حدیث: اذا رائتم یسبون اصحابی
فقولوا لعنة اﷲ علی شرکم۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو ديکھو جو ميرے صحابہ رضی اﷲ عنہم کو برا بھلا
کہتے ہو تو کہو تمہارے شر پر اﷲ تعالی کی لعنت (اور ايک روایت میں ہے) اﷲ،
فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔
(بحوالہ : ابن عمر ؓ: مشکوة شریف ج2فصل ثالث،باب مناقب الصحابہؓ)
حضرات صحابہ کرام ؓ کے بارے میں قرآنی فیصلہ
والذين آمنوا وهاجروا وجاهدوا في سبيل الله والذين آوَوْا ونصروا أولئك هم
المؤمنون حقا لهم مغفرةورزق كريم
اور وہ لوگ جو ایمان لائے اورہجرت کی اور اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا
اور وہ لوگ جنہوں نے مہاجرین کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ لوگ وہی ہیں
سچے مومن ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(پارہ10 ۔الانفال ۔ 8:74
لقد رضي الله عن المؤمنين إذ يبايعونك تحت الشجرة (پ26۔الفتح۔48:18)
البتہ تحقیق سے اﷲ تعالیٰ راضی ہو چکا ہے ان مومنوں سے جنہوں نے اس درخت کے
نيچے تجھ سے بیعت کی۔
خلفاءاربعہؓ کاایمان و خلافت قرآن شریف سے
تمام اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ حضرت عمر ؓ، حضرت عثمانؓ
اور حضرت علی ؓ آنحضرت کے صحابی اور سچے مخلص مسلمان ہیں اوراسی ترتیب سے
وہ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد امت مسلمہ کے خلفاء انتخاب کيے گئے۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشادہے۔
وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض (پارہ18
-النور-24:55)
وعدہ کیا اﷲنے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائے ہیں اور کيے انہوں نے نیک
کام البتہ ضرور خلیفہ بنائےگا ان کو زمین کا۔
خلفاءاربعہؓ کاایمان و خلافت حدیث شر یف سے
آنحضرت ﷺ نے ايک ہی مجلس میں جن دس سعادتمندوں کو(جن کو عشرہ مبشرہ کہا
جاتا ہے) جنتی ہونے کی بشارت دی يہ چاروں بزرگ ان میں سرفہرست ہیں۔ حضرت
عبدا لرحمن بن عوف (المتوفی32ھ) فرماتے ہیں کہ
ان النبیﷺ قال ابو بکرؓ فی الجنة وعمر ؓ فی الجنة وعثمان ؓ فی الجنة وعلی ؓ
فی الجنة الحدیث
(ترمذی ج2ص216ومشکوة ج 2ص566 و الجامع الصغیر ج1ص6 وقال صحیح واسراج المنیر
ج1ص27وقال حدیث صحیح ورواہ ابن ماجة ص13 عند سعید ؓبن زید)
تحقیق سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہم جنت میں جائیں گے (بقیہ حضرات کے نام يہ ہیں: حضرت طلحہ، عبدالرحمن بن
عوف، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور ابو عبیدة بن الجراح رضی اﷲ تعالی
عنہم)
حضرت ابو سعید خدری ؓ(سعد بن مالک بن سنان المتوفی74ھ) روایت کرتے ہیں کہ
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
میرے صحابہ کو برا مت کہو اسلئے کہ بےشک تم میں سے اگر کوئی شخص احد پہاڑ
جتنا سونا بھی (راہ خدا میں)خرچ کرے تو صحابہ ؓ میں سے کسی کے ايک مداور
نصف مد کو نہیں پہنچ سکتا۔
مد دو پونڈ وزن کا ہوتا ہے اور نصف مد ايک پونڈ کا۔
حضرت عویم ؓ بن ساعدہ انصاری بدری روایت کرتے ہیں کہ
تحقیق سے جناب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے مجھے چنا ہے اور
میرے ليے میرے صحابہ کو چنا اور انتخاب کیا ہے ان میں سے بعض کو ميرے وزیر
مددگار اور سسرال بنایا ہے سو جس شخص نے ان کو برا کہا تو اس پر اﷲ تعالیٰ
ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو اس شخص سے قیامت کے دن نہ تو نفلی
عبادت قبول ہوگی اور نہ فرض۔( مستدرک ج3ص632 قال الحاکم والذہبی صحیح)
حضرت عبداﷲ بن مغفل فرماتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا
اﷲ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے بارے میں اﷲ سے ڈرو ميرے صحابہؓ کے بارے میں میرے
بعد ان کو اپنے طعن کانشانہ نہ بنالینا سو جس نے ان سے محبت کی تو میری
محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اورجس نے ان کی ساتھ بغض کیا تو میرے
ساتھ بغض کی وجہ سے ہی ان سے بغض کرے گا۔ اور جس نے صحابہؓ کو اذیت دی سو
اس نے مجھےاذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی سو اس نے اﷲ تعالیٰ کو اذیت دی
(یعنی ناراض کیا) اور جس نے اﷲتعالیٰ کو اذیت دی تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ
اس کو پکڑے گا۔
1 ۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت بہت بڑی چیز ہے۔ اس امت میں صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم کا رتبہ سب سے بڑا ہے ، ايک لمحہ کے لئے بھی اس کو رسول
خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو گئی ،بعد والوں میں بڑے سے بڑا بھی
اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی تعداد غزوہ بدر میں تین سو چودہ تھی اور حدیبیہ
میں پندرہ سو، فتح مکہ میں دس ہزار، حنین میں بارہ ہزار،حجتہ الوداع یعنی
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری حج میں چالیس ہزار،غزوہ تبوک میں ستر ہزار
اور بوقت وفات نبوی ايک لاکھ چوبیس ہزار تھی، جن صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے
کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے۔
2۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں مہاجرین اور انصار کا مرتبہ باقی تمام صحابہ
رضی اﷲ عنہم سے زیادہ ہے اور مہاجرین و انصار رضوان اﷲ علیہم اجمعین میں
اہل حدیبیہ کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور اہل حدیبیہ میں اہل بدرکا، اور
اہل بدر میں چاروں خلفاء راشدین کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے چاروں خلفاء میں
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا، پھر عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کا مرتبہ سب سے
فائق ہے۔
مہاجرین رضی اﷲ عنہم ان صحابہ کرام کو کہتے ہیں جنہوں نے خدا و رسول کے ليے
اپنے وطن مکہ معظمہ کو چھوڑ دیا تھا جن کی مجموعی تعداد ايک سو چودہ تھی
اور انصار رضی اﷲ عنہم ان صحابہ کرام کو کہتے ہیں جو مدینہ منورہ کے رہنے
والے تھے اور انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اور مہاجرین کو اپنے شہر
میں جگہ دی اور ہر طرح کی مدد کی تھی۔
3۔ چاروں خلفاء کا افضل امت ہونا خلافت کی وجہ سے نہیں ہے،اگر بالفرض بجائے
ان کے دوسرے حضرات خلافت کے لئے منتخب ہو جاتے تو بھی يہ حضرات افضل امت
مانا جاتے۔
4۔خلیفہ رسول مثل رسول کے معصوم نہیں ہوتا، نہ اس کی اطاعت ہر کام میں مثل
رسول کی اطاعت کے واجب ہوتی ہے۔بالفرض کوئی خلیفہ سہوا ًیا عمداً کوئی حکم
شریعت کے خلاف دے تو اس حکم میں اس کی اطاعت نہ کی جائے گی۔ عصمت خاصہ نبوت
ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم ماننا عقیدہ نبوت کے خلاف
ہے۔
5۔خلیفہ رسول کا يہ کام نہیں ہے کہ وہ دین میں نئے احکام دے اور نہ ہی اس
کو کسی چیز کے حلال اور حرام کرنے کا اختیار ہوتا ہے بلکہ اس کا صرف يہ کام
ہے کہ قران وسنت پر لوگوں کو عمل کرائے، احکام شرعیہ کو نافذ کرے اور
انتظامی امور کو سر انجام دے۔
6۔خلیفہ رسول کا مقررکرنا خدا کے ذمہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے ذمہ ہے جس
طرح امام نماز کا مقررکرنا مقتدیوں کے ذمہ ہوتا ہے۔
(اہل سنت وجماعت جو خلفائے راشدین کی خلافت کو من جانب اﷲ مانتے ہیں اس کی
وجہ يہ ہے کہ چاروں خلفاء مہاجرین رضی اﷲ عنہم میں سے ہیں اور مہاجرین میں
اہلیت خلافت کا ہونا اور جوان میں سے خلیفہ ہو جائے اس کی خلافت کا پسندیدہ
خدا ہونا قرآن مجید میں وارد ہو چکا ہے ۔)
حضرت ابوبکرصدیق یا تینوں خلفاءکی خلافت کو منصوص کہنا بایں معنی نہیں ہے
کہ خدا یا رسول نے ان کو خلیفہ کر دیا تھا بلکہ بایں معنی ہے کہ قرآن مجید
میں اﷲ تعالی نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو خلافت دينے کا وعدہ فرمایا ہے
اور خلیفہ موعود کے متعلق کچھ علامات اور کچھ پیشین گوئیاں ارشاد فرمائیں
ہیں جو ان تینوں خلفاءمیں پائی گئیں۔چنانچہ ان تینوں خلافتوں کے نہ ماننے
کے بعد ان آیتوں کے صادق ہونے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ علی ہذا احادیث
نبویہ میں بھی ان تینوں خلفاء کے متلق پیشینگوئیاں بہت ہیں اورحضرت ابو بکر
صدیق کے متعلق تو ان پیشین گوئیوں وغیرہ کے علاوہ ايک بات يہ بھی ہے کہ
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اپنی آخری بیماری میں اپنی جگہ پر امام
نماز بنا دیا تھا۔
7۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات گیارہ تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی
اﷲ عنہا حضرت زینب بن خزیمہ رضی اﷲ عنہا ان دونوں کی وفات آپ کے سامنے ہی
ہو گئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا ، حضرت ام
حبیبہ رضی اﷲ عنہا ، حضرت زینب بنی جحش رضی اﷲ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اﷲ
عنہا ، حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا ، حضرت سودہ رضی اﷲ عنہا ، حضرت میمونہ رضی
اﷲ عنہا ،حضرت جویریہ رضی اﷲ عنہا یہ سب بیبیاں خدا اور رسول کی برگزیدہ
اور تمام ایمان والوں کی مائیں اور سارے جہان کی ایمان والی عورتوں سے افضل
تھیں، ان میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا رتبہ
زیادہ ہے۔
8۔رسول خدا صلی اﷲ عليہ وسلم کی صاحبزادیاں چار تھیں۔ حضرت زینب رضی اﷲ
عنہا جن کا نکاح حضرت ابو العاص رضی اﷲ عنہ سے ہوا، حضرت رقیہ رضی اﷲ
عنہا،حضرت ام کلثوم رضی اﷲ عنہا۔ ان دونوں کا نکاح يکے بعد دیگرے حضرت
عثمان ذوالنورین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ہوا۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا جن کا
نکاح حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ ہوا يہ چاروں صاحبزادیاں بڑی برگزیدہ اور
صاحب فضائل تھیں، ان چاروں میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کا رتبہ سب سے زیادہ
ہے ،وہ اپنی ماؤں اور تمام جنتی بی بیوں کی سردار تھیں۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی صرف ايک بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو کہنا
نص قرآنی کے خلاف ہے۔
9۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دس چچاؤں میں سے صرف حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ
اورحضرت عباس رضی اﷲ عنہ ایمان لائے تھے ۔ ان دونوں کے فضائل بہت زیادہ ہیں
اور حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کا مرتبہ خصوصیت کے ساتھ زیادہ ہے ان کو رسول خدا
صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدالشھدا کا خطاب دیا تھا جب کہ وہ غزوہ احد میں شہید
ہوئے تھے اور آپ کی پانچ پھوپھیوں میں سے صرف حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا مشرف
باسلام ہوئی تھیں۔
10۔مہاجرین و انصار رضی اﷲ عنہم بالخصوص اہل حدیبیہ میں باہم رنجش وعداوت
بیان کرنا افترا اور بے دینی ہے۔ يہ قرآن مجید کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور تینوں خلفاء میں رنجش بتانا قرآن مجید کی تکذیب کے
علاوہ واقعات قطعیہ کے بھی خلاف ہے۔
11۔صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے مشاجرات یعنی ان کے باہمی جھگڑوں کا بیان
کرنا حرام ہے مگر بضرورت شرعی وبہ نیت نیک، اور جن صحابہ کرام میں باہم
کوئی جھگڑا ہوا ہو ہمیں دونوں فریق سے حسن ظن رکھنا اور دونوں کا ادب کرنا
لازم ہے جس طرح دو پیغمبروں(مثلاً حضرت موسی اورحضرت ہارون علیہما السلام
کے درمیان میں ايک ایسی بات ہوگئی کہ حضرت موسی نے حضرت ہارون علیہ السلام
کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ کر کھينچے۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔
ہمارے لئے دونوں واجب التعظیم ہیں۔ نص قرآنی ہے کہ لا نفرق بین احد من
رسلہ۔ یعنی خدا کے رسولوں میں ہم تفرقہ نہیں کرتے) کے درمیان اگر کوئی بات
اس قسم کی ہو جائے تو ہم کسی کو بر انہیں کہہ سکتے بلکہ دونوں پر ایمان
لانا بنص قرآنی ہم پر فرض ہے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو اپنے زمانہ میں دو خانہ جنگیاں پیش آئیں۔
اول: جنگ جمل میں ايک جانب حضرت علی مرتضیٰ تھے اور دوسری جانب ام المومنین
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا تھیں اور ان کے ساتھ حضرت طلحہ رضی اﷲ عنہ و زبیر
رضی اﷲ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے ۔ دونوں جانب اکابر صحابہ تھے مگر یہ
لڑائی دھوکہ میں چند مفسدوں کی حیلہ بازی سے پیش آگئی ورنہ ان میں باہم نہ
رنجش تھی اور آپس میں وہ لڑنا چاہتے تھے ۔
مفسدوں کی فتنہ پردازی ہوئی
باعث خونریزی جنگ جمل
درنہ شیر حق سے طلحہؓ اور زیبرؓ
چاہتے ہرگز نہ تھے جنگ وجدل
اس لڑائی میں ہر فریق سے دوسرے کے فضائل منقول ہیں جسیا کہ اسی کتاب میں
حضرت علی مرتضیٰ کے تذکرہ میں انشا اﷲ بیان ہو گا۔
دوم: جنگ صفین، جس میں ايک جانب حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور دوسری طرف حضرت
معاويہ رضی اﷲ عنہ تھے،اس لڑائی کے متعلق اہل سنت کا فیصلہ يہ ہے کہ حضرت
علی رضی اﷲ عنہ خلیفہ برحق تھے اور حضرت معاويہ رضی اﷲ عنہ اور ان کے ساتھ
والے خاطی، مگر اس خطاء پر ان کو برا کہنا جائز نہیں کیوں کہ وہ صحابی ہیں۔
صاحب فضائل ہیں اور ان کی يہ خطا غلط فہمی کی وجہ سے تھی اور غلط فہمی کے
اسباب موجود تھے، ایسی خطا کو خطائے اجتہادی کہتے ہیں اس میں عقلاً و شرعاً
کسی طرح موخداہ نہیں ہو سکتا۔
حضرت شیخ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ اذالة الخفا میں فرماتے ہیں۔
جاننا چاہيے کہ معاويہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے
ايک صحابی تھے اور زمرہ صحابہ میں بڑی فضلیت والے تھے ۔ خبردار ان کےحق میں
بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگوئی میں پڑ کر فعل حرام کے مرتکب نہ بننا۔
آپ کے متعلق کتاب تطہیر الجنان کو ديکھنا چاہيے کہ وہ اس مرض کےلئے انشاء
اﷲ شفائے کامل ہے۔
12۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خصوصاً مہاجرین وانصار سے بدگمانی رکھنا اور کو
برا کہنا قرآن مجید کی صریح مخالفت اور شریعت الہیہ کی کھلی ہوئی بغاوت
ہے۔۔
ایسے شخص کے حق میں کفر کا اندیشہ ہے۔
فرقہ روافض جو تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم حتی کہ مہاجرین و انصار ؓ کی
بھی بدگمانی کرتا ہے اورہجرت و نصرت کو فضلیت کی چیز نہیں کہتا۔ گويہ صریح
خلاف ورزی قرآن مجید کی ہے اور اس لازم نتیجہ يہ ہے کہ قرآن شریف اور
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت اور دلائل نبوت مشکوک (قرآن شریف میں کتاب
اﷲ ہونے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نبوت اور دلائل نبوت کے چشم دیدہ
گواہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم خصوصاً مہاجرین وانصارؓ ہیں، انہوں نے اور ان
کے تابعین نے تمام دنیا کے سامنے اس بات کی عینی شہادت دی کہ يہ قرآن وہی
کتاب ہے جس کو آنحضرت صلی اﷲ عليہ وسلم کتاب اﷲ فرماتے تھے اور يہ کہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کو ہم نے اپنے کانوں سے سنا اور آپ
کے معجزات اور دلائل نبوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ظاہر ہے کہ جب کسی
واقعہ کے چشم دید گواہ مجروح کر دئيے جائیں تو وہ واقعہ مشکوک بلکہ واجب
التکذیب ہو جاتا ہے) ہو جائیں گے لیکن اس بنا پر ان کوکافرکہنا خلاف احتیاط
ہے۔ اہل سنت کا مسلک يہ ہے کہ جب تک صریح انکار ضروریات دین کا نہ ہو اس
وقت تک کسی کلمہ گو کو کافر نہ کہنا چاہيے۔امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ
علیہ فرماتے ہیں،لا نکفر احدا من اہل القبلہ۔ یعنی ہم اہل قبلہ میں سے کسی
کو کافر نہیں کہتے۔
روافض کا کفر اس بنیاد پر قطعی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تحریف کے قائل ہیں
اور معاذ اﷲ اس کو اصلی قرآن نہیں مانتے۔
يہ بارہ عقیدے جو بیان کيے گئے اہل سنت و جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ ان
میں سے اکثروبیشتر عقیدے وہ ہیں جن کا ماخذقرآن مجید ہے حق تعالی ہم سب کو
ان پاک عقائد پر استقامت عطافر مائے۔ آمین۔ |