ملک شام جس سے اسلامی تاریخ کاقدیم رشتہ وابستہ ہے ۔۱۹۸۲
؍سے مسلمانوں کے خون سے لالہ زار ہے،انسان کی شکل میں وحشی درندے معصوم
انسانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں۔قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے
،ہر جگہ ننھے منھے معصوم بچوں اور عورتوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔رپورٹوں
کے مطابق اب تک ۸۰ہزار افراد شہید ہو چکے ہیں،اور دس لاکھ سے زیادہ افراد
پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔یہ تو گزشتہ دو سالوں کی
رپورٹ پر مبنی معلومات ہیں حقیقت حال تو یہ ہے کہ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ
تقریباً ۳۲سالوں سے جاری ہے ۔جہاں بستیوں کی بستیاں ویران ہو گئی ہیں ،آج
پوری دنیا کی نگاہیں شام کی صورتحال پر مرکوز ہیں ۔دنیا آج انسان نما وحشی
کا مشاہدہ کر رہا ہے اور سوال کر رہا ہے کہ اس تباہی و بربادی کاکا ذمہ
دارکون ہے؟۔اس کا آغاز شام کے موجودہ حکمراں کے باپ حافظ الاسد نے کیا تھا
،اس کا تعلق بعث پارٹی سے تھا اور وہ علوی نصیری فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔وہ
مغربی تہذیب کے دلدل میں سر سے پاؤں تک غرق ہو چکا تھا ،اس کے اندر مغربی
کلچر کے فروغ کا جذبہ اور اشتراکیت کا بھوت اس قدر سوار تھا کہ اس کو ہر با
شرع نمازی ،دیندار مسلم اور پردا نشیں عورتیں دہشت گرد نظر آنے لگیں اور اس
نے اسلام پسندوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے اپنی فوج اور انتظامیہ میں علویوں
کو بھر دیا ۔جبکہ شام کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں اسلامی
عقائد اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بنیادیں بہت گہری تھیں۔وہ غیر اسلامی
نظریہ سے سخت متنفر تھے ،جسکی وجہ سے حافظ الاسد نے اسلام پسندوں کے خلاف
محاذ کھول دیا اور پھر وہی ہوا جو اکثر ملکوں میں سیاسی پارٹیاں انجام دیتی
ہیں ،فرقہ وارانہ فساد بر پا کر کے اسلام پسندوں کو اخوان المسلمون کے نام
پر کچلنے کا سلسلہ شروع ہوا۔جیسے ہندوستان میں انڈین مجاہدین کے نام پر
نوجوانوں کا شکار کیا جارہا ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ شام میں پورے پورے خاندان
کو دہشت گرد کے نام پر بموں اور گولیوں سے بھونا گیا اور یہاں صرف نوجوانوں
کو نشانہ بنایا جا رہا ہے گویا کہ شام کا حکمراں مسلم ہونے کے باوجود دیگر
ممالک سے بھی بدتر سلوک مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا ہے ۔تاریخ شاہد ہے کہ
عوامی طاقت کو کچلنے کیلئے ہر حکمراں طبقہ یہی طریقہ اختیار کر تا رہا ہے ۔شام
میں یہ قانون منظور ہوا کہ اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی ہے۔جس طرح بنگلہ
دیش میں جماعت اسلامی کے ارکان کو زبردستی پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے ۔حافظ
الاسد کو جس پر بھی اخوانی ہونے کا شبہ ہوا اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا
گیا اور اس کے ساتھ بد ترین تشدد کیا گیا ۔ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی
کارروائی کے گولیوں سے بھون دیا گیا ۔شہر حمات کو اخوان المسلمون کا گڑھ
قرار دے کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا اور ٹینکوں ،توپوں اور بھاری اسلحہ کے
ساتھ ان پر حملہ کر دیا گیا ۔پورے شہر میں زبردست تباہی مچائی گئی شہر کا
محاصرہ ۲۷روز تک جاری رہا اور پورا شہر ویران کر دیا گیا ۔جیلوں کے اندر
ابو غریب جیل سے بدتر انسانی سوز مظالم مردوں سمیت عورتوں اور بچوں پر
ڈھایا گیا جس کو سُن کر حافظ الاسد کا چہرہ وحشی درندہ سے بھی بد تر نظر
آتا ہے ۔اس شہر حمات کے چالس ہزار سے زائد افراد کو گولیوں سے بھون کر
اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا ۔اس طرح ظلم اور تشدد و بربریت کا یہ
سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔اور باالآخر پورے ملک میں بغاوت پھوٹ پڑی ۔حافظ
الاسد کے بعد اس کے بیٹے بشارالاسد نے بھی باپ کی روایات کو بر قرار رکھا
جس کے خلاف تحریک مزاحمت برپا ہوئی ،تو خیال یہ تھا کہ یہ تحریک دو چار
ہفتوں میں ختم ہو جائے گی لیکن تحریک کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس کی شدت
بڑھتی گئی یہاں تک کہ اس تحریک کو برپا ہوئے دو سال ہو گئے ہیں ۔اس وقت
تحریک مزاحمت کا کوئی متعین چہرہ نہیں تھا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ شام
کی تحریک مزاحمت نے اسلام کو شام کے حال اور مستقبل کا مرکزی مسئلہ بنا دیا
ہے اور شام کے لوگوں کی عظیم اکثریت کہہ رہی ہے کہ ہمیں اب اسلام کے سوا
کچھ قابل قبول نہ ہوگا ،اور ظالم بادشاہ بشارالاسد کے بارے میں یہ بات طے
ہو چکی ہے کے شام کا مستقبل بہر حال اس سے متعلق نہیں ۔اسے آج نہیں تو کل
جانا ہی ہوگا ۔اس کی مقبولیت عوام کیا اس کی اپنی فوج میں بھی کم ہو رہی ہے
اور فوجیوں کی بڑی تعداد فوج کو چھوڑ کر تحریک مزاحمت کا حصہ بن رہی ہے ۔امریکہ
،پوروپ اور خود خطے کے مسلم ملکوں نے شام میں جعلی حزب اختلاف کو تخلیق
کرنے کی بہت کوشش کی ہے اور یہ کوشش اب بھی اقوام متحدہ کی طرف سے منظور ہو
کر جاری ہے لیکن اب تک وہ مصنوعی حزب اختلاف کی مقبولیت میں اضافہ کرنے میں
ناکام ثابت ہو چکے ہیں ۔چنانچہ امریکہ اور اسرائیل ترکی کو ساتھ لیکر اس
کوشش میں مصروف ہیں لیکن یہ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ شام میں قیادت کا خلا
صرف اسلام پسند ہی پُر کر یں گے ۔
ایران اور ترکی شام کے پڑوسی ہیں اور شام کے صدر بشارالاسد نے اپنے لاکھوں
باشندوں پر ظلم و جبر کی انتہا کر دی ہے ۔ٹھیک ایسی ہی حالات برما میں ہے
جس کی حکومت مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے اور جب برمی مہاجر
بنگلہ دیش کی سرحد عبور کرتے ہیں تو ظالم بنگلہ دیشی رانی کے کارندے فوج
انہیں واپس بھیج دیتی ہے کیونکہ وہ تو خود اسلام پسندوں کو پھانسی پر
چڑھانے میں مصروف ہے ۔حا لانکہ اس صورت حال میں قرآن مجید میں اﷲ تبارک
تعالی فرماتا ہے کہ تم اپنے ان بھائیوں کی مدد کیوں نہیں کرتے ہو جو ظلم سے
نجات کے لئے تمہیں آواز دے رہے ہیں ۔لیکن طیب اردغان اور احمد ی نژاد کے
نزدیک قرآن کے اس حکم کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔اس معاملے میں تحریک حماس کو
جس کو دنیا بھر کے مسلمانوں کی تائید حاصل ہے وہ بھی مخلص نہیں نظر نہیں
آتی ہے تب ہی تو مصر کے صدر محمد مرسی نے مصر سے فلسطین کی طرف جانے والی
سرنگوں اور راہداروں کو بند کرنے کا حکم دیدیا ہے کیونکہ اس راستے سے اشیا
ء خوردنی کے ساتھ ساتھ اسلحہ کی بھی سپلائی کی جاتی تھی جس کا تعلق شامی
مسلمانوں سے بھی ہے،انکی یہ جرائت کہ ہمیں مدد ہی کرنی ہے تو ہم کھلے عام
فلسطین کی مدد کریں گے غیر قانونی طریقہ اختیار کیوں کریں؟ ۔اب رہی بات
امریکہ نوازی کی توترکی نے دسمبر ۲۰۱۲میں شام کے اندر عرب لیگ کے فاروق
الشرع کو بشارالاسد کا متبادل بنا کر ابھارنے کی کوشش کی ۔جبکہ فاروق الشرع
پر امریکہ کی مہر لگی ہوئی ہے ،ترکی نے شام میں پوروپی یونین کی مداخلت کی
راہ ہموار کرنے کی کوشش کی اور اب وہ اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ قریبی
تعلق استوار کر کے شام میں مزاحمت کو ناکام بنانے اور امریکہ اور اسرائیل
کے مفادات کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔شام کی صورت حال
ایران اور اس کی اسلام پسندی کو بھی پوری طرح آشکارا کر رہی ہے ،دنیا کے
مسلمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر انقلاب
علامہ خمینی ؒ کے پیرو کار محض فرقے کی بنیاد پر ظالم و جابر بادشاہ کی
حمایت کھل کر کریں گے ۔یہ بہت بڑا المیہ ہے اور امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکر
ہے ۔علامہ خمینی ؒ کی ذات سے کون واقف نہیں ہے ۔وہ تو پوری دنیا میں اسلامی
جمہوریہ قائم کرنے کی فکر رکھتے تھے وہ تو جلیل القدر شخصیت کے حامل رہنما
تھے انکی فکرہماگیر تھی انکی نظر میں آفاقیت پائی جاتی تھی ۔جس کی تازہ
مثال یہ ہے کہ’’ گرفتاری سے قبل علامہ خمینی ؒ ۱۹۶۳موسم حج اپریل مئی میں
ان کی مکہ معظمہ میں مولانا مودودی ؒ سے ملاقات ہوئی ۔اس ملاقات میں انہوں
نے مولانامودودی ؒ کو شاہ ایران کے ان مظالم سے مطلع کیا جو ایرانی علماء
اور اسلام پسندوں پر کئے جا رہے تھے ،کیونکہ اکتوبر ۱۹۶۳کے ترجمان القرآن
میں ان مظالم کا حال شائع ہوا تھا جس پر ایرانی سفیر نے احتجاج کیا تھا اور
کراچی میں ایرانی سفارت خانہ کے پریس اتاثی محمد علی زرنگار کا ایک جوابی
مضمون دسمبر کے ترجمان القرآن میں شائع ہوا ۔خمینی ؒ کی گرفتاری اور
جلاوطنی کیخلاف جب ایران میں مظاہرے ہوئے تو حکومت ایران نے گولی چلا کر بے
شمار مظاہرین کو شہید کر دیا ۔اس کے بعد ایران میں ہر سال علماء اس قتل عام
کی یاد مناتے رہے اور گولیاں کھاتے رہے ۔
عراق میں خمینی ؒ پندرہ سال مقیم رہے ۔اس مدت میں انہوں نے اسلامی حکومت کے
موضوع پر قرآن و حدیث کے در وس کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے افکار ان کے
شاگردوں کے ذریعہ ایران میں پھیلتے رہے ۔انہوں نے مغربی قوانین کے نفاذ کی
مخالفت کی اور زوردیا کہ اسلام نے زندگی کے ہر شعبے کے لئے قوانین عطا کئے
ہیں اور اسلام میں دین اور سیاست علیحدہ نہیں ہیں ۔۱۹۷۱میں جب ایران میں
شہنشاہیت کا ڈھائی ہزار سالہ جشن منایا جا رہا تھا تو ان کا ایک بیان لندن
کے جریدہ امپیکٹ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے کیا :’’اسلام کی تاریخ
درحقیقت بادشاہت کے خلاف جدو جہد کی تاریخ ہے،جمہوریہ کے قیام کے لئے ضروری
ہے کہ پہلے سیاسی استبدادی نظام کی تمام صورتوں کو ختم کر دیا جائے‘‘۔اس
بیان میں خمینی ؒ نے یہ بھی کہا کہ :’’ایران میں ڈھائی ہزار سال سے آزادی
کا گلا گھونٹا جا رہا ہے ۔ہر حکمراں عوام کا استحصال کرتا رہا ہے ۔اب شاہ
بھی اسی بادشاہت کا جشن منا رہا ہے حالانکہ سوگ منانا زیادہ مناسب تھا
(روزنامہ جسارت کراچی ۱۴فروری ۱۹۷۹ء )ایران میں آیت اﷲ خمینی کے یہ افکار
ان کے شاگردوں کے ذریعے پھیلتے رہے جب ان کے افکار کے تحت اکتوبر ۱۹۷۸ء میں
انقلابی تحریک شروع ہوئی تو ایرانی حکومت نے عراق پر دباؤ ڈالا کہ وہ آیت
اﷲ خمینی ؒ کو عراق سے نکال دے ۔چنانچہ وہ ۶اکتوبر کو فرانس چلے گئے اور
پیرس کے نواح میں رہائش اختیار کر لی ۔ان کی یہ قیام گاہ انقلابیوں کا مرکز
بن گئی ۔ڈاکٹر ابراہیم یزدی جو انقلاب کے بعد ایران کے نائب وزیر اعظم اور
وزیر خارجہ نامزد ہوئے ۔اس زمانے میں امام خمینی ؒ کے قریب ترین مشیر تھے
اور انقلابی تحریک اور خمینی ؒ کے درمیان ایک رابطہ تھے۔اس کے بعد ایران
میں انقلابی تحریک روز بروز زور پکڑتی گئی اور بالآخر ۱۶جنوری۱۹۷۹ء کو شاہ
ایران ملک چھوڑ نے پر مجبور ہو گئے ۔کیونکہ ایران کی عوام سڑکوں پر آگئے
اور فوج نے اپنے ہی لوگوں کے اوپر گولیا چلانے سے نا صرف انکار کیا بلکہ اس
نے ہتھیار بھی ڈال دئے ۔یکم فروری کو امام خمینی ؒ ایران پہنچ گئے اور یکم
اپریل کو استصواب عام کے بعد ایران ایک اسلامی جمہوریہ بنا دیا گیا ۔(ماخود
از روزنامہ آزاد ہند کلکتہ ۱۹اپریل ۲۰۰۱۳) آج علامہ خمینی کی روح شام کی
صورت حال سے تڑپ رہی ہوگی ،وہ پوری امت کو امت واحدہ کی نظر سے دیکھتے تھے
۔ایران حکومت کو امام حسین ؓ سے سبق حاصل کرنی چاہئے کے انھوں نے حق کی
خاطر خلافت کو بچانے کیلئے صحابی رسول ﷺ امیر معاویہ ؓ کے بیٹے یزید سے جنگ
کی اس وجہ سے نہیں کہ وہ غلط آدمی تھا بلکہ صرف اور صرف اسلامی حکومت یعنی
خلافت جو ملوکیت میں تبدیل ہو چکی تھی اس کی خاطر اپنا سر قلم کر وانہ قبول
کیا لیکن صحابی ؓ کے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا ۔بشارالاسد
محض ایک ظالم بادشاہ کا بیٹا ہے جسکی پشت پناہی کرنا ظالم کے ہاتھ مضبوط
کرنے کے مترادف ہے ۔اسی ضمن میں حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کا وہ
واقعہ بھی یاد رہنی چاہئے جب دونوں میں فروعی اختلاف چل رہے تھے تو اس کی
شدت کو محسوس کرتے ہوئے ایک بادشاہ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو پیغام بھیجا
کہ آپ کہیں تو میں حضرت علی ؓ کے خلاف اپنا لشکر بھیج کر آپ کی مدد کر سکتا
ہوں ۔حضرت امیر معاویہ ؓ نے جب اس کا پیغام سنا تو آپے سے باہر ہو گئے اور
کہا کہ تم ہمارے فروعی اختلافات کی بنا پر ہمیں آپس میں دشمن سمجھتے ہو خدا
کی قسم اگر تم نے حضرت علی ؓ کے خلاف لشکر کشی کرنے کی جراء ت بھی کی تو
انکی دفاع کیلئے نکلنے والا سب سے پہلا شخص (امیر معاویہ ؓ)ہوگا ۔یہ تھا وہ
اتحاد جو صحابہ کرام نے عملی طور پر ثابت کر کے دکھا دیا مگر افسوس کے
ایران شام اور اس کے لوگوں کے خلاف بشار الاسد کا حامی بن کر کھڑا ہے اور
اس کے فوجی دستے بشارالاسد کی ڈھال کا کردار ادا کررہے ہیں ۔جس سے ظاہر ہے
کہ فروعی اور ذاتی فرقے کی بنیاد پر اسلام کے قلع کو مسمار کرنے کی کوشش کی
جا رہی ہے اسلام کی چیخیں سنائی دے رہی ہے ۔لیکن امت واحدہ خاموش ہے ۔
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و نظر |