جدہ ایک مرتبہ احقر نے 1994ء
میں بھی دیکھا تھا،جب عمرے کے لئے اپنے کزن جناب سراج الدین نقی اﷲ صاحب کے
پاس اور پھر بعد میں محترم مولانا حمد اﷲ صاحب (امیرجمعیت علماء اسلام جدہ
سٹی)کے پاس رمضان سے اختتام حج تک قیام پذیررہا تھا، ان دنوں ہم مولانا شمس
الحق ،قاری رفیع اﷲ ،مولاناعبد الرشید،مولانا شریف الرحمن آف اوگی ،مفتی
عزیزاﷲ ،حاجی زر رحمن سے ملتے رہے،مولانا فتح اﷲ صاحب بانی و مہتمم جامعہ
افضل العلوم گلستان جوہر رفیقِ سفر تھے ، مولانا کی علمی پختگی اور سادگیٔ
طبع سے میں دوران سفربرابر محظوظ ہوتارہا،اور استفادہ کرتارہا ، مولانا ہی
نے اس وقت کسی صاحبِ خیر کے ذریعے اپنے لئے اور احقر کے لئے ٹکٹ کا انتظام
کرایا تھا،اﷲ جل شانہ سے دعاء ہے کہ ا نہیں اورانکے اس کرم فرما دونوں کو
اپنے شایانِ شاں اجرِ عظیم نصیب فرمائے۔
اس وقت ویزے میں بہت مشکلات پیش آئیں تھیں ،مگر اﷲ تعالیٰ مفتی جمیل خان
صاحب مرحوم ومغفورکی قبر پر برکات و انوارات کی بارشیں برس فرمائیں ،کہ
انہوں نے لمحوں میں وہ کام کر دکھا یا جو مہینوں سے اٹکا ہواتھا،(رحمۃ اﷲ
علیہ رحمۃً واسعۃً)۔
سعودی ریڈیو کو ایک انٹرویو:
اسی سفر میں ایک مرتبہ ہمارے عزیز ابراہیم (باباصاحب )کہیں کام کے دوران
بُری طرح جل گئے تھے، جن کی مزاج پُرسی کے لئے جدہ میں شارعِ فلسطین
پر(مستشفی سلیمان الفقیہ)سلیمان فقیہ ہسپتال جاناہواتھا،جہاں سعودی ریڈیو
کے کچھ نمائندے مریضوں سے انٹرویو کیلئے آگئے،ابراہیم سے بھی چند سوالات
کئے،کئی سالوں سے سعودیہ میں رہنے کے باوجودفصیح عربی زبان پرقدرت نہ ہونے
کی وجہ سے صحیح جوابات نہ دارد کاسامناتھا،جس پر ریڈیو والے پاس میں بیٹھنے
والوں کی طرف متوجہ ہوئے ،انہوں نے ہماری طرف اشارہ دیدیا، ہم نے اﷲ کے فضل
وکرم سے پوری تفصیل بتادی، جس پر وہ لوگ بہت خوش ہوئے ،اورہم سے کہنے لگے ،کہ
جناب نے یہ عربی کہاں سیکھی ہے،ہم نے جامعہ فاروقیہ کراچی اورپاکستان
کابتایا ،تووہ حیران سے ہوگئے ،پھر کچھ باہمی مشاورت کے بعد کہنے لگے ،کیا
ہم آپ سے اس وقت کچھ انٹرویو کر سکتے ہیں ،ہم نے جب اثبات میں جواب دیا،تو
اُن حضرات نے وہیں پر ہم سے پاکستان ،افغانستان،جہاد، دینی مدارس ُوجامعات
، پاکستان میں عربی زبان اورجامعہ فاروقیہ کراچی کے حوالے سے ایک مفصل
گفتگو کی ،جوکہ بعد میں شام پانچ بجے سعودی ریڈیو سے شائع ہوئی ، فﷲ الحمد
والمنۃ۔
حضرت مولانا عاشق الہی مرحوم کی خدمت میں :اسی سفر میں شیخ عاشق الہی
البرنی نوراﷲ مرقدہ کی خدمت میں ایک ہفتہ تک از مغرب تا فجر مسجد نبوی ﷺ
میں رہنے کا موقع ملا ،انہوں نے اجازت حدیث بھی مرحمت فرمائی ، بعدمیں
مکاتبت ومراسلت کاسلسلہ بھی رہا،ا ن سے یاد وں کے لئے شاید ایک مستقل مضمون
کی ضرورت ہوگی ،لیکن ایک بات یہیں ذکر کئے دیتا ہوں :
|
جدہ کے ساحل میں واقع بلند ترین شاور |
سماحۃالشیخ عبدالعزیزبن عبداﷲ بن بازرحمہ اﷲ کے نام خط:
وہ یہ کہ ایک مرتبہ رات کوحضرت دامت برکاتہم کی مجلس میں یہ بات چھڑ گئی ،
کہ جناب حدیث شریف میں تو آیا ہے کہ ’’اجعلوآخرصلاتکم با للیل وترا‘‘کہ وتر
کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ ،جبکہ یہاں حرمِ نبویﷺمیں تراویح میں بھی
وتر باجماعت ادا ہورہی ہے اور بعد میں قیام اللیل بھی ہوتی ہے،اس وقت قیام
اللیل میں وتر کی باجماعت نماز نہیں ہورہی تھی ،جس پر حضرت نے احقر کو حکم
دیا کہ آپ ایک خط اس موضوع پر تیار کریں حضرت شیخ عبد العزیز بن عبداﷲ بن
باز (مفتی اعظم مملکت سعودی عرب)کے نام اوراس مسئلے کو اس میں تفصیل سے
بیان کریں ، چنانچہ میں نے وہ خط تحریر کرکے حضرت مولانا عاشق الہی صاحب
مرحوم کو دکھادیا ، انہوں نے اپنے ایک خادم کے ذریعے اسے شیخ ابن باز مرحوم
کے پاس بھجوایا ،جس پر اگلے دو دنوں بعد ان کاحکم آیا کہ تراویح کے بعد وتر
باجماعت کے بجائے قیام اللیل میں وترکی جماعت کرائی جائے ۔
اس خط کی کاپی میرے کاغذات میں دیر تک رہی ،اب بھی شاید کہیں مختلف خطوط
وغیرہ کے ذخیرہ میں موجود ہوگی،صحیح یاد نہیں۔
’’ مطوَّع‘‘کے بھیس میں:
اس کے بعد ایک مرتبہ پھرربیع الثانی 1427ھ میں اﷲ رب العزت نے کرم فرمایا
تھا، ا س میں بھی صرف چار دن مکہ اور 24گھنٹے مدینے میں رہے تھے ،مولوی
عبدالغفور مُحکَم فاضلِ جامعہ فاروقیہ کراچی وخِرِّیج الجامعۃالاسلامیۃ
بالمدینۃالمنورۃ جو مولانا عبد اﷲ حیدری صاحب کے دست راست بھی تھے ،نے جمعے
کے دن زیادہ بھیڑ کی وجہ سے عربی جبہ و چغہ پہنا کر بالکل ’’مطوَّع‘‘ (ھیئتِ
امربالمعروف والنہي عن المنکرکے نگراں عالمِ دین)کی طرح بنا کرحرمِ نبویﷺمیں
روضۂ اقدس میں پہنچادیا تھا،اﷲ رب العزت انہیں جزائے خیر نصیب فرمائے ،مکہ
سے مدینہ منورہ جانے کیلئے اپنی گاڑی بھی لیکر آیا تھا ، طائف میں بھائی
عبد الحلیم خلیلی بخاری کے پاس جا نے کا اصرار بھی کررہا تھا،لیکن میں نے
اَن لیگلی ہونے کی بناء پر منع کردیا تھا،خلیلی صاحب کوباری تعالی اجرِ
جمیل عطا فرمائے ،کہ انہوں نے خود زحمت فرماکرملاقات کے لئے قدم رنجائی
گوارا کی۔
اس سفر میں وقت کی تنگیٔ داماں کی بناء پر کسی کو اطلاع نہیں کی تھی ،
البتہ عبد القیوم خان صاحب جو ہمارے پاس( معہد اللغۃالعربیۃ والدراسات
الاسلامیۃ)میں دو سال پڑھ چکے ہیں ،کو اُنکے زمیلِ درس مولانا سید زکی احمد
صاحب نے وہیں کراچی سے اطلاع کردی تھی ،وہ حرم میں احقرکو تلاش کرتا رہا ،ملنے
پر حد سے زیادہ خاطر تواضع کی،انکی کارکردگی وکارگذاری سن کر بیانـتِـــہاء
خوشی ہوئی۔
اس سفر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایر پورٹ کیلئے میں نے مولانا زکی صاحب
فاضل و سابق استاد جامعہ فاروقیہ و فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے کہہ
دیا تھا ،وہ جب اپنے برادر عزیز وقاص صاحب کے ساتھ میرے ساتھ ایر پورٹ
کراچی جارہے تھے ،تو کہنے لگے کہ استاذ جی ،ریال کتنے لئے ہیں ،میں نے کہا
ایک بھی نہیں ،کہا پاکستانی کتنے لئے ہیں میں نے کہا پانچ ہزار ،کہا گذارہ
کیسے ہوگا ؟میں نے کہا کہ پیکج میں جارہے ہیں ، اﷲ تعالیٰ خیر کرے گا، فوراً
جیب سے 200کے قریب ریال نکال کردئے ،اور کہا کہ عبد القیوم کو بھی فون پر
بتا دیا ،ہاتھ کشادہ رہا ، دینے والے اﷲ ہی ہیں ،سبب کسی کو بنادیتا ہے ۔ |