تونے چاہا نہیں حالات بدل سکتے

ہمارے گھروں میں کوئی بیماری آجائے ،کسی مقدمے کا سامنا ہو،کوئی عزیز کسی حادثے کا شکار ہوجائے اور اس کی جان پہ بن آئے تو ہمارا عمومی رویہ یہ ہوتا کہ ہم اپنی تمام صلاحیتیں ،طاقتیں اور اثر رسوخ استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بہت سی امیدیں اس واحد اور مالک حقیقی سے وابستہ ضرور رکھتے ہیں جو اس کائنات میں لوگوں کے دِلوں اور دنوں کو بدلتا ہے،ان پر رحمت کی نظر کرتا ہے اور ان حالات میں بہتری لاتا ہے۔ہمیں اگر کسی معجزے کی توقع ہوتی ہے تو اسی کی ذات سے۔کسی کے آپریشن سے پہلے ‘کسی مقدمے میں پیشی پر جاتے ہوئے یا کسی عزیز کے ہسپتال میں داخلے کے وقت ہم خیرات کرتے ہیں،کچھ لوگ سدقہ دیتے ہیں،بڑھی بوڑھیاں اور گھر کی عورتیں قرآن شریف لے کر بیٹھ جاتی ہیں ،اگر دنیا کے تمام ڈاکٹر کی جانب سے مایوسی کے اشارے مل رہے ہوں تو ایک ایمرجنسی نافذ ہوجاتی ہے۔گھر کا ہر فرد دعائوں میں مشغول ہوجاتا ہے۔پورا گھر ایسے لگتا ہے بس ایک ہی چوکھٹ پر گراہوا ہے اوروہیں سے مدد کا طلبگار ہے۔کسی نیک اور برگزیدہ شخص کو اور ہر رشتہ دار کو دعا کے لئے کہا جاتا ہے یا پھر صدقات کاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ایسے میں اگر ذرا سی بھی امید کی جھلک نظر آجائے تو سر سجدہ شکر میں گرجاتے ہیں۔

لوگوں کا یہ رویہ کسی ایک فقہ کو ماننے والے یا کسی ایک فرقے تک محدود نہیں۔ایسا تو ان گھروں میں بھی ہوتا ہے جن کے افراد مدتوں مسجد کے دروازے تک نہ گئے ہوں،جن کی پوری زندگی اپنے ذاتی مفاد،مالی،معاشرتی اور خاندانی مفادات کی دوڑ میں گزر رہی ہو،یاجو عمر بھر کھیل تماشوں اور عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے ہوں،ایسے لوگوں کوبھی اگر کوئی اس رحمن ورحیم کے در کا راستہ ایسی مشکل مین دکھاتا ہے تو فوراً مان جاتے ہیں وہ کبھی بھی بحث میں نہیں الجھتے کہ جو کرنا ہے ڈاکٹر کریں گے،دعائو ں سے کیا ہونا ہے،یا پھر یہ کہ ہمارے یہاں ہر جگہ کرپشن ہے،پولس نے ہمارا کیس خراب کردیا ہے،فیصلہ ہمارے حق میں کیسے ہوگا،وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے پھانسی کی جانب بڑھتے ہوئے بھائی یا بیٹے یا بے گناہ مسلم کیلئے اللہ کی ذات سے نا امید نہیں ہوتے،اسی سے مدد کے طلبگار ہوتے ہیں۔یہ رو یہ اس قوم کے اٹھارہ کروڑ لوگوں میں ہر کسی میں پایا جاتا ہے۔ہر لاعلاج مرض کے دوران ،ہر خطرناک آپریشن کے وقت،ہر مصیبت میں اور ہر نا امید مقدمے کی صورت میں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کس قدر تعجب ہے کہ پوری کی پوری قوم سمجھتی ہے کہ ان کا مرض لا علاج ہوچکا ہے ،وہہر ایسے شخص سے ناامیدہوچکے ہیں جو اس قوم کے مسائل کو حل کرسکتا ہے،انہیں اپنے مسائل،پریشانی، اور مقدمے میں جیتنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔۔۔۔۔مایوسی اور ناامیدی کا ایک سمندرہے جس میں پوری قوم غوطے کھا رہی ہے۔۔۔ہماری مسجدوں ،مدرسوں ،اسکولوں ،کالجوں، گھروں،غرض ہر جگہ کوئی فکر مندی جیسی کیفیت نظر نہیں آرہی ہے۔ہم بڑے آرام سے مطمئن ہیں اور سوچتے ہیں کہ کوئی ڈاکٹر ،مسیحا اور مسائل کو ھل کرنے والا میّسر نہیں تو مریض کو مر جانا چاہیے یا پھراسے ایسے ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گزارنی چاہیے۔ہم میں سے کوئی رات کی تنہائی میں سجدہ میں گر کر اللہ سے مدد کا طلبگار کیوں نہیںہوتا۔ہمارے گھر اگر کوئی عزیز بیمار ہوجائے اور ڈاکٹر نا امید ہوجائیں یا انتہائی خطرناک مصیبت میں کوئی سبیل نظر نہ آئے تو ہم کتنے ایسے کام ترک کردیتے ہیںکہ ہماری دعا میں اثر پیدا ہو۔۔۔۔۔۔ہم عیش وعشرت کے سامان موقوف کردیتے ہیں،جھوٹ ،دھوکا دہی،نہیں کرتے ،ہماری نگاہ زیادہ سے زیادہ غریبوں کی جانب اٹھتی ہیں کہ ہم ان کی مدد کر کے اللہ کی رحمت حاصل کریں،ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ کوئی معجزہ دکھا دے ،اگر وہ ان کے پیارے کو صحت دے،اگر وہ انہیں مقدمے میں فتح مند کر دے تو پھر یہ گناہ نہیں کریںگے۔۔۔۔۔۔

ہماری سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم راحت اور سکون کے دنوں میں وہ سب کچھ کررہے ہوتے ہیں جو ہمیں اللہ سے دور لے کر جاتا ہے،ہم ایسے حالات میں اسباب دنیا پر بھروسہ تیز کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ایسے دنوں میں ہر کوئی کا منشاء ہوتا ہے کہ گھروں میں سامان ذخیرہ کرلو،دولت کو سونا چاندی میں بدل کر اپنے پاس رکھ لوتا کہ آنے والے حالات میں کام آ سکے،ہم اسباب دنیا کے بھروسے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ آخرت اورنیک اعمال کی فکر بالکل پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔پھر جب کسی قوم کے بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے پکڑ کا حکم آجائے توہر فرد صرف ایک ہی آواز بلند کرتا ہے،استغفار، اجتماعی استغفار،۔۔۔۔۔اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور وہ تقدیر کہلاتے ہیں۔لیکن وہ اپنے فیصلوں پر قادر ہے اور اسے صر ف لو گوں کا گڑگڑ ا کر اپنے غرور ونخوت کے بت پاشپاش کر کے استغفار کر کے ہی بدلوایا جا سکتا ہے،لوگ کہتے ہیں ہم پر رحم کیوں نہیں کیا جاتا‘کیا خدا رحیم نہیں،اہل نظر کہتے ہیں تم نے کبھی اس سے رحم طلب کیاہے؟تم کبھی گڑ گڑا کر اس سے اپنی کم مائیگی‘اپنی بے عملی ،اپنے گناہوں اپنی بے راہ روی کی معافی مانگی؟؟؟
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 226 Articles with 277019 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More