نعمان بن ثابت رحمۃ اﷲ علیہ کامقام فقہاء میں سب سے
بلند ہے ، اسی لیے انہیں امام اعظم ابوحنیفہ کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ آپ
80ہجری بمطابق 699 عیسوی میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ آبائی پیشہ کپڑوں کی
تجارت تھا۔ آ پ نے بھی ابتداًتجارت کی بعد میں علم کو ہی اپنا اوڑھنا
بچھونا بنالیا۔حصول علم کے لیے حرمین شریفین اور بصرہ کا سفر کیا۔تلامذہ کی
فہرست میں اپنے وقت کے امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، عبداﷲ بن مبارک
اور امام شافعی کے استاذ وکیع بن جراح جیسے کبار شیوخ شامل ہیں۔امام اعظم
ابوحنیفہ زہد، تقویٰ اور ادب کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ علم کی راہ میں
معمولی چیزوں کا بھی خیال رکھتے ۔
ایک مرتبہ امام صاحب درس دے رہے تھے، طلبہ کا جم غفیر انہماک سے درس کی طرف
ہمہ تن متوجہ تھا، اچانک آپ درس چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے، طلبہ حیران وپریشان،
بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہیں دے رہی تھی، کوئی علمی شخصیت بھی سامنے نہیں
تھی جس کے احترام میں امام صاحب کھڑے ہوئے ہوں، طلبہ نے تعجب سے دریافت
کیاتو آپ نے فرمایا:میرے استاذ محترم کے بیٹے سامنے سے گزررہے تھے، مجھے
حیاء محسوس ہوئی کہ وہ کھڑے ہو اور میں بیٹھاہوں۔امام صاحب جس جگہ تشریف
فرما ہوتے اور اس جگہ کا رخ کسی استاذ کے گھر کی طرف ہوتا توآپ اس طرف پاؤں
پھیلاکر نہ بیٹھتے۔
آج امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ یاد ہمارے کرم فرما قاری عرفان نے عشق نبی
صلی اﷲ علیہ وسلم کے دووقعات سناکر دلائی۔ جسے سن کر مجھ جیسے گنہگار پر
بھی رقت طاری ہوگئی۔ ان کے ایک جاننے والے ڈرائیور سید ہیں، اپنے نام کے
ساتھ سید اور شاہ کالاحقہ وسابقہ لگاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کی ٹریفک پولیس
سے منہ ماری ہوگئی، دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، گالم گلوچ تک نوبت
پہنچی، آخر ٹریفک سارجنٹ نے چالان کاٹنے کے لیے غصے سے بک نکالی اور نام
پوچھا۔ڈرائیور نے اپنانام بتایا’’سید اکبر شاہ‘‘۔ ٹریفک سارجنٹ یہ سن
زاروقطار رونے لگا’’آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایاآپ سید ہیں، میں نے آپ
کوغلیظ گالیاں نکالیں، خدارامجھے معاف کردیں ورنہ میں تباہ وبرباد ہوجاؤں
گا‘‘۔
قاری عرفان نے ان کا اسی قبیل کا ایک دوسرا واقعہ سنایا۔ایک آدمی نے جانے
کے لیے جگہ بتائی، میں نے ہامی بھرتے ہوئے کہااگر صرف چوک تک جانا ہے
توسوروپے اور گلی کے اندر جانے کی صورت میں ایک سو دس ہوں گے۔وہ شخص گاڑی
میں بیٹھ گیا، شکل سے کھاتے پیتے گھرانے کا لگتا تھا، راستے میں گپ شپ ہوتی
رہی، منزل مقصود پہنچے تو اس نے گلی کے اندر جانے کا کہا، گاڑی اپنے گھرکے
سامنے رکوائی اور سو روپے مجھے تھمادیے، میں نے ان سے کہا بھائی جان آپ سے
یہی بات ہوئی تھی کہ سڑک تک سو اور اندر ایک سو دس، وہ بضد ہوگیاکہ سو روپے
ہی یہاں تک کے بنتے ہیں، میں نے کہادیکھیے جوبات طے ہوئی تھی اس پر قائم
رہیے، وہ مان کے نہ دیا، ہم لڑنے جھگڑنے لگے، میں نے قسم کھالی میں تجھ سے
پورے پیسے لے کر ہی رہوں گا،بات ہاتھاپائی تک جا پہنچی، لوگوں کے ساتھ
پولیس بھی آپہنچی، ہم دونوں کو گرفتار کیا، نام پوچھا، میری زبان سے نام
کااداہوناتھا کہ وہی شخص جو چند لمحات قبل میری جان کے درپہ تھا، پاؤں پڑکر
معافیاں مانگنے لگا’’ خدا کی قسم اگر مجھے پتاہوتاآپ سید ہیں میں آپ سے ہر
گز یہ سلوک رواں نہ رکھتا، اﷲ کے لیے رحم فرماکر مجھے معاف کردیں، پولیس کو
رخصت کردیا، جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دینے لگا، میں نے لاکھ
سمجھایامیں آپ کو معاف کرچکا، اس نے کہا اگر آپ نہیں لیں گے تو پوری زندگی
مجھے ندامت ہو گی، چاروناچار میں نے نوٹ قبول کیا تو ایک اور افتاد آن پڑی
، کہنے لگا مجھے اسی سڑک تک دوبارہ چھوڑدیں جہاں تک سو روپے بنتے ہیں تاکہ
میں وہاں سے پیدل واپس آؤں،میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بضد رہا،
سڑک پہنچ کر زبردستی چائی پلائی، اکرام کیا اور معافیاں مانگ مانگ مجھے
نمناک آنکھوں سے الوداع کہا۔ |