گورنمنٹ کالج میرپور ۔۔۔تعلیمی ادارہ یا بزنس سنٹر۔۔۔؟

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت عروہ ؓ فرماتے ہیں کہ ورقہ بن نوفل حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرتے اور مشرک انہیں تکلیفیں پہنچا رہے ہوتے حضرت بلالؓ احد احد کہہ رہے ہوتے یعنی معبود ایک ہی ہے تو ورقہ کہتے واقعی معبود ایک ہی ہے اور اے بلال!ؓ وہ معبود اللہ ہے پھر ورقہ بن نوفل امیہ بن خلف کی طرف متوجہ ہوتے جو کہ حضرت بلالؓ کو تکلیفیں پہنچا رہا ہوتا تھا ۔تو ورقہ کہتے ہیں اللہ عزوجل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے انہیں قتل کر دیا تو میں ان کی قبر کو برکت اور رحمت خداوندی کی جگہ بناﺅں گا ایک دن حضرت ابوبکر ؓ کا حضرت بلالؓ پر گذر ہوا وہ مشرک ان کو تکلیفیں پہنچا رہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ نے امیہ سے کہا ارے!کیا تم اس مسکین کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے ہو ؟کب تک (ان کو یوں سزادیتے رہو گے )امیہ نے کہا تم نے ہی تو ان کو بگاڑا ہے اب تم ہی ان کو تکلیفوں سے چھڑاﺅ۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا اچھا میں انہیں چھڑانے کے لیے تیار ہوں ۔میرے پاس ایک کا لا غلام ہے جو ان سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے اور وہ تمہارے دین پر ہے وہ غلام تمہیں حضرت بلالؓ کے بدلہ میں دیتا ہوں ۔امیہ نے کہا مجھے قبول ہے حضرت ابو بکر ؓ نے کہا وہ میں نے تمہیں دے دیا حضرت ابو بکرؓ نے اپنا وہ غلام دے کر حضرت بلال ؓ کو لے لیا اور انہیں آزاد کردیا ۔مکہ سے ہجرت کر نے سے پہلے حضرت ابوبکر ؓ نے اسلام کی وجہ سے حضرت بلالؓ کے علاوہ چھ اور غلاموں کو آزاد کیا ۔

قارئین ایک طویل عرصہ کے بعد دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضری ہو رہی ہے ۔رخصت کی چند وجوہات تھیں وہ آئندہ کبھی کسی موقع پر آپ سے عرض کریں گے آج کی اس تحریری حاضری کی بھی بنیادی وجہ آج کے موضوع میں پائی جانے والی سنگینی و سنجیدگی ہے کہ جس کی بدولت ” مرتا کیا نہ کرتا “ کے مصدا ق آپ کے سامنے چند باتیں رکھنا ہے ان باتوں کا مقصد نا تو کسی ذات پر کیچڑ اچھالنا ہے اور نہ ہی کسی پست کو بلند اور کسی بلند کو پست کرنا ہے ،ہم نے جب کبھی بھی کسی بھی ایشو کے متعلق کچھ تحریر کیا ہے اس کا بنیادی مقصد ہمیشہ یہی رہا کہ اپنی اور سوسائٹی کی اصلاح کی جائے ہمیں چاہے اس حوالے سے ” خدائی فوجدار “ کا لقب دے دیا جائے یا مروجہ صحافت کے ارباب اختیار اسے کوئی بھی نام دے لیں ۔ہم اپنے تئیں قلمی جہاد کر رہے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق مرتے دم تک اسے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں ۔

قارئین گورنمنٹ کالج میرپور ایک تاریخ کا نام ہے ایک ایسی تاریخ کہ جو مہاراجہ کے دور سے شروع ہوتی ہے ایک ایسے دور سے کہ جس میں گورنمنٹ کالج میرپور متحدہ ریاست جموں وکشمیر کے تین اہم ترین تعلیمی اداروں میں شامل تھا ۔گورنمنٹ کالج میرپور سے ایسے ایسے لعل و جواہر تربیت کی بھٹی سے برآمد ہوئے کہ جن کی تابناکی نے دنیا کی آنکھیں خیرہ کر دیں ۔آزاد کشمیر کے مختلف صدور ،وزرائے اعظم ،چیف جسٹس صاحبان ،پاکستان آرمی کے بڑے بڑے جرنیل ،ڈاکٹرز ،وکلاء،انجینئر ز ،ادیب ،صحافی اور ناجانے کیسی کیسی بڑی شخصیات اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے کا شرف رکھتی ہیں ۔گورنمنٹ کالج میرپور کی تاریخ کو پڑھنا شروع کریں تو یقین جانیے کہ جذبات کی شدت سے دل بھر آتا ہے اور آنکھیں تر ہو جاتی ہیں کہ کیسے کیسے عظیم اساتذہ کرام یہاں پر قوم کا مستقبل سنوارنے کے لیے سر سید احمد خان کی علمی تحریک کے روحانی شاگرد ہونے کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔یہ انہی عظیم اساتذہ کی عظیم کاوشیں تھیں کہ کسی وقت میں گورنمنٹ کالج میرپور کا نام آزادکشمیر نہیں بلکہ پاکستان بھر میں انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا تھا ،گورنمنٹ کالج میرپور ان اچھے وقتوں میں علم اور تہذیب کا بہت بڑا گہوارہ تھا ۔

قارئین راقم بھی اسی تعلیمی ادارے سے ایف ایس سی کرنے کا اعزاز رکھتا ہے اور یہ مضمون ٹائپ کرنے والے عزیز نوجوان دوست حبیب صادق بھی اسی ادارے سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور جس جگہ بیٹھ کر ہم یہ مضمون یا الجھے ہوئے خیالات ” انتہائی نیک مقاصد “ کے تحت آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں اس کے مالک طارق محمود مہر جو علمی اور ادبی ذوق رکھتے ہیں وہ بھی گورنمنٹ کالج میرپور کے متعلق گہری سو چ اور سچا درد رکھتے ہیں ۔ہم تینوں نے آج کے اس مضمون کے متعلق کچھ باتیں ڈسکس کیں اور عوامی اظہار کے ان لمحات میں اس نتیجہ پر پہنچے کہ واقعتا اس ادارے کے حالات توجہ طلب ہیں اور ارباب حل و عقد کی توجہ اس ادارے کی جانب مبذول کروانا انتہائی ضروری ہے ۔

قارئین گورنمنٹ کالج میرپور سے فارغ التحصیل ہونے والے سٹوڈنٹس نے ” سروشینز“کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس کے پلیٹ فارم سے وقتاً فو قتاًادارے کی اصلاح اور امداد کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں ۔سٹی فورم میرپور کے چیئرمین ڈاکٹر سی ایم حنیف ،پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ریاست علی چوہدری ،سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور رہنما مسلم لیگ ن چوہدری سعید سمیت علاقہ کی بڑی بڑی شخصیات اس تنظیم میں شامل ہیں اور دامے درمے سخنے قدمے گورنمنٹ کالج میرپور کے لیے یہ لوگ پیش پیش رہتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل تک گورنمنٹ کالج میرپور میں انتہائی ماہر اور قابل پروفیسر ارشد عادل راٹھور کے زیر نگرانی ” کالج اسمبلی “کی روایت ترقی کر رہی تھی اسی کالج اسمبلی سے ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم اٹھا اور اس نے پہلے ضلع میرپور کی سطح پر تقریری مقابلہ جیتا بعد ازاں ڈویژن لیول کے مباحثہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ،آزادکشمیر بھر میں پہلی پوزیشن کا اعزا ز حاصل کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی موجودگی میں لاہو ر میں ہونے والے کل پاکستان مباحثہ میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی ۔اس مباحثہ میں پہلی پوزیشن کا حاصل کرنا تھا کہ گورنمنٹ کالج میرپور زیر بحث آگیا میاں محمد شہباز شریف نے پروفیسر ارشد عادل راٹھور کے اس انتہائی ہونہار شاگرد کو دولاکھ روپے نقد انعام دیا اور اتفاقیہ طور پر موقع پر موجو د آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری کو تمام بڑے لوگوں نے مبارکباد یں دینا شروع کر دیں ۔چیف سیکرٹری آزادکشمیر پہلی فرصت میں جب میرپور پہنچے تو انہوں نے اس انتہائی ہونہار طالبعلم کو ایک تقریب میں بلا کر نقد انعام کے ساتھ ساتھ شیلڈ دی اور سیکرٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ اس بچے کی تعلیم کے اخراجات سرکاری سطح پر برداشت کیے جائیں اور فارغ التحصیل ہونے کے فوراً بعد اسے محکمہ تعلیم میں لیکچرر کے طور پر بھرتی کیا جائے ۔

قارئین درج بالا واقعہ تحریر کرنے کے بعد اب ہم آپ کو چند سنگین بے قاعدگیوں سے آگاہ کرتے چلیں ۔گورنمنٹ کالج میرپور کی یہ اسمبلی مبینہ طور پر پرنسپل ادارہ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف اور ان کے چند ہم نواﺅں کی سازشوں کی وجہ سے آج بند ہو چکی ہے گورنمنٹ کالج میرپور میں کالج کی بس کے لیے ایک گیراج مختص تھا ادارے کے پرنسپل نے بس کو کھلے آسمان تلے کھڑا کر دیا اور اس گیراج کے اندر ایک ایسا ”بزنس سنٹر “ قائم کیا ہے جس کا بظاہر مقصد تو انتہائی نیک بیان کیا جا رہا ہے لیکن اس کے نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔اس گیراج میں غیر نصابی کتابیں بیچنے کے لیے بک سٹال قائم کرنے کا کام زور و شور سے جاری ہے اور راقم کے ” خبری یا مخبر “کے مطابق محکمہ تعلیم کے بڑے صاحبان کو پرنسپل صاحب کی جانب سے بیس لاکھ روپے کے فنڈز استعمال کرنے کی اجازت کی درخواست دی گئی جو آخری اطلاعات تک منظور تو نہیں کی گئی لیکن گورنمنٹ کالج میرپو کی بس اب بھی کھلے آسمان تلے باہر کھڑی ہے اور گیراج کے اندر بک سٹال کے نام پر ” بزنس سنٹر “ قائم کرنے کا کام زور و شور سے جاری ہے ۔گورنمنٹ کالج میرپور میں اس وقت ایک سو سے زائد ماہرین تعلیم کام کر رہے ہیں آزادکشمیر کے موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید بھی گورنمنٹ کالج میرپور سے تعلیم حاصل کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں اور اس ادارے کے متعلق وہ ہر دور میں عملی کوششیں کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح اس ادارہ کا معیار بہتر ہو ،ان کے علم میں آج ہم یہ بات لانا چاہیں گے کہ ایک وقت تھا کہ اس ادارے کے ماہرین تعلیم پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات پیش کرتے تھے آج صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے آج گورنمنٹ کالج میرپور میں ایک سو سے زائد ماہرین تعلیم ہونے کے باوجود پرائیویٹ اساتذہ کو ہائیر کر کے انہیں ادارے میں خدمات بجا لانے کا موقع دیا جا رہا ہے ادارے کے ایک سو سے زائد ماہرین تعلیم اس وقت سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ان اساتذہ کا موقف ہے کہ وہ تمام مضامین جو ادارے کے ماہر ترین اساتذہ پڑھانے کی اہلیت رکھتے ہیں انہیں چند قریبی افراد کو نوازنے کے لیے پرائیویٹ لوگوں کے سپر دکر دینا کہاں کا انصاف ہے ۔گورنمنٹ کالج میرپور میں وہ اساتذہ کہ جو صبح شام محنت کر کے بہترین رزلٹ پیش کرتے ہیں انہیں سازشوں کے ذریعے تبادلہ کی نذر کرنے کی باتیں زبان زد ِ عام ہیں اور وہ تمام نالائق اور کام چور اساتذہ جو انتہائی خوفناک قسم کا رزلٹ پیش کرتے ہیں وہ چاپلوسی اور خوشامد سمیت دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے پرنسپل ادارہ ڈاکٹر محمد عارف کے منظور نظر بنے بیٹھے ہیں ۔یہ تمام باتیں افواہوں کی شکل میں گردش کر رہی ہیں ڈاکٹر محمد عارف اور ان کے ہم نواﺅں کو چاہیے کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں اور اگر یہ تمام الزامات درست ہیں تو ہم وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید سے مودبانہ التماس کرتے ہیں کہ خدا را گورنمنٹ کالج میرپو رجیسے انتہائی اہم اور تاریخی تعلیمی ادارے کو تباہ و بربا دہونے سے بچا لیں ۔آزادکشمیر کے انتہائی معز ز اور ماہر دانشور سابق مشیر و سیکرٹری و تعلیم چوہدری محمد یوسف نے بھی اپنی تصنیف میں ایک واقعہ تحریر کیا تھا کہ کسی دور میں محکمہ تعلیم کے ایک اعلیٰ افسر نے آزادکشمیر کے تعلیمی اداروں میں درسی کتابوں کی خرید و فروخت کے لیے ” بزنس سنٹر ز“قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کی انہوں نے شدید مخالفت کرتے ہوئے علمی و عقلی بنیادوں پر بیخ کنی کر دی تھی ۔وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید انتہائی مصروف انسان ہیں لیکن ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ گورنمنٹ کالج میرپور کے متعلق چوہدری عبدالمجید انتہائی حساس ہیں ۔انہیں چاہیے کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں اور جو بھی مجرم اس ادارے کی تباہی کی کوششیں کر رہا ہے اسے قرار واقعی سزا دے کر گورنمنٹ کالج میرپو ر میں اہل ترین لوگوں کو تعینات کریں ۔

قارئین حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے تعلیمی اداروں کے متعلق یہ بھی فرمایا تھا کہ ’ ’ ذاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن “آ چکے ہیں اور اسی سوچ کی انہوں نے ہمیشہ نفی کی تھی ۔علامہ اقبال ؒ فرماتے تھے۔

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد!
یہ مدرسہ ،یہ جواں ،یہ سرورو رعنائی
انہیں کے دم سے ہے میخانہءفرنگ آباد!
نہ فلسفی سے نہ مُلاسے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت !وہ اندیشہ و نظر کا فساد!
فقیہہِ شہر کی تحقیر !کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد!
خرید سکتے ہیں دُنیا میں عشرتِ پرویز
خدا کی دین ہے سرمایہءغمِ فرہاد!
کیے ہیں فاش،رموزِ قلندری میں نے
کو فِکر مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد!
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم !
عصا نہ ہو تو کلیمی ؑ ہے کارِ بے بنیاد!

قارئین گورنمنٹ کالج میرپور میں آزاد کشمیر بھر کے غریب ترین گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ،ہزاروں سٹوڈنٹس کا یہ ادارہ چھوٹے چھوٹے فروعی نوعیت کے مقاصد کی نذر کر دینا بہت بڑی زیادتی ہو گی ۔آج کا کالم ہم نا تمام چھوڑے دیتے ہیں اور دیگر انتہائی خوفناک حقائق اس امید پر افشاءنہیں کر رہے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید گورنمنٹ کالج میرپو ر کے معاملات کی اصلاح کے لیے اپنا مخلص ترین کردار ادا کرتے ہوئے ادارے کو انقلابی ڈگر پر چلانے کے راستے ہموار کر دیں گے ۔ضرورت پڑی تو راقم ” خدائی فوجدار “ہونے کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اس کالم کی اگلی قسط آپ کی خدمت میں پیش کرے گا جس میں علمی و عقلی بنیادوں پر چند مزید بے قاعدگیاں سامنے لائی جائیں گی ۔

آخر میں خلاف روایت ایک سچا ادبی لطیفہ پیش خدمت ہے۔
علامہ تاجور نجیب آبادی بڑے تن و توش کے بزرگ تھے ایک دن انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور کی عمارت سے باہر نکلتے ہوئے ایک خالی تانگے والے کو آواز دی اور کوچوان سے پوچھا
” انار کلی تک جانے کے کتنے پیسے لو گے ؟“
کوچوان نے پوچھا ” سالم تانگا ہوگا جناب ؟“
تاجور نجیب آبادی نے کہا ”ہاں ہاں میں کرایہ پوچھ رہا ہوں “
کوچوان نے کہا ” ایک روپیہ حضو ر “
تاجور صاحب نے اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا ” نہیں بھائی بارہ آنے ہونگے ہم تو روز یہی دیتے ہیں “
کوچوان نے آنکھیں پھاڑ کر ان کے موٹے تازے جسم کا جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا ۔”چلیے یہی سہی مہربان ! لیکن ذرا گھوڑے کی نظر بچا کر پچھلے طرف سے بیٹھ جائیے کہیں اس بے زبان کو کوئی اعتراض نہ ہو۔“

قارئین گورنمنٹ کالج میرپور کے ہزاروں بے زبان سٹوڈنٹس تو چپ ہیں لیکن تعلیمی ترقی کے نام پر تخریب کا کام جاری رہا تو یہ بے زبان بھی بولنے پر مجبور ہو سکتے ہیں ۔فی الحال ان بے زبان بچوں کو اندازہ نہیں ہے کہ ان کے مستقبل کے ساتھ کونسے کھیل کھیلے جا رہے ہیں ہمیں امید ہے کہ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ کر اصلاح ِاحوال کی جائے گی ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374170 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More