیں ترے ہوتے ہوئے کیا چیزہیں ہم

﴿۹﴾ حضرت عبدالرحمن بن سعدرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا پاؤں سن ہوگیا۔ ان سے یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہکے نزدیک جو سب سے زیادہ محبوب ہے اسے یاد کیجئے یہ سن کر آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا: یا محمداہ! (اور آپ کا پاؤں اچھا ہوگیا) ۔ (المرجع السابق،ص۴۳)

﴿۱۰﴾حضرت بلال بن رباح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیاتو ان کی زوجہ نے کہا: واحزناہ (ہائے غم) یہ سنکر حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا:
واطرباہ القی غداً الاحبۃ محمداً وحزبہ۔ (المرجع السابق)

واہ خوشی! میں کل دوستوں یعنی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے ملوں گا۔

﴿۱۱﴾ جب ۷ ؁ھ میں قبیلہ اشعریّین میں سے حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وغیرہ مدینہ شریف کو آئے تو زیارت سے مشرف ہونے سے پہلے پکار پکار کر یوں کہنے لگے:
غداً نلقی الاحبۃ محمداً وصحبہ (المرجع السابق،ص۴۸)

ہم کل دوستوں یعنی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے ملیں گے۔ (ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 349278 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.