پروفیسر سیّد حسین خاموش، راولاکوٹ
متعدد لائق فائق اساتذہ کرام کی موجودگی کے باوصف سرکاری تعلیمی اداروں میں
معیار تعلیم کے غیر تسلی بخش ہونے کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوگا کہ
ان میں زیر تعلیم طلباءو طالبات مفت تعلیم کو خیرباد کہتے ہوئے انتہائی
مہنگے نجی تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ چشم کشا
امر یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں درس و تدریس اور تعلیم و تعلم پر
مامور اکثرمعلمین کی اپنی اولاد پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہے۔
ان طلباءو طالبات کی ہجرت کے باعث سرکاری اداروںکے سٹوڈنٹس کی تعداد اساتذہ
کی تعداد سے کئی گنا گھٹ گئی ہے، اکثر اداروں جہاں ماضی میں تلامذہ پڑھا
کرتے تھے میں وہ اب خال خال نظر آتے ہیں، جس سے سینکڑو ں اداروں کا معدوم
ہونا یقینی نظر آتا ہے، کیا یہ صورت حال محکمہ تعلیم ،اساتذہ، عوام اور
حکومت وقت کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ تعلیمی اداروں کی مخدوش صورتحال کو
سدھارنے کی بجائے اسے ابتر بنانے کے لئے منظم کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ یہ مہلک پالیسی کس بزر جمہر نے تشکیل دی ہے، اگر اس پر
عمل درآمد ہو گیا تو پھر رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔
معتبر زرائع سے موصولہ اطلاعات کے بموجب بعض سرکاری سکولوں میں چوتھی اور
ساتویں کی کلاسیں ہذف کی جا چکی ہیں، جبکہ بعض میں تیسری جماعت ختم کی جا
چکی ہے۔ مبینہ طور پر مزکورہ منفی قدم کا مقصد ضلعی تعلیمی بورڈ کے زیر
اہتمام ہونے والے امتحانات کے نتائج مین بہتری لانا یا بہتری دکھانا ہے،
کیا جماعتیں مختصر کرنے سے ان کا مقصد پورا ہوگا اس بارے میں کچھ کہنا قبل
از وقت ہے۔ ماضی قریب تک رائج رہنے والا نظام تعلیم اعلی ترین اور جید
مفکریں ، ماہرین تعلیم کی سالہا سال کی تحقیق و جستجو، عرق ریزی اور جان
گداز سعی پیہم کا ثمرہ ہے، جس پر گامزن ہو کر امت مرحومہ نے آسمان پر
کمندیں ڈالیں اور بحرکی اتھاہ گہرائیوں سے گوہر مراد حاصل کئے۔ کائنات کے
سربستہ راز دریافت کر کے انہیں زندگی کو سہل اور پر آسائش بنانے کیلئے اپنے
تصرف میں لایا۔ ہم اپنے ہم عصر اساتذہ سے مجوزہ بلکہ ایک حد تک روبہ عمل
لائے گئے ترمیمی پروگرام پر نطر ثانی کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ کوا چلاتھا
ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا کے مصداق ایسے موہوم لائحہ عمل پر گامزن
ہو کر تعلیم کا ستیاناس نہ کریں۔ کلاسز کم کرنے سے کیا حاصل ہوگا ، اس کے
بجائے اپنے صلاحیتوں کو ترقی دے کر ان کو بروئے کار لایا جائے۔ |