کمپیوٹر اور انٹرنیٹ
بیسویں صدی کی وہ ایجاد ات ہیں جس نے صنعت و حرفت ، سائنس و ٹیکنالوجی ،
جنگوں، معیشت ،فیشن ،تعلیم غرض ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا۔ خلا سے زمین کا
رابطہ ہو یا مشرق کا مغرب سے سب پر اسی کی اجارہ داری ہے لیکن ان سب سے اہم
وہ اثر ہے جو انٹرنیٹ نے معاشرے پر ڈالا بلکہ یوں کہیے کہ معاشروں کی ہیت
ہی بدل کر رکھ دی اور اس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات بہت وا ضح ہیں یعنی
اگر کوئی بھلائی کے لیے استعمال کر رہا ہے تو بھی نظر آرہا ہے اور منفی
مقاصدکے لیے تو بھی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس
کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کیا جاتا شاید کہنے کو تو ایسا ہے بھی لیکن
عملاً ایسا نہیںہے اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یہاں وہ کچھ نظر آتا
ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں نا پسند یدہ سمجھا جاتا ہے چاہے وہ مشرق ہو
یا مغرب ۔ ملکوں اور حکومتوں کے خلاف چلنے والی تحریکیں بھی اسے آزادی سے
استعمال کرتی ہیں لیکن سب سے بڑھ کر مذہب کے خلاف اس کا استعمال گھنائو نا
اور قابل مذمت ہے۔
پچھلے بارہ ، پندرہ سالوں سے مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نئی صلیب
اٹھا کر اٹھ کھڑا ہوا ہے اور اس جنگ میں انٹرنیٹ کو بے تحا شا استعمال کیا
گیا ہے۔ مسلمانوں، اسلام اور اس سے بھی آگے بڑھ کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
و سلم کی ذات ِمبارک کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے وہ مغرب کی شدت پسندی
اور بنیاد پرستی کی دلیل ہے۔ وہ اہل مغرب جو کتے بلیوں کے حقوق کے لیے لڑمر
تے ہیں وہی لوگ اسلام کی تضحیک کو عین فرض سمجھتے ہیں اور دو تین سالوں سے
وہ صرف مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے کبھی فیس بک پر نعوذ بااللہ ’’پیغمبر
اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے خا کے بنانے کے لیے مقابلے منعقد
کروارہے ہیں کبھی اسلام کے خلاف فلمیں بنا بنا کر گوگل ،یو ٹیوب اور دیگر
طریقوں سے پھیلا رہا ہے۔
ستمبر 2012 میں Inocence of Muslims کے نام سے ایک فلم یو ٹیوب پر اَپ لوڈ
کی گئی جس پر پورے عالم اسلام میں شدید احتجاج کیا گیا۔پوری اسلامی دنیا
میں فسادات اور ہنگامے ہوئے لبیا میں امریکی سفیر کا قتل بھی انہی ہنگاموں
میں کیا گیا۔ اکثر اسلامی ممالک میں یو ٹیوب کو بند کیا گیا جن کی اکثریت
نے بعد میں اس کو کھول دیا ۔ پاکستان نے بھی ان لنکس کو بند کیا لیکن ان شر
پسندوں نے اور ایسی ہی وڈیوز اپ لوڈ کیں اور یہ حرکت خود اس بات کا ثبوت
تھی کہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانون کو تکلیف پہنچائی
جائے اور مظاہرے اور احتجاج ہوتا رہے اور چونکہ یہ مظاہرین ان ذ مہ داروں
کو اپنے ملک میں بیٹھ کر نقصان تو پہنچا نہیں سکتے اس لیے اپنے ہی املاک کو
نقصان پہنچاتے رہیں گے اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوتے رہیں گے۔
پاکستان میں سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کے حکم کے مطابق پی ٹی اے نے یو ٹیوب
کو بند تو کر لیا جو ابھی تک بند ہے لیکن گاہے بگاہے خبر آتی ہے کہ اسے
کھول دیا جائے گا۔ مسئلہ یو ٹیوب کا نہیں بلکہ اس گستاخانہ مواد کا ہے جو
اس پر دیا گیا اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس پر رکھا جا رہا ہے
جبکہ اسی یو ٹیوب سے مختلف اوقات میں مختلف ممالک کے احتجاج پر ان کے خلاف
دیا گیا مواد ہٹا یا گیا۔ بنگلہ دیش ، چین اور ترکی کے نام اس فہرست میں
شامل ہیں۔ ترکی نے جب کمال اتا ترک کے خلاف دیئے گئے مواد کے خلاف احتجاجاً
یو ٹیوب بند کیا تو اس مواد کو ہٹا دیا گیا، 1989 میں چین میں ہونے والے
احتجاج کو جب یو ٹیوب پر چلانے پر پابندی لگی تو بھی اس وڈیو کو ہٹا دیا
گیا اسی طرح بنگلہ دیش کا احتجاج بھی منظور کیا گیا تو ایسا ہی اس فلم کے
بارے میں کیوں نہیں کیا گیا ۔ مسلمان حکومتوں نے اس بارے میں وہ زور اور
شدت نہیں دکھائی جو دکھانا چاہیے تھی اگر پاکستان نے اس معاملے میں ثابت
قدمی دکھائی ہے تو اسے برقرار رکھنا پڑے گا اور گوگل سے یہ مطالبہ کرنا پڑے
گا کہ اس فلم کو ہٹا دیا جائے نہ صرف اس فلم بلکہ تمام قابل اعتراض مواد کو
ہٹایا جائے اور 1.62 بلین مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھا جائے اور انہیں
خوامخواہ مشتعل نہ کیا جائے۔ بین الاقوامی قوتوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے
کہ مسلمان اپنے مذہب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے بارے میں کسی
سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں اور ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ایسا کرنا
ایمان گنوانے کے مترادف ہے اورمغرب کو اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ دنیا
میں امن تب ہی قائم ہوگا جب وہ دہشت گردی پھیلانا چھوڑ دے گا اور مسلمانوں
کے جذبات سے مغرب کا یہ کھیل بھی تب رُکے گا جب مسلمان اپنے اندر کچھ دم خم
پیدا کریںگے۔
آج اگر یہ آوازیں آرہی ہیں کہ یو ٹیوب اور فیس بک کے بغیر گزارہ نہیں یہ ہے
بھی درست کہ ان سارے ذرائع پر ہماری تعلیم، معیشت ، صنعت اور جنگوں ہر
چیزکا انحصار ہے ، خاص کر طلبائ ان سب کو اپنی تعلیم کے لیے اہم ترین قرار
دیتے ہیں ان کا کہنا بھی بجا ہے لیکن بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے خود کو
دوسروں کے اتنے تابع کیوں بنا دیا ہے۔ خود وہ اس مقام تک پہنچنے کی کوشش
کیوں نہیں کرتے جس پر بیٹھ کر دوسرے ہمارے جذبات سے کھیلتے ہیں ہماری قوم
سے کھیلتے ہیں بلکہ ہمارے مذہب سے کھیلتے ہیں۔ آج بھی ملک میں ایسے لوگوں
کی اکثریت ہے کہ پابندی کے باوجود یو ٹیوب دیکھ رہے ہیں،اس کے لیے مختلف
پاس ورڈ لگائے جارہے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ انہی وجوہات کی بنا پر یو
ٹیوب ہمارے مطالبات کو اہمیت نہیں دے رہا۔ بہرحال معاملہ کچھ بھی ہو مسلمان
ملکوں کو اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لیے سخت اقدامات کرنا ہونگے اور مغرب
کو بتانا ہوگا کہ اگر ہم ان کے مذہب کو نہیں چھیڑتے تو انہیں بھی اس امرسے
گریز کرنا ہوگا اور اگر وہ گستاخانہ خاکے، فلمیں اور مضامین شائع کرکے
مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کریں گے تو پھر انہیں مسلمانوں کو دہشت گرد
کہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ اگر وہ بظاہر خود مذہب کے بند سے آزاد
ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو بھی ایسا ہے نہیں ورنہ وہ اسلام کے خلاف مذہب کے
نام پر جنگ نہ کرتے وہ کسی ملک سے بحیثیت ملک نہیں بلکہ مسلمانوں سے بطور
عالم اسلام بر سر پیکار ہیں اگر ایسا نہ ہو تا تو وہ کسی ایک ملک کے خلاف
ہوتے ،نہ ان کی فلمیںہر دہشت گرد کو مسلمان کے روپ میں دکھاتیں اور نہ وہ
فیس بک ، یو ٹیوب، گوگل یعنی پوری سائبر اور میڈیا وار مسلمانوں کے خلاف
لڑتے۔
آج کی دنیا اگر گلوبل ولیج ہے تو اس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال بھی
رکھنا پڑے گا ورنہ امن خواب و خیال ہی رہے گا اور ہر طرف شدت پسندی کا دور
دورہ رہے گا۔ یو ٹیوب ، گوگل اور فیس بک جیسے طاقتور ذرائع ابلاغ کو ایک
ضابطہ اخلاق کے تحت لانے سے یہ دنیا کے امن اور سلامتی میں اہم کردار ادا
کر سکتے ہیں لہٰذا بجائے اسے تخریب کے لیے استعمال کرنے کے مثبت طور پر
استعمال کرنا چاہیے اور مسلمانوں کو اپنا یہ پیغام انتہائی موثر طریقے سے
ان اداروں تک پہچانا ہوگا اور اپنا مطالبہ پورا کرنے کے لیے موثر سٹرٹیجی
بھی اپنانا ہوگی بجائے اس کے کہ ہر بار سمجھوتہ اور سودے بازی کی جائے اور
بار بار دنیا میں فساد کی وجوہ پیدا کی جائیں ۔ |