جہیز ہمارے معاشرہ کا ایک سماجی کینسر

مداوا ایک اینٹی جہیز موومنٹ کے نام سے ایک این جی او ہے، اس کے صدر محترم طاہر اقبال طائر ہیں۔ میں اُنکو اپنے فیس بک کے حوالے سے جانتا ہوں۔ کل انکا ایک پیغام فیس بک پر دیکھا جس کا کچھ حصہ یوں تھا۔

"کئی زندگیوں کا سوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فیس بک قارئین مشورہ دیں

میری بچیوں کو انصاف دلائیے ،میرا مداوا کیجئے۔میں جیتے جی مر جاؤنگا ۔میری بچیوں کا قصور کیا ہے ؟رات ایک بجے کے قریب میرے موبائل فون پر آنے والے ایس ایم ایس نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا ۔میں نے اس نمبر پر فوراً فون کیا ۔دوسری طرف چیخ وپکار تھی ۔خواتین کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایک شخص نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا سرمیری بچیوں کو مارپیٹ کر گھر سے نکال دیا گیا ہے وہ کہہ رہے تھے کل ہم انہیں طلاق بھی دے دیں گے ۔ تین سال قبل میرے بڑے بھائی نے اپنے دو بیٹوں کیلئے میری بیٹیوں کا رشتہ مانگا میں نے سوچا خاندان میں ہی رشتے ہو جائے تو نکاح میں بھی آسانی ہوگی ۔ بچیوں کے تایا ابو اپنی بیٹیوں کی طرح ان کا خیال بھی رکھیں گے میں نے حامی بھر لی ۔ رخصتی سے قبل میرے بھائی نے کہا کہ جہیز کیلئے پریشان مت ہونا یہ میری بیٹیاں ہیں اور مجھے اپنے گھر میں صرف اِن کی ضرورت ہے ۔میں بہت خوش تھا کہ بچیوں کی رخصتی میں میری غربت آڑے نہیں آئی اور وہ بغیر جہیز کے ہی اپنے گھر چلی گئیں لیکن شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی جہیز کو لیکر جھگڑے شروع ہو گئے۔ میری بھابھی کی زبان پر تو بس ہر وقت ایک ہی طعنہ رہتا ہے کہ تمہارے باپ نے تمھیں دیا ہی کیا ہے۔ تم دونوں اپنے گھر سے لیکر ہی کیا آئی ہو۔ کل رات سب گھر والوں نے ملکر میری بچیوں کو مارا اور آدھی رات کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ہمیں تم جیسی کنگلیوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ دفع ہو جاو کل تمہا ری طلاق تمہارے گھر پہنچ جائے گی ۔ میری ان بچیوں کا رو رو کر برا حال ہے جبکہ ان میں سے ایک بچی امید سے بھی ہے ۔ہمارے گھر میں جیسے ماتم ہے ۔خدا کیلئے کچھ کیجئے میری بیٹوں کا گھر اجڑنے سے بچائیے"۔ آخر میں جناب طاہر اقبال طائر صاحب اپنے فیس بک کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میری رہنمائی کیجئے۔ تجویز کیجئے کہ کیا بہتر ہوگا ۔ہمیں کیا کرنا چاہئیے"؟

اوپر فیس بک میں لکھا ہوا واقعہ ہمارے معاشرے کا نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔آپ اکثراس سے بھی زیادہ سنگین واقعات اخبارات میں پڑھتے اور میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں۔ آج کل ہمارا معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے جہیز کی لعنت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں، اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔ بے شمار بچیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ۔ کم جہیز کی وجہ سے بھی بہت سی بچیوں کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے؛ مار پیٹ کے علاوہ اُن کو جلا یا بھی جاتا ہے اور اب تو اُن پر تیزاب بھی پھینکا جانے لگا ہے ۔ دوسری طرف عرب دنیا میں رسم ہے کہ لڑکا شادی سے پہلے ایک رقم دلہن کے گھروالوں کو ادا کرتا جب اسکی شادی ہوتی ہے ۔ سعودی عرب میں دو ہزار نو میں جدہ سے شایع ہونے والے اردو اخبار "اردو نیوز" میں ایک خبرشایع ہوئی جس میں کہا گیا کہ آٹھویں جماعت کی طالبات سے اُنکی ایک پینتیس سالہ استانی نے اُن سے کہا کہ اُسکی شادی کے لیےکوئی لڑکاتلاش کر یں جو اسکے والد کو پیسے ادا کرسکے تاکہ اسکی شادی ہوسکے۔ اس غلط رسم کی وجہ سے سعودی عرب جیسے ملک میں معاشرتی برائیاں پیدا ہوئیں ہیں اورحالت یہ ہے کہ بچیاں عمر کی اس منزل کو طے کرجاتی ہیں جب انکی شادی ہوجانی چاہیے وجہ لڑکی کے والدین کی زیادہ مانگ ہوتی ہے، یعنی خربوزہ چھری پر یا چھری خربوزئے پر کٹتا خربوزہ ہی ہے۔ آپ دونوں رسموں کو دیکھ لیں ہر صورت میں نقصان بچیوں کو ہی ہوتا ہے۔ نتیجہ دونوں جگہ شادی ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔

برصغیر پاک وہند میں لڑکی کے باپ بھائی لڑکی کی شادی کے وقت اسکو جہیز کے نام پر بہت کچھ دیتے ہیں۔ مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔ ہندو معاشرے میں عورت کو نہ صرف باپ کی جائیداد سے محروم رکھا گیا بلکہ شادی کے بعد اگر اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اسے بھی بعض اوقات اس کے ساتھ ستی ہونا پڑتا یعنی آگ میں جلناپڑتا۔عورت چونکہ باپ کی وارث نہیں بن سکتی تھی اس لیے والدین بوقتِ شادی حسبِ استطاعت اپنی بیٹی کو ''دان''کے نام پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتے۔اور جن لڑکیوں کے والدین ''دان'' کی سکت نہ رکھتے ان کی بیٹیوں کو معاشرہ بیوی کی حیثیت سے قبول کرنے سے عاری تھا۔ برصغیر میں اسلام کا سورج طلوع ہوا تو یہی ''دان '' ''جہیز'' کے نام میں تبدیل ہوگیا۔چونکہ اب یہ کام کرنے والے صرف ہندو نہیں بلکہ مسلمان بھی تھے۔وہاں سے چلتی ہوئی یہ رسم آج شادی کا لازمی جز بن چکی ہے ۔اور اس سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ''جہیز''کے جواز کے لیےحضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ کی شادی کے موقع پر دیے جانے والے سامان کو جہیز سے تعبیر کرتے ہوئے اسے اسلامی رسم باور کراتے ہیں۔حالانکہ یہ دعوی بالکل بے بنیاد ہے۔واقعہ یوں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تواپنا گھر بار سب کچھ مکہ چھوڑ آئے۔ مدینہ میں آپ مالی لحاظ سے مکہ کی نسبت اتنے مستحکم نہ تھے۔جب آپ کا رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے طے ہوا تو اس وقت آپ کے پاس صرف ایک تلوار ،ایک گھوڑا اور ایک زرہ تھی۔حضور علیہ السلام نے حضرت علی کو زرہ بیچ دینے کا حکم دیا جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خریدا۔ان پیسوں سے آپ نے چند گھریلوں استعمال کی بنیادی چیزیں خرید یں۔ مگر اس واقع سے کہیں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام میں جہیز کے نام پر لوٹ مار جائز ہے۔

اگر آپ والدین ہیں تو اللہ تعالی نے آپکو بیٹے اور بیٹیوں سے نوازہ ہوگا۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ اپنے بیٹوں کی شادی کے وقت جہیز کی تمنا کررہے ہیں تو بدلے میں جب آپکی بیٹی کی شادی کےوقت جہیز مانگا جائے گا اور وہ بھی اتنا کہ آپکے لیے مشکل ہو تو آپکو کیسا لگے گا، آپکی بہو جو جہیز آپکے مانگنے پر اپنے ساتھ لائی ہے وہ تو آپکو ملنے سے رہا، پھر آپ کیا کرینگےلازمی پریشان ہونگے اور اُس وقت آپ اس رسم کو کوس رہے ہونگے۔جس بچی کی شادی ہونے والی ہے وہ آپکی پریشانیاں دیکھ کر شرمندہ اور پریشان ہورہی ہوگی۔ چلیے مان لیتے ہیں بیٹی جیسی نعمت آپکے گھر میں ہے ہی نہیں، آپ صرف بیٹوں کے والدین ہیں لہذا اُن کی شادیوں کے وقت آپ جہیز کی مانگ یا خواہش کرتے ہیں، دوسری طرف بیٹی کے باپ بھائی جہیز کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، لازمی وہ بچی جس کی شادی ہونے والی ہے وہ اپنے باپ بھائی کی وجہ سے پریشان ہوتی ہے تو پھر کیا ہوگا، وہ جہیز کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھ آپ کے لیے نفرت بھی لائے گی اور شادی کے چند دن بعد ہی یہ نفرت آپ پر ظاہر ہوجائے گی۔ آپکے بیٹے کی زندگی اجیرن ہوجائے گی، اس کے بعد صرف دو انجام ہوتے ہیں یا تو وہ بچی اپنے گھر جاکر بیٹھ جائے گی اور مقدمہ بازی ہوگی، آپکے بیٹے کا گھر برباد ہوجائے گا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو دوسری صورت میں آپکا بیٹا اپنے لیے علیدہ گھر لے گا اور جاتے وقت آپکی بہواپنے جہیز کی ایک ایک چیز ساتھ لے جائے گی اور اس جہیز کے ساتھ جو آپنے مانگا تھا یا آپکو ملا تھا سود کے طور پر آپکا بیٹا ساتھ لے جائے گی۔ گویا آپنے جہیز کی لالچ کی اور اپنا بیٹا اپنے آپ سے دور کرلیا۔ بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوگی آپکی بہو جہیز کے ساتھ جو نفرت لائی تھی اسکو اگلی نسل میں منتقل کرئے گی اور کل آپکے بچوں کے بچے آپ سے نفرت کرینگے۔ ہوسکتا ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ سب کچھ سب کے ساتھ نہیں ہوتا، ٹھیک ہے چلیے مان لیتے ہیں ایسا صرف 5 فی صد کے ساتھ ہوتا ہے، تو کل یہ تو ہوسکتا ہے کہ ان 5 فی صد میں آپ بھی شامل ہوں۔ اگر آپ کے محلے یا عزیزوں میں کوئی ایسا گھر آپکو معلوم ہو جہاں جہیز جیسی بیماری کے بغیر شادی ہوئی ہوتو ضرور ایک مرتبہ اس گھر میں جایں اور اگر اس گھر میں جہیز کی بیماری کا کوئی شکار نہ ہو تو شاید آپکو اُس گھر سے زیادہ خوشحال گھر کہیں نہ ملے۔

اس وقت پاکستان اُن خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق نوجوانوں سے ہے، آپ نوجوان جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں اگرآپ چاہیں تو معاشرے کے اس کینسر کو جسکو جہیز کہا جاتا ہے جڑ سے ختم کرسکتے ہیں۔ ایک لڑکے ہونے کے ناطے آپ اپنے گھر والوں کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ اپنی شادی پر کوئی جہیز نہیں لینا چاہتے، اگر گھر والے آپ کے خیالات سے متفق نہ ہوئے تو شور مچاینگے مگر کچھ کر نہیں سکیں گے، اگر آپ اس سسٹم سے بغاوت کرینگے تب ہی اس جہیز جیسے کینسر سے نجات پاینگے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ ایک بیٹا تو یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی شادی پر جہیز نہیں لےگا مگر ایک بیٹی تو نہیں کہہ سکتی کہ وہ اُس سے شادی کرئے گی جو جہیز نہیں لےگا، لازمی بات ہے کہ جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں وہاں کسی بھی بیٹی کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔ ایک بیٹی اپنے بارئے میں تو نہیں کہہ سکتی مگر جس گھرمیں وہ ہے وہاں اسکے بہت ہی محبت کرنے والے بھائی، ماموں اور چچا بھی ہوتے ہیں۔ یہ اُسکے وہ رشتے ہیں جو اُس سے بہت محبت کرتے ہیں، اُسکی بات غور سے سنتے ہیں، وہ اپنے بھائی ، ماموں اور چچا کے لیےتو کہہ سکتی ہے وہ بغیر جہیز کے شادی کریں، ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اس بات پر کامیابی ملے مگر اگر صرف 5 فیصد بھی کامیابی ملتی ہے تو یہ ابتدا ہوگی۔ ذرا اس تمام معاملے میں اس بے چاری بچی کے بارے میں سوچیں جو آئے دن آنے والے مہمانوں کی چبتی ہوئی نظروں کا عتاب وہ کس طرح سہتی ہے اور جہیز کے نام پر بکنے والی لڑکی لڑکے کے گھر جا کر بھی خوشحال رہے گی اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے ، یقینا ایسے لالچی لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا پہلے جہیز کے نام پر لڑکی کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے پھر بعد میں اس کو گھر سے نکال دینے کے ڈر سے۔ بہت سی لڑکیوں کو ان کے سسرال والے اسی بنا پر زندہ تک جلا دیتے ہیں کہ ان کی جہیز کی مانگ لڑکی کے گھر والے پوری نہیں کر پاتے۔ ظالم یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی بیٹی کے والدین اور بھائی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں تبدیلی آ سکتی ہے اگر نوجوان نسل اور اُنکے والدین چاہیں تو سب ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کوئی مدد نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی اسکو جہیز کی لعنت ختم کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ یہ آپ ہی ختم کرسکتے ہیں۔تو آیئے! عہد کریں جہاں تک ممکن ہو سکے ہم جہیز جو ہمارئے معاشرئے میں ایک سماجی کینسرہے اس رسم کو ختم کرنے میں اپنا کردار اداکریں گے اور لوگوں میں اس کی حقیقت کا شعور بید ار کریں۔تاکہ ہم بھی اس معاشرے کا حصہ بن جائیں جس میں جہیز کی لعنت کا سرئے سے کوئی وجود نہ ہو۔

آخر میں آپسے گذارش ہے کہ اگر آپ نے اس مضمون کو شروع سے آخر تک پڑھا ہے توصرف چند منٹ بیٹھ کر سوچیئے گا، اگر میری بات آپکی سمجھ میں آئے تو اپنے خیالات کو ضرور شیر کریں اور اگر نہیں تو پھر دیوانے کی بڑ سمجھ کر بھول جایئے گا۔
------------------------
نوٹ: یہ مضمون میں "مداوا این جی او " اینٹی جہیز موومنٹ کے صدر محترم طاہر اقبال طائر کے نام کرتا ہوں۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485518 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More