بھارت کی ریاست مغربی بنگال کے اس خوبصورت چھوٹے سے
دھوبال گڑی گاؤں کے باشندے کسی بھی ملک کے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی
کوئی شناخت ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انہیں اس گاؤں سے باہر نکلنے کی بھی آزادی نہیں
ہے اور اس گاؤں کے باسی گزشتہ پینسٹھ برسوں سے اسی گاؤں کے ایک’پنجرے‘ میں
قید ہیں۔
|
|
گاؤں کے ایک باشندے شاہ جمال کہتے ہیں ’یہ ایک چڑیا گھر ہے، ہم جانوروں کی
طرح ہیں اور یہ دنیا کا سب سے بڑا چڑيا گھر ہے۔ ہمیں تو باہر نکلنے کی
اجازت نہیں لیکن ہمیں باہر سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔‘
سنہ انیس سو سینتالیس میں تقسیم ہند کے وقت بنگال کی تقسیم اس طرح ہوئی کہ
سو سے زیادہ گاؤں کسی بھی ملک کا حصہ نہ بن سکے۔
اس گاؤں کو سیت محل یا انکلیو کا نام دیا گيا۔ سیت محل کے ایک باشندے جمشید
علی نے بتایا ’حکومت اسے انکلیو کہتی ہے اور ہم بھی اسے انکلیو ہی کہتے
ہیں۔ ہم کس ملک کے شہری ہیں ہمیں نہیں معلوم۔ ہماری کوئی شناخت نہیں ہے۔‘
بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحد کے دونوں جانب واقع انکلیو کے باشندے صرف
شناخت ہی نہیں پینسٹھ برسوں سے بجلی پانی اور بنیادی سہولیات سے بھی محروم
ہیں۔
|
|
مشعل ڈنگا گاؤں کے ابولحسن کہتے ہیں ’یہاں نہ روڈ ہے اور نہ راستے ہیں۔
دواؤں سے بھی ہم محروم ہیں اور مصیبت چاہے کیسی بھی ہو کسی کی مدد حاصل
نہیں ہے۔‘
بنگال کی ایک مقامی کارکن دیپتی مان سین گپتا برسوں سے انکلیو کے باشندوں
کے حقوق کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان گاؤں باسیوں کی زندگی
انتہائی غربت میں گزرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ان کی صورت حال انتہائی غیر انسانی ہے۔ ہم برسوں سے ان کے
لیے جدو جہد کر کے تھک چکے ہیں اور اب اگر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو پھر ہم
بین الاقوامی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔‘
سیت محل کے باشندے اپنی شناخت اور قومیت کے حصول کے لیے پینسٹھ برسوں سے
جدو جہد کر رہے ہیں۔
|
|
دو برس قبل بھارت اور بنگلہ دیش نے ان گاؤں کو اپنے میں ضم کرنے کا ایک
معاہدہ کیا لیکن دونوں ملکوں میں اس معاہدے کے نفاذ میں رکاوٹیں در پیش ہیں۔
مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما نیل اتپل باسو کہتے ہیں کہ ’بھارت میں بی جے
پی جیسی دائیں بازو کی جماعتیں اس طرح کے بل کی مخالف ہیں اور بنگلہ دیش
میں بھی بعض مذہبی جماعتیں اس کی محالفت کرتی ہیں۔‘
بھارت کی حکومت نے انکلیو کے مسئلے کے حل کے لیے زمینوں کے تبادلے کا ایک
بل پیش کیا ہے۔ یہ بل پارلیمان میں دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جانا ہے۔
ان باشندوں کے مسائل کا حل اس بل کی منظوری پر منحصر ہے اور اب دیکھنا یہ
کہ کتنے اور برس انہیں اس کا انتظار کرنا پڑے۔ |