انسان کہاں تک فرار حاصل کر سکتا ہے۔ سیاسی کٹرپن، مذہبی
کٹرپن اور یہ سرحدی کٹرپن، ہم سب ان انتہاؤں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ کیا
انسانیت کا گیت، محبت کے کٹرپن کا سریلا راگ نہیں الاب سکتا۔
یہ 1983کی بات ہے۔ سیتا رام بازار میں جشن کا سماں تھا، ڈھول زور زور سے
پیٹے جارہے تھے۔ اور اس گلی کو رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا کہ محمد
گلفام کی شادی تھی۔ شادیاں تو اور بھی ہوتی ہی ہیں، آس پاس کے محلوں تک میں
اس شادی کی دھوم مچی ہوئی تھی، کیوں کہ دلہن پاکستان سے آرہی تھی۔ جب بھی
کوئی دلہن سرحد پار سے شادی کرکے بھارت آتی ہے تو شادی کے شادیانوں کی
آوازیں اور بڑھ جایا کرتی ہیں۔ ملک تقسیم ہوا پر دل تقسیم نہ ہوسکے، کسی کی
چھوٹی پھوپھی یہاں، تو کسی کے منجھلے چچا وہاں، نانی کا خاندان ادھر تو
دادی کا خاندان اُدھر۔ ارے ملک تقسیم ہوگیا ہے تو رشتے داریاں کس بے ساکھی
کے سہارے چلاتے ہو۔ پر نہیں، دلوں کے رشتوں پر یقین رکھنے والوں کے دل آج
بھی سرحد پار ایک دوسرے کے سینوں میں دھڑک رہے ہیں۔
پُرانے دہلی کے سیتا رام محلے میں آنے والی یہ کم عمر دلہن نزہت جہاں بھی
محبت پہ قائم ہزاروں داستانوں میں سے ایک ہے۔ نزہت جہاں اور محمد گلفام نے
جب زندگی کا سفر شروع کیا تو وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ ان کے ہاتھوں میں
موجود محبت کی لکیر کو سرحد کی لکیر کاٹ ڈالے گی۔ زندگی کا سفر رواں دواں
تھا۔ دو سے تین ہوئے، تین سے چار، اور یوں کنبہ بڑھتا گیا۔ پوتے پوتیاں
سبھی تو تھے اور سب کی زندگی نزہت جہاں کے گرد گھومتی تھی، کیوں کہ یہ عورت
قربانی کا مجسمہ اور گھر کو بنانے والی سربراہ تھی۔ زندگی اس چھوٹے سے گھر
میں مہک رہی تھی کہ تیس سال بعد نزہت کو بھارت میں ویزا نہ ہونے کے باعث
گرفتار کرلیا گیا۔ بھارت کی عدالت نے مقدمہ چلایا، جس میں نزہت کو
غیرقانونی شہری قرار دیتے ہوئے جرمانے کے ساتھ ساتھ پاکستا نی شہری ہونے کی
حیثیت سے اسے اس کے ملک واپس بھیجنے کا حکم سنایا گیا۔
اب نزہت بے آسرا لوگوں کی پناہ گاہ ”نرمل چھایا“ میں کسمپرسی کی زندگی جھیل
رہی ہے۔ گھربار، بچوں کے دکھ سکھ، شوہر کی محبت سبٍ کے سائے سے محروم ہوکر
وہ ”چھایا“ کے نام پر بے گانگی اور دکھوں کی دھوپ میں لاپھینکی گئی ہے۔ آخر
اس کا قصور کیا ہے؟ رشتے نبھانے اور ناتے سینت کر رکھنے کا وہ چلن جو
برصغیر کے گھر گھر کی ریت ہے، اور جسے نبھاتے ہوئے یہ حقیقت بھی نذر انداز
کردی جاتی ہے کہ اب رشتوں کے درمیان دشمنی کے خاردار تاروں والی سرحد بچھ
چکی ہے، یہی ریت ہے جس نے نزہت کی الم ناک کہانی کو جنم دیا اور ایسی کتنی
ہی کہانیاں بیان ہونے کو بے تاب ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے شہر شہر بکھری یہ کتھائیں عام لوگوں کے چہروں پر
تحریر ہیں، مگر ان کے لکھنے والے وہ دونوں دیسوں کے خاص لوگ ہیں جن کے ہاتھ
میں اپنے اپنے ملک کی باگ ڈور ہے۔ ان میں سے ہر قصہ نزہت جہاں کے الم جیسا
تو نہیں، مگر یہ سارے درد کے لفظوں ہی سے لکھے گئے ہیں۔ سرحد کے آرپار امید
اور آس سے بھری نگاہیں اپنے پیاروں سے ملنے کی منتظر رہتی ہیں۔ برسوں بعد
امید کا دامن بھر بھی جائے تو ایک اور طویل جدائی دوبارہ مقدر بن جاتی ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی ”نذیر“ کی بھی ہے، جو اپنے بیوی بچوں سے دور تنہا زندگی
کے دن کاٹ رہا ہے۔ نذیر کی شادی بھارتی شہری ”سلطانہ بیگم“ سے ہوئی تھی۔
جیون بھر کا یہ بندھن بھارتی ریاست گجرات کے شہر سورت میں باندھا گیا۔
دونوں ایک دوسرے کے ہوکر پاکستان آگئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھارت
میں زندگی گزاریں گے، چناں چہ یہ جوڑا بھارت جا بسا، لیکن ان کا خواب خواب
ہی رہا۔ بھارتی حکام کو گوارا نہ ہوا کہ ایک پاکستانی ان کے ملک کی شہریت
حاصل کرے، سو نذیر اپنی بیوی کی آنکھوں میں بکھرے سپنے کی دھندلاہٹ اور
اپنی سینے میں ٹوٹا دل لیے واپس پاکستان آگیا۔ نذیر اور سلطانہ بیگم کے
درمیان آج فاصلے کے بیس سال بیت چکے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، جو ماں کے ساتھ
رہتے ہیں۔ نذیر کا ہر دن بیوی اور بچوں کی یادوں کی دھوپ اور تنہائی کے
اندھیرے میں گزرتا ہے۔ وہ انتظار کرتے کرتے تھک چکا ہے۔ سرحد پار سلطانہ
بیگم اور بچے شوہر اور باپ کے ہوتے ہوئے بھی ان رشتوں سے محروم ہیں۔
ہندوستان کے دو حصوں میں تقسیم کے ساتھ زمین ہی نہیں بٹی، کتنے ہی خاندان
بھی بٹ گئے اور بکھر گئے۔ پاکستان کا قیام ناگزیر تھا۔ برصغیر ک مسلمانوں
کو الگ ملک نہ ملتا تو متحدہ ہندوستان ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی
اختلافات کی آگ میں سلگتا رہتا، یوں اس تقسیم سے جڑے المیوں سے بہت بڑے
سانحات ہر روز جنم لیتے۔ انگریز راج اور کانگریس کے ذی ہوش راہ نماؤں کو
بھی اس حقیقت کا ادراک ہوگیا تھا، اسی لیے وہ تقسیم پر راضی ہوئے۔ اس تقسیم
کا مقصد نفرتیں بڑھانا نہیں گھٹانا تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ چناں چہ
پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات جنگوں، رنجشوںِ، الزامات اور سردمہری کا
دوسرا نام ہیں۔ اس صورت حال کا شکار مختلف صورتوں میں دونوں ملکوں کے عوام
ہیں، جن میں سے ایک صورت وہ ہے جو نزہت جہاں اور نذیر کا مقدر بنی ہے۔
دونوں ملکوں میں بٹے خاندان بکھرے اور ٹوٹتے رشتوں کو بچانے کی خواہش لیے
اپنے بچوں کی شادیاں سرحد پار کردیتے ہیں۔ یوں کتنی ہی لڑکیاں ماں باپ اور
بہن بھائی ہی نہیں اپنا ملک چھوڑ کر پیا دیس کی ہوجاتی ہیں۔ رشتے جوڑنے کے
سپنے یوں آنکھوں میں سماتے ہیں کہ ان کی جھلملاہٹ میں بعض اوقات قانونی
تقاضے بھی نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور یہ کڑوا سچ بھی کہ دونوں ملکوں کے
شہریوں کا ایک دوسرے کے دیس جانا کتنا کٹھن ہے۔ باہمی ملاقاتوں میں
مسکراہٹوں کا تبادلہ کرتے پاکستان اور بھارت کے حکم راں اور اعلیٰ حکام
کشمیر، سیاچن اور ایسے ہی دیگر بڑے مسائل نہیں سلجھا سکتے تو کم از کم ان
لوگوں کے لیے ویزے کے حصول میں خصوصی نرمی تو کر ہی سکتے ہیں جن کی زندگیاں
ہم سائے ملک کے کسی گھر سے جُڑ چکی ہیں۔ نزہت کی بے چارگی، نذیر کی تنہائی
اور سرحد کے دونوں طرف اپنوں کی جدائی کا دکھ جھیلتے کتنے ہی افراد دہلی
اور اسلام آباد کے صاحبان اقتدار کی توجہ منتظر ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین
جو سرحد کے پار بستے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس
جاتی ہیں۔ آنکھوں سے یادیں برستی ہیں، دل اپنے پیاروں سے ملنے کو تڑپتے
ہیں، مگر آنکھوں اور دل کی یہ تحریریں کون پڑھ سکتا ہے، ہاں ویزے کی
دستاویز پر لکھے واضح اور سپاٹ لفظ پڑھے جاسکتے ہیں، سو یہی لفظ اپنے سے
بچھڑے ان لوگوں کی قسمت ہیں، ضرورت ہے کہ ان لفظوں کو کچھ تو نرم کیا جائے
ان میں ذرا سا درد دل تو سمویا جائے۔ |