آج (8جون) کا ایکسپریس دیکھا تو
یقین جانیں دنگ رہ گیا۔سرورق پر ایک تصویر شایع ہوئی ہے، جس میں شاہ زیب
قتل کیس کے مرکزی ملزمان (جن کا مجرم ہونا اب ثابت ہو گیا ہے)شاہ رخ جتوئی
اور سراج تالپور عدالت سے سزائے موت کا فیصلہ سن کر ڈھٹائی سے وکٹری کا
نشان بنا رہے ہیں اور تالیاں بجا رہے ہیں۔ یہ کس قسم کا فرعونی ردعمل ہے
میں سمجھ نہیں سکا۔دوبارہ سہ بارہ خبر غور سے پڑھی کہ شاید عدالت نے اس کیس
میں ان دونوں کو بے قصور قرار دے کر باعزت بری کر دیا ہے، جس پر وہ فتح
یابی کا نشان بنا رہے ہیں لیکن .... مجھے کہنے دیجیے کہ یہ ردعمل انسانی
عمل نہیں، کیوں کہ انسان کے مادے میں اگرکا خطا اور بھول کا مادہ ہے تو
ندامت کا مادہ بھی ہے۔ خصوصاً پکڑے جانے کے بعد اور سزا سنانے کے بعد تو
ندامت اور غم کا اظہار ایک نارمل رویہ ہے۔ اور ندامت کا خاصہ یہ ہے کہ نادم
کے خلوص کو پرکھ کر اکثر معافی دے دی جاتی ہے، لیکن ان دونوں انسان نما
درندوں کا یہ عمل سراسرشیطانی اور تکبرونخوت کی انتہا ہے۔تفاسیر میں لکھا
ہے کہ جب شیطان نے اللہ رب العزت کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے جلال
میں اس کے سارے اعزازات چھین لیے، وہ جو معلم المکوت تھا ، اسے راندہ درگاہ
کر کے ہمیشہ ہمیش کی مردودیت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا گیا تو اس نے
بجائے نادم ہوکررحم طلب کرنے کے اور زیادہ اکڑ فوں دکھائی اور قیامت تک کی
مہلت طلب کر کے مختلف دعوے کرنے لگا۔ اس کے برعکس دوسری طرف دیکھیںتو خطا
حضرت آدم اور حضرت حوا علیہم السلام سے بھی ہوئی تھی لیکن انہوں نے ندامت
کے آنسوؤں کے ایسے دریا بہائے کہ حق ادا کر دیا۔
ہمیں عموماً غصہبہت کم آتا ہے اور نفرت تو شاید کسی کی بھی دل میں نہیں
لیکن ان دونوں مجرموں کی اس اکڑ فوں کے مظاہرے نے مجھے اُن سے نفرت کرنے پر
مجبور کر دیاہے۔انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے بڑی بڑی غلطیاں ہو جاتی ہیں،
بڑے بڑے گناہ بھی ہو جاتے ہیں، آدمی ان کی سزائیں بھی پا لیتا ہے اور کبھی
بچ بھی جاتا ہے لیکن سزا ملنے پر بجائے نادم ہونے کے یا کم ازکم غمگین ہونے
کے ایسی خوشی کا اظہار دراصل اس نفسیاتی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جس میں
مبتلا شخص تکبر کی انتہا کو چھو لیتا ہے، وہ بزبانِ حال یہ کہتا ہے کہ
دیکھو ہم اگرپیسے اور طاقت کے بل پر کسی کی عزت اچھالیں، کسی کو بے گناہ
قتل کر دیں تو یہ ہمارا حق ہے۔پھر اگر ایسے زمینی خدا،قدرت کی پکڑ میں آ
جائیں تو وہ مرتے مر جاتے ہیں لیکن بجائے نادم ہونے کے اپنی اکڑی ہوئی گردن
جھکنے نہیں دیتے۔ تاریخ سے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک بار حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ میری امت کا فرعون ابو جہل
ہے جو موسیٰ (علیہ السلام )کے فرعون سے زیادہ شقی ہے۔ استفسار پر فرمایا کہ
موسیٰ کا فرعون جب خدائی پکڑ میںآکردریا میں غوطے کھانے لگا تو پکار اٹھا
کہ میں موسیٰ کے رب پر ایمان لے آیا اور استغفار کرنے لگا لیکن ابوجہل کی
جب گردن کاٹی جانے لگی تو مرتے مرتے بھی کہنے لگا کہ میری گردن ذرا نیچے سے
کاٹنا، کہ یہ سردار کی گردن ہے!یعنی ابوجہلملعون نے مرتے وقت بھی بجائے خوف
کھانے کے غرور و تکبر کا اظہار کیا۔ ابوجہل کی اتباع میں ان دونوں مجرموں
کا بھی یہی ردعمل ہے....تصویر دیکھ کر یوں لگ رہا ہے جیسے انہوں نے ایک
جیتے جاگتے انسان کو نہیں مارا بلکہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس پر
وہ میڈیا کو وکٹری کا نشان دکھا رہے ہیں!
ڈھٹائی اور حیوانی خوشی کے اظہار کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ گزشتہ کچھ
عرصہ سے تواتر کے ساتھ میڈیا میں ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں عدالت نے
ایک ملزم کو مجرم ڈیکلیئر کر کے اسے سزا سنائی لیکن وہ مجرم عدالت سے جاتے
ہوئے میڈیا کو وکٹری یعنی فتح کا نشان دکھا کر رخصت ہوا۔ نہ جانے یہ کیسی
فتح ہے، جسے کم سے کم الفاظ میں بھی ڈھٹائی اور بدمعاشی سے تعبیر کیا جا
سکتا ہے۔گذشتہ سال کی ہی بات ہے کہ جب سابق وزیراعظم گیلانی کے سابق
ایڈوائزر خرم رسول ایک کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ ان پر ایک پارٹی
سے 62 کروڑ کی رشوت کا الزام تھا۔ بنک سے 2 کروڑ قرض لے کر واپس نہ کرنے پر
ایک عدالت نے ان کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔یہ صاحب بھی سزا
سننے کے بعد جب عدالت سے واپس ہو رہے تھے تو وکٹری کا نشان بنا کر میڈیا کو
دکھاتے ہوئے گویا قوم کو چڑا رہے تھے۔
اسی طرح آپ کو یاد ہو گا کہ 2007ءمیں ایک فوجی دستے کو لال مسجد اور جامعہ
حفصہ آپریشن کا ناخوشگوار فریضہ ادا کرنا پڑا جس میں سفاک صفت ڈکٹیٹر مشرف
کے حکم پر معصوم بچیوں تک کو بارود سے پگھلا دیا گیا۔ آپریشن مکمل ہوا تو
گاڑی میں واپس جاتے ہوئے بعض سکیورٹی اہلکارمیڈیا کو دیکھتے ہوئے وکٹری کا
نشان بنا رہے تھے۔ جیسے انہوں نے کشمیر فتح کر لیا ہو، یہ انداز انتہائی
شرمناک تھا۔
ہمارے معاشرے میں یہ سفاکیت کیوں پیدا ہو گئی ہے؟ اس کا جواب زیادہ مشکل
نہیں۔ جب گھٹی میں ہی بچوں کو خون چٹادیا جائے، جب نوخیز ذہنوں میں یہ بات
بٹھا دی جائے کہ بس تم ہی انسان ہو، کیوں کہ تمہارے پاس بے حدو حساب پیسہ،
اختیار اور طاقت ہے، باقی سب کیڑے مکوڑے ہیں اور کیڑے مکوڑوں کو جب چاہو
مسل دو، کون پوچھنے والا ہے، یہ سوچ جب جوان ہو جاتی ہے تو پھر ایسے ہی
سانحے جنم لیتے ہیں۔ |