امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ
عنہ مخلوق کے لئے اﷲ تعالیٰ کی نعمت اور فقہ کاآسراہیں
حضرت نعمان بن ثابت رضی اﷲ عنہ کی ولادت شہرکوفہ(موجودہ عراق)میں ۸۰؍ہجری
میں ہوئی۔آپ ’’امام اعظم‘‘اور اپنی کنّیت’’ابوحنیفہ ‘‘کے نام سے مشہور
ہیں۔آپ فارسی النسل ہیں اور آپ کی پیدائش ایک تاجرگھرانے میں ہوئی۔امام
اعظم کے والد حضرت ثابت کی ملاقات بچپن ہی میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے ہوئی
تھی۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ان کے حق میں دعافرمائی اور یہ بات مشہور ہے کہ
امام اعظم رضی اﷲ عنہ اسی دعاکانتیجہ ہیں۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ
عنہ علم وحکمت کے تاجدار ، فقہ وفتاویٰ کے علم بردار، فقہا کے سردار،
سندالمجتہدین اور امام المحدثین ہیں ۔ بڑے بڑے مجتہدین ، محدثین عظام اور
فقہائے کرام آپ کی علمی بلندپائیگی، استدلالی پختگی ، استخراجی صلاحیت فقہی
بصیرت اور استنباطی ملکہ کے بیان میں رطب اللسان نظرآتے ہیں ۔ چند مثالیں
ہدیۂ قارئین ہے۔
(۱) حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ ’’سارے فقہا فقہ میں ابوحنیفہ کے عیال (اولاد)اور
پروردہ ہیں‘‘۔مزیدفرمایا:’’لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں،میں نے فقہ
میں ابوحنیفہ سے بہتر کسی کونہیں پایا‘‘۔
(۲) امام مالک فرماتے ہے کہ ’’ابوحنیفہ اگرمٹی کی دیوار کو ’’سونا‘‘ کہہ
دیں گے تو وہ اپنی استدلالی قوت سے اسے سونا ہونا ثابت کردیں گے‘‘۔
(۳) فضیل بن عیاض کا ارشاد ہے کہ ’’ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بہت بڑے
فقیہ علم وفضل اور تقویٰ وطہارت میں یگانہ روزگار تھے، زیادہ خاموش رہتے
اور بات کم کرنے والے تھے اور علم شرح کے سکھانے پر شب وروز بڑے سخی واقع
ہوئے تھے۔
(۴) حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ جوکہ حدیث کے فن میں امام کادرجہ
رکھتے ہیں،فرماتے ہیں کہ ’’فقہ میں امام ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کا کوئی جوڑ
نہیں ہے۔‘‘
(۵) علی ابن عاصم کہتے ہیں کہ ’’اگر ابوحنیفہ اور روئے زمین والوں کی عقلوں
کو وزن کیا جائے تو ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کی عقل بھاری ہوجائے گی‘‘۔
(۶) امام جلال الدین سیوطی نے یہاں تک فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم کی پیشن گوئی کہ ’’اگرعلم وحکمت ثریا کی بلندی پر بھی ہوتو ابناء فارس
میں سے ایک شخص اسے توڑلائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)کے مصداق امام ابوحنیفہ ہیں ۔
(۷) امام ابوداؤد رحمۃ اﷲ علیہ (م۲۷۵ھ/۸۹۷ء)صاحبِ سنن جوفن حدیث میں حجت
کامرتبہ رکھتے ہیں فرماتے ہیں کہ ’’امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ امام
شریعت تھے ‘‘۔
()امام سمعانی رحمۃ اﷲ علیہ (م ۵۶۲ھ/۱۱۶۶ء)فن حدیث اور تاریخ میں ایک سند
کادرجہ رکھتے ہیں،وہ تحریر فرماتے ہیں کہ’’جب امام ابوحنیفہ حصولِ علم میں
مشغول ہوئے تو اس گہرائی کوجاپہنچے جس مرتبے کودوسرے نہ پہنچ پائے۔
()امام ابوالمؤیدالموفق بن احمدبن محمد المکی الخوارزمی رحمۃ اﷲ علیہ (م
۵۶۸ھ)نقل فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے چار ہزار شیوخ سے
علم حاصل کیا،جن میں سے دوسوچھیالیس(246)شیوخ کے اسمادرج کیے ہیں۔ان میں
ایک استاد کانام امام شعبی رحمۃ اﷲ علیہ(م۱۰۴ھ/۷۲۲ء)ہے،جنہوں نے پانچ
سوصحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین سے ملاقات کی اور ایک سو پچاس صحابۂ
کرام سے احادیث روایات کیں،وہ امام اعظم کے کبائرشیوخ میں سے ایک تھے،اب
اندازہ لگائیے جب امام اعظم کے ایک استاد کی علمی وسعت کایہ مقام ہے توامام
اعظم نے اپنے تمام شیوخ سے کتنی احادیث سماعت کیں ہوگی۔
(۸) امام ابویوسف کہتے ہیں کہ تفسیر حدیث کے سلسلے میں امام صاحب سے زیادہ
عالم نہیں دیکھا۔
(۹) سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ حدیث میں اعلم الحدیث
تھے۔
(۱۰) حسن بن زیاد فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ نے ہزار ہزار حدیثیں
روایت کی ہیں جن میں سے دوہزار حدیثیں حضرت حماد (آپ کے صاحبزادے )سے بقیہ
دوہزار دوسرے شیوخ سے۔
(۱۱) ابن حجر مکی نے الخیرات الحسان میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ فقہ کا آسرا
ہیں ۔
(۱۲) ابن حجرہیثمی نے لکھا ہے کہ ’’ابوحنیفہ مخلوق کے لئے اﷲ تعالیٰ کی
نعمت ہے۔ ‘‘
(۱۳) یزید بن ہارون فرماتے ہیں کہ میں نے ہزار محدثین کے سامنے زانوئے ادب
طے کیا ہے اور ان میں سے اکثر سے احادیث لکھی ہے، لیکن ان میں سے سب سے
زیادہ فقیہ سب سے زیادہ پارسا اور سب سے زیادہ عالم صرف پانچ ہیں ان میں
اولین مقام ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ کا ہے۔
(۱۴) حافظ ابن حجرمکی فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے کبھی بھی اپنے مسلک کی
جانب بلااشارہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعوت نہیں دی، بالفاط دیگر فقہ
حنفی کا کوئی مسئلہ بھی سیدنا حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی
کے مخالف نہیں ہے۔
(۱۵) محمدبن سماعہ فرماتے ہیں امام ابوحنیفہ نے اپنی کتابوں میں ستر ہزار
سے زیادہ حدیثیں پیش کی تھیں اور چالیس ہزاراحادیث سے آثار صحابہ کا انتخاب
کیا ہے ۔
غرض کہ امام اعظم کے محدث اکبر ہونے پر نامور امامان دین ، مشاہیر زمانہ
اور بزرگانِ ین کے اقوال تاریخ وسیر میں سنہرے باب میں لکھے ہیں۔ ان حضرات
کی حق بیانی ، راست گوئی اور درست گفتاری بالکل مسلم ہے ورنہ صحاح ستہ کا
اعتبار ہی ختم ہوجائے گا کیونکہ ان کی مرویات سے صحاح ستہ مالا مال ہیں ۔
ان میں اکثر تو ایسے ہیں جنہوں نے امام اعظم کے شب وروز ، صبح ومساء اور
لیل ونہار کودیکھا ہے ۔
مآخذ:(۱) امام اعظم ابوحنیفہ رضی اﷲ عنہ او ر مخالفین کے اعتراضات کا
تحقیقی جائزہ۔(۲)امام اعظم ابوحنیفہ اور علمِ حدیث(۳)مذاہب اربعہ میں فقہ
حنفی کی جامعیت |