فضیلۃالشیخ ولی خان المظفر
عربی زبان و ادب سے برائے نام اور ادنیٰ سی مناسبت کی وجہ سے متعدد طلبہ،
فضلاء اور مدرسین، مشافھۃً ومراسلۃً عربی تکلم اور مضمون نویسی کے متعلق
راقم سے رابطہ فرماتے رہتے ہیں۔ ہمارے بعض ساتھیوں کا خیال ہوتا ہے کہ عربی
تقریر و تحریر کے لئے شاید انگریزی دواؤں کا کوئی اس قسم کا آسان فارمولا
ہوگا، کہ جسے استعمال میں لاتے ہی انسان میں یہ وصف ابھر کر نمودار ہوجائے
گا اور ساتھ ہی ساتھ اس میدان میں ضعف و نقاہت کی بیماری یکسر ختم ہوجائے
گی، لیکن ایسا کہاں؟؟
بہرحال یہ بھی غنیمت ہے کہ عربی مدارس سے متعلق طلبہ واساتذہ بالخصوص اور
عامۃ المسلمین بالعموم تعلیم وتعلم اور فہم قرآن وسنت کے لئے اس اہم عنصر
کی طرف خاصے متوجہ ہوگئے ہیں، میری ناقص رائے کے مطابق کچھ سالوں سے اس
توجہ میں اضافے کے کچھ اسباب یہ ہیں:
دارالعلوم دیوبند جو ام المدارس والجامعات ہے: میں سمجھتا ہوں کہ دارالعلوم
کا کردار اس حوالے سے بنیادی کردار ہے، بالخصوص حضرت مولانا اعزا زعلی صاحب
رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمۃ اﷲ علیہ جنہوں نے
تقریباً اپنی عمریں اس مقصد کے لئے وقف کردی تھیں، مذکورہ حوالے سے ان کی
خدمات زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔
تین چار دہائیوں سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں (بلکہ غیر مسلموں کا بھی)
عالم عرب کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور تعلیمی ارتباط۔
طاقت ور الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ ووسائل نشر و اشاعت کی بناء
پر سمعی و مرئی ادبیات ولٹریچر کا برائے استفادہ آسانی سے دستیابی۔
دینی مدارس کے نیٹ ورک کی وسعت، ہمہ گیریت اور تأثیر۔
جہاد افغانستان میں عرب مجاہدین کی عملی، مالی، تحریری اور لسانی شرکت اور
یہاں کے مقامی مجاہدین کی حوصلہ افزائی کے لئے مختلف مواقع پر عالم عرب میں
ان کااستقبال وترحیب۔
پاکستان کے متعدد شہروں بالخصوص پشاور میں جہادی کاز کے حوالے سے کئی
پاکستانی، افغانی اور عرب تنظیموں کا عربی میڈیم مدارس و جامعات اور عربی
زبان میں شاندار قسم کے مجلات و جرائد کا اجراء۔
چودہویں صدی کے اوائل سے آج تک پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کچھ
عربی و دینی جامعات سے باقاعدہ عربی رسائل کا اصدار (مثلا الفاروقعربی،
البعث الاسلامی اور الداعی) اور ان ہی مدارس وجامعات کے زیر نگرانی شعبہ
ہائے عربی، اسلامیات اور معہد اللغۃ العربیہ، القسم العربی اور تخصص فی
الأدب العربي نام کے نہایت فعال اور عظیم الشان اداروں کی تاسیس۔
قریباً ایک دھائی سے ملک کے چپے چپے میں مدارس البنات کا قیام، جن سے
اسلامی علوم و فنون اور عربی ادب واصطلاحات کا پھلنا پھولنا۔
اور اب سال ۱۴۲۵ھ سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب بنین و بنات میں
دیگر اہم تبدیلیوں اور اضافوں کے ساتھ ساتھ عربی زبان و ادب کے قدیم وجدید
میں امتزاج کے علاوہ کچھ ایسی بنیادی کتب ومضامین کا ارباب وفاق کی طرف سے
مستزاد ہونا، جن سے اس خلا کو پر کرنے کی طرف سالہائے گزشتہ کے مقابلے میں
کئی گنا زیادہ رجحان کا پایا جانا، مثلاً إقناع الضمیر مع التمارین، تعریب
علم الصیغۃ، مختارات من أدب العرب، التاریخ الإسلامی اور البیان في علوم
القرآن کی نصاب میں باقاعدہ شمولیت۔
بڑی عمر کے خواتین و حضرات کے لئے حضرت صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
امام المحدثین شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان صاحب زید مجدہم کا ایک ایسا
سہ سالہ عوامی سطح پر انقلابی اور جامع کورس (منہج الدراسات الدینیہ) مرتب
فرمانا، جس میں تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم و فنون کے ہمرشتہ ادب عربی
کا ضرورت کی حد تک حصہ شامل کردینے سے عربیت کی جڑوں کو توانائی ملنے کی
توقع ہے۔
وفاق المدارس کے امتحانات میں فصحی عربی میں جواب دینے پر فی پرچہ دس
نمبرات کا اضافہ۔
تخصصات کے ضمن میں تخصص فی الادب العربی کی باقاعدہ وفاق کی مجلس عاملہ سے
منظوری اور آئندہ سے اس کے امتحانات منعقد کرکے شہادات کا اجرا کرنا(جامعہ
فاروقیہ کراچی میں اس شعبے کا باقاعدہ اجراء اﷲ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم
سے ہوگیا ہے)۔
دورۂ حدیث کے طلبہ کے لئے ملک گیر سطح پر وفاق کے زیر نگرانی عربی مقالہ
نویسی کا اضافہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
لیگ آف نیشنز، یونائیٹڈ نیشنز، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس اور عرب لیگ
جیسی مقتدرہ اور عالمی سطح کی تنظیموں اور ان کے ذیلی اداروں میں عربی زبان
کا باقاعدہ بین الاقوامی وبین التنظیمی حیثیت کا اعتراف (جس کی بنا پر ان
اداروں کے اجلاسوں میں گفتگو، خطاب اور ان سے مراسلت نیز ان کے ریکارڈ کی
حفاظت ان سب کا عربی زبان میں بھی ہونا، لہٰذا جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل
سے خطاب میں یا نکتۂ اعتراض پر کسی بات کا جواب اگر کوئی عربی میں دینا
چاہے تو دے سکتا ہے۔
عالم گیریت کے اس دور میں پوری دنیا کی یونیورسٹیز اور کالجز میں مختلف
مقاصد کے تحت شعبہ ہائے لسانیات کا قیام۔ ظاہر ہے کہ لسانیات کا شعبہ جہاں
کہیں ہوگا اس میں عربی کا شعبہ ضرور ہوگا جو قرآن و حدیث، فقہ اسلامی وغیرہ
کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ قریباً چھوٹے بڑے ۲۳، ۲۴ عرب ممالک کی سرکاری
زبان بھی ہے۔ جہاں کسی بھی خدمت کی انجام دہی کے لئے عربی کے بغیر چارۂ کار
نہیں۔
دعوت و تبلیغ سے وابستہ بیرون ممالک سے حضرات کی آمدورفت اور ان کے ساتھ
جڑنے والے علماء و احباب کی وجہ سے برصغیر میں عربی زبان کو فروغ حاصل
ہونا۔
اسلام آباد کی بین الاقوامی یونیورسٹی کا قیام، جامعہ ازہر اور جامعہ
اسلامیہ مدینہ منورہ میں برصغیر کے طلبہ کی تعلیم وتربیت۔
شخصیات کی سطح پر بالخصوص محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اﷲ
علیہ کا مختلف عرب دنیا کے اسفار اور نہایت عمیق عربی لغت و ادب پر عبور کی
وجہ سے بار بار اس کی شدومد کے ساتھ ترغیب پھر امام الادب العربی فی الہند
حضرت مولانا ابوالحسن علی الحسنی الندوی -رحمۃ اﷲ علیہ- کی اپنی تالیفات،
محاضرات، ندوۃ العلماء کا تعمیری کردار اور البعث الاسلامی، رابطۃ الأدب
الاسلامی العالمیۃ وغیرہ کی صورت میں لازوال اور انتھک مساعی وخدمات اور اب
امام المحدثین حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب زید مجدہم کا نہ صرف جامعہ
فاروقیہ کراچی کی سطح پر عربی زبان وادب کے لئے عملی اقدامات (بطورِ خاص
معہد اللغۃ العربیۃ والدراسات الاسلامیۃ اور تخصص فی الأدب العربی) اور بیس
سال سے مسلسل شائع ہونے والا مجلۃ الفاروق القسم العربی․
بلکہ پورے وفاق المدارس کی سطح پر وقتاً فوقتاً اپنی بے پناہ بصیرت، دور
اندیشی اور شغف علمی کی بناء پر قرآن وسنت کے تمام علوم اور ان کے فہم
وادراک کے لئے بطور موقوف علیہ کے کل فنون جن میں عربی ادب نمایاں ہے، کو
فروغ دینے کی کوششیں واقفان حال کے سامنے اظہر من الشمس ہیں۔
بہرکیف یہ بات مسلّم ہے کہ کچھ دہائیوں سے برصغیر میں عربی زبان وادب ماضی
کے مقابلے میں کافی زیادہ پروان چڑھ رہا ہے۔ مگرا سے منظم، مفید سے مفید تر
اور حسب طلب مختلف سطحوں کے افراد کی دسترس میں کیسے لایا جائے؟ اس حوالے
سے مزید سوچ و بچار کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ ہے۔ |