سیکرٹری تعلیم کی سادگی

ملک بھر بالخصوص پنجاب بھر میں نظام تعلیم بہتر بنانے کیلئے حکومت پنجاب نے غیر رجسٹرڈ سکولوں کے خلاف آپریشن کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے ۔ سیکرٹری تعلیم اس آپریشن کی خود نگرانی اور سرپرستی کریں گے اور جو غیر رجسٹرڈ سکول بچوں کو تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں ان کو سیل کردیا جائیگااور رپورٹ حکومت پنجاب کو دے کر اپنی ڈیوٹی پوری کرکے روزی حلال کی جائیگی۔ مزید یہ کہ جو غیر رجسٹرڈ سکول بچوں اور والدین کو دونوںہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ان کے خلاف بھی ضابطہ کی کارروائی عمل میں لائی جائیگی۔ یہ ایک اخباری بیان تھا جوکہ محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری کیا گیا جسے پڑھ کر بے اختیار سر پیٹنے کو جی چاہا اور محکمہ تعلیم اور سیکرٹری تعلیم موصوف کی سادگی اور بےچارگی پر بھی ترس آیا۔چند گزارشات گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

اول تو یہ آپریشن اخباری بیان کی حد تک ہی محدود رہیگا اور یہ کہ جب تک محکمہ تعلیم آپریشن شروع کریگا ان کی روایتی اور ازلی سستی کی بناپر اس وقت تک تمام سکول گرمیوں کی چھٹیاں کرکے اپنے سکول خود ہی بند کرچکے ہونگے۔ لہذا ان کو سیل کرنے کیلئے پنجاب سیکرٹری تعلیم ، ای ڈی اوز اور ڈی ای اوز تکلف نہ کریں تو زیادہ مناسب ہوگا اور ویسے بھی آجکل گرمی کا زور ہے۔طبیعت کی ناسازی کا اندیشہ ہے۔

دوسرا یہ کہ ملک بالخصوص پنجاب میں جتنے بھی پرائیویٹ سکول و کالجز کام کررہے ہیںچند ایک کو چھوڑ کرمجموعی طور پر وہ حقیقتا کام کررہے ہیں ان کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ نا مساعد حالات ، سہولیات کے فقدان اور پانچ سے سات ہزار روپے ماہانہ تنخواہ کے باوجود نونہالان وطن کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں انہیں وطن عزیز کی ترقی،خدمت کرنے اور نام روشن کرنے کے قابل بنارہے ہیں جو کہ قابل تقلید اور لائق تحسین ہیں۔ان کی تعلیم سے محبت خوش آئند اور تسلی بخش ہے کہ باوجود اس کے ان کے پاس حکومت کی جانب سے ودیعت کردہ بلڈنگز، سٹاف بمعہ بھاری تنخواہ، لائبریری، لیبارٹریز،پلے گراﺅنڈ فرنیچر و دیگر سامان نہیں ہے پھر بھی وہ طالب علموں کی علمی تشنگی کو بجھانے کی دلی طور پر سعی کررہے ہیں

تیسری اور اصل بات جس کےلئے کالم لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ یہ کہ محکمہ تعلیم اور سیکرٹری تعلیم کو غیر رجسٹرڈ سکول تو نظر آگئے جو کہ” معیار تعلیم کو غیر معیاری بنار ہے ہیں“ لیکن کیا یہ بتایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا معیار کہاں سے مل رہا ہے؟ وہ معیاری تعلیم کون دے رہا ہے؟ کیا آپ یہ سمجھ رہے ہیں یا باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ سرکاری ادارے معیاری تعلیم provide کررہے ہیں تو یقینا یہ آپ کی خام خیالی اور سادگی ہے اور اس سادگی پہ مرجانے کو جی چاہتا ہے یا پھر شاید ان کے ذہنوں میںیہ فقرہ رچ بس گیا ہے جو کہ اکثر سرکاری اداروں کے گیٹ یا دیوار وں کی زینت بنا نظر آتا ہے کہ ”آئیے اور دیکھئے ہم فروغ تعلیم کیلئے کس قدر کوشاں ہیں“

جناب والہ! آپ اپنے سرکاری سکولوں کے نتائج اٹھا کر دیکھئے اس قدر poor نتائج ہیں کہ شرم سے سر جھک جاتا ہے۔کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والی بلڈنگز میں کوالیفائیڈ سٹاف موجود ہوتا ہے لیبارٹریز کو لاکھوں روپے کی کاسٹ سے مزین کیا جاتا ہے لائبریری میں ہمہ قسم کی مہنگی ترین اور ناقابل استعمال کتب کو الماریوں کی زینت بنایا جاتا ہے ٹیچنگ سٹاف و دیگر عملہ کو ماہانہ کروڑوں روپوں کی تنخواہ اور الاﺅنسسز دیئے جاتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جو کوالیفائیڈ سٹاف ہوتا ہے نا وہ بچوں کو پڑھانا اپنی توہین سمجھتا ہے بالخصوص خواتین ٹیچرز جنہیں انپے گھریلو معاملات ڈسکس کرے کپڑوںکے پرنٹ اور جوتوں کے ڈیزائن اور قیمت تر باتوں سے فرصت نہیں ملتی۔ میک اپ کی کوالٹی اور اقسام پر تو سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن جب پڑھانے کی بات آتی ہے تو پیٹ میں مروڑ شروع ہوجاتا ہے حالت غیر ہونے لگتی ہے آنکھیں سرخ ہوجاتیں ہیں ایسی صورت میں سارا نزلہ طالبات پر گرتا ہے او پھر ”مار نہیںپیار“والے سلوگن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے طالبات کو ڈانٹ ڈپٹ گالیاں حتی کہ slapping (تھپڑمارنا)تک کی جاتی ہے۔(اس حوالے سے مزید تفصیل آئندہ کالم میں نذر قارئین کرونگا)۔مرد اساتذہ کو صرف اور صرف ٹیوشن کی فکر ہوتی ہے اور پوری کی پوری کلاس جب تک سکول ٹائم کے بعد اور بعض اوقات سکول ٹائم میں ہی ٹیوشن نہ پڑھے تو اسے اپنی توہین گردانا جاتا ہے اور نہ پڑھنے والی کی خیر نہیں۔ لیکن اس کے باوجود نتیجہ صفر۔اکثر طلبا فیل ہوجاتے ہیں کیونکہ جب کلاس میں بھی نہیں پڑھایا اور ٹیوشن بھی نہیں ہوئی اور فیسیں اینٹھ لیں تو پاس ہونے کا سوال خارج از امکان ہے

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی دیہات میں موجود سکولوں کے اساتذہ سکول ٹائمنگ میں حاضری لگانے کے بعد دھوتی اور تہبند باندھے کاشتکاری میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ طلبا کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا جاتا ہے جو کہ زمینوں کو جڑی بوٹیاںسے صاف کرتے ہیں بھوسے اور توڑی کو اپنے اساتذہ کے گھر پہنچاتے ہیں کپاس سے نکلنے والی لاٹھیاں اپنے کندھوں پر رکھ کر ان کے چولہے گرم کرنے کا وسیلہ بناتے ہیں حتی کہ بیج کی بوائی سے لیکر پانی لگوانے تک کے مراحل میں طلبا اپنے اساتذہ کے” شانہ بشانہ“ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں اور پھر جب نتائج آتے ہیں تو مارک شیٹ تو خالی ہی ہونی ہے جسے استاذ محترم اپنے کوتاہی اور مجرمانہ غفلت سمجھے بغیر اگلے سال کیلئے تیاری کرنے کو کہہ کر” سمجھا “دیتا ہے جسے سادہ لوح دیہاتی ماسٹرجی کی بات کامان رکھ کر پھر سے اپنے سپوت کو ان بے حسوں کے حوالے کردیتا ہے اور اگلے سال بھی وہی ہوتا ہے اور طالب علم ڈاکٹر انجینئر پروفیسر ٹیچر بننے کے بجائے ایک کاشتکار بن جاتا ہے۔

لیبارٹریزمیں موجود سامان کو استعمال کرنا اور سٹوڈنٹس کو دکھانا گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد نئے سامان کی پروپوزل بنا کر بھیج دی جاتی ہے جسے کاغذات کی حدتک خرید لیا جاتا ہے اور کمپنیوں سے اپنی مرضی کے بل بنواکر فائلوں کی زینت بنادیا جاتا ہے۔سامان کی ٹوٹ پھوٹ شو کرادی جاتی ہے اللہ اللہ خیر صلی۔ جبکہ کیمکل کی consumption دکھا کر پیسے بٹورلئے جاتے ہیں اور کیمکل پڑے پڑے expire ہوجاتے ہیں۔طلبا و طالبات پریکٹیکل کے بارے صرف سنتے ہیں اور صبر کا گھونٹ بھر لیتے ہیں ور دوران پریکٹیکل امتحانات نمبرز لگوانے کی وہ دوڑ شروع ہوتی ہے کہ الاماں۔

اسی طرح لائبریریوں میں پڑی کتابوں کے بارے میں نہ تو لائبریرین صحیح جانتا ہے اور نہ ہی طلبا و طالبات کو اس بابت ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ لائبریری میں موجود کتب سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیںبس لاکھوں ان کتابوںکو خرید کرنے کی مد میں جھونک دیئے جاتے ہیں جبکہ طلبا و طالبات کو ان بکس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔

اس قسم کے اور بھی معاملات ہیں جو کہ سرکاری سکول کا وطیرہ اورپہچان بن چکے ہیں کہ کام نہیں کرنا صرف اور صرف تنخواہ پکی کرنی ہے اور بقیہ تمام کام سکول ٹائم سرانجام دینے ہیں اور پڑھانا نہیں ہے جب اس قسم کی صورت حال ہوگی تو نتائج بھی وہی ہونگے جو آج کل کے ہوتے ہیں کہ تمام پوزیشنز پرائیویٹ اور غیر رجسٹرڈ ادارے لے جاتے ہیں اور سرکاری ادارے تمام سہولیات سے لیس ہونے کے باوجود ہمیشہ ہی پیچھے رہتے ہیں۔کیوں؟ کیونکہ پانچ سے سات ہزار کی تنخواہ سے اپنا گزربسر کرنے والا پرائیویٹ سکول ٹیچرایک چالیس سے ساٹھ ہزار روپے اینٹھنے والی ماسٹر جی کے مقابلے میں دل و جان سے پڑھا کر اپنا اور بچوں کا پیٹ رزق حلال سے بھرتا ہے اور سکون کی نیند سوتا ہے اور اس سے بندھے طلبا و طالبات بورڈز میں پوزیشنز لے کرملک و قوم کی ترقی میں حصہ شامل کرتے ہیں۔تو جناب والہ! اصل نقطہ یہی ہے جس پر سوچنا ہے عمل کرنا اور کرانا ہے اور بجائے پرائیویٹ سکولوں کے سرکاری سکول اور اداروں کی حالت زار کو بہتر بنانا ہے تو یقین کیجئے معیار تعلیم کمال کی حدتک بہتر بلکہ بہترین ہوگا۔بس اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211745 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More