خواتین کے حقوق اور مغرب کا دہرا معیار
قارئین کو یاد ہوگا کہ آج سے چند سال پہلے پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل
جتوئی میں میر والا کے نام سے ایک گاؤں ہے وہاں سے کچھ افراد کو مقامی
پولیس نے گرفتار کیا ۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک خاتون کے ساتھ
اجتماعی گینگ ریپ کیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ مذکورہ گاؤں میں
جس خاتون کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ ہو اتھا ۔ اس کے بھائی کو بستی کی ایک
لڑکی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کسی نے دیکھ لیا تھا۔ لڑکے کی اس وقت جو عمر
بتائی گئی تھی وہ غالباً گیارہ سال تھی۔ اس لڑکے پر الزام لگا دیا گیاکہ اس
کے لڑکی کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ بستی والوں کی غیرت جاگ اٹھی اور انہوں
نے اس لڑکے اور اس کے والدین کے خلاف پنچائت بلالی۔ پنچائت نے انسانیت سوز
فیصلہ دے کر شرفاء کے سر شرم سے جھکا دیئے ۔ اس کے بعد اس خاتون کے ساتھ جو
سلوک ہوا۔ اس سے قلم بھی کانپ اٹھتا ہے اور الفاظ بھی تھرتھرانے لگتے ہیں۔
کئی دن تک مقامی پولیس نے ملزمان کے خلاف کاروائی نہ کی ۔ ان کے خلاف ایف
آئی آر بھی نہ کاٹی۔ ایک اخبار کے نمائندے نے یہ خبر اپنے اخبار میں شائع
کرائی تو دنیا بھر میں تھرتھلی مچ گئی۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے اخبارات
اور نیوز چینلز پر یہ خبر نشر کی گئی۔ پھر کیا تھا عالمی میڈیا کی خبروں کا
سب سے بڑا موضوع مظفرگڑھ میں خاتون کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ تھا۔ عالمی
میڈیا کے ہاتھ میں ایک ایسا موضوع آگیا تھا جس سے وہ ہر صورت اپنا فائدہ
اٹھا نا چاہتے تھے۔ اسی ایک واقعہ کی آڑ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی
صورتحال پر بھی بحث ہونے لگی۔ عالمی میڈیا میں کئی دن تک انسانی حقوق کی
پامالی کی خبر زیر بحث رہے اور عالمی این جی اوز خاموش رہیں یہ کبھی نہیں
ہوسکتا۔ جب یہ واقعہ رپورٹ ہوا تھا اس وقت بھی ہم نے لکھا تھا کہ ان این جی
اوز نے یہ جو آسمان سر پر اٹھا یا ہوا ہے ان کومسلمانوں کے انسانی حقوق سے
کوئی غرض نہیں۔ یہ ان کے اپنے انسانی حقوق ہیں اور یہ ان ہی انسانی حقوق کی
حفاظت کرانا چاہتے ہیں۔ اب وقت نے ہماری یہ بات ثابت کردی ہے۔ مظفرگڑھ میں
مختاراں مائی نامی خاتون کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کی خبر شائع ہوئی اور
عالمی میڈیا پر نشر ہوئی تو عالمی این جی اوز کو بھی پاکستان میں انسانی
حقوق اور خواتین کے حقوق یاد آگئے۔ پھر تو ہر بات کی پاکستان سے شروع ہو کر
پاکستان پر ہی ختم ہوجاتی تھی۔ کہا جاتا رہا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی
صورتحال درست نہیں ہے۔ اعدادوشمار پیش کیے جانے لگے کہ اس ملک میں اتنی
زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ خواتین محفوظ نہیں ہے۔ ان پر
یہ ظلم کیا جاتا ہے ان پر وہ ظلم کیا جاتا ہے۔ مختاراں مائی سال کے قلیل
عرصہ میں مغربی این جی اوز کی ہیرو بن گئی۔ ان این جی اوز کو نہ تو اس بات
سے کوئی غرض تھی کہ پاکستان میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق ادا کیے
جاتے ہیں یا نہیں ۔ نہ ہی ان کو اس بات سے غرض تھی کہ مظفرگڑھ کی ایک خاتون
کے ساتھ پنچائت کے حکم پر گینگ ریپ ہوا تھا ۔ چاہے اس واقعہ بنے دنیابھر
میں شہرت پائی تاہم ہما را دل ابھی تک نہیں مان رہا کہ پنچائت ایسا فیصلہ
دے سکتی ہے۔ کوئی چاہے کتنا ہی گھٹیا اور گرا ہو انسان کیوں نہ ہو وہ نہ تو
ایسے فیصلے دے سکتا ہے اور نہ وہ اس طرح کے فیصلوں کی حمایت کر سکتا ہے۔
عالمی میڈیا اور عالمی این جی اوز نے اس واقعہ کو اس لیے اہمیت دی تھی کہ
ان کو پاکستان کے خلاف اپنا خبث باطن نکالنے کا موقع مل گیا تھا۔ انہوں نے
اس واقعہ کو اس لیے زیادہ کوریج دی کہ اس کی آڑ میں وہ مملکت پاکستان کو
بدنام کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد مختاراں مائی کے تو وارے نیارے ہو گئے۔ اس
کے بعد پاکستان میں عورت مظلوم کہلائی جانے لگی۔ خواتین کے حقوق کیلئے
تنظیمیں بنائی جانے لگیں۔ اس واقعہ کی آڑ میں پاکستان اور اسلام کے خلاف
کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ مختاراں مائی مغربی این جی اوز اور مغربی قوتوں کی
ہیرو ئن بن گئی۔ کبھی وہ امریکہ جارہی ہے تو کبھی اس کا دورہ برطانیہ ہو
رہا ہے۔ کبھی اس کی کسی امریکی عہدیدار سے ملاقات ہو رہی ہے تو کبھی کسی
اور ملک کے وزیر سے ملاقات کر رہی ہے۔ اس واقعہ نے تو اس کی جیسے لاٹری
کھول دی تھی۔ اس نے خواتین کو ان کے حقوق دلانے کا بیڑا بھی اٹھا لیا۔ اس
کو فنڈز اور امداد دی جانے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ امیر سے امیرتر
ہوتی چلی گئی۔ وہ کئی ایکڑ زمین کی مالک بن گئی۔ اس نے گاڑی بھی خرید لی ۔
اس نے ایک سکول بھی کھول لیا۔ ایک طرف اس پر مغٖربی این جی اوز اور عالمی
قوتوں کی نوازشات کی جارہی تھیں دوسری طرف عدالت میں یہ کیس بھی زیر سماعت
رہا ۔ آخر کار عدالت عظمیٰ نے اس کیس میں گرفتار تمام افراد کو باعزت بری
کر دیا۔ جس وقت یہ واقعہ رپورٹ ہوا اس وقت کشمیر میں بھی مسلمان خواتین بھی
بھارتی درندوں کی حوس کا نشانہ بن رہی تھیں۔ اسرآئیل بھی فلسطینی مسلمان
خواتین پر ظلم کی انتہا کر رہا تھا۔ ان این جی اوز کو نہ تو کشمیری مظلوم
مسلمان خواتین دکھائی دے رہی تھیں اور نہ فلسطینی خواتین۔ اب ایک اور خاتون
کی بات ہوجائے ۔ امریکہ کی بدنام زمانہ جیل گوانتاموبے میں ایک خاتون قیدی
دریافت ہوئی۔ اس کو پاکستان کے شہر کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر
الزام تھا کہ اس نے امریکی فوج کے خلاف بندوق اٹھائی ہے۔ اس کے ساتھ اس جیل
میں جو سلوک کیا جارہا ہے۔ وہ نہ تو عالمی میڈیا کو نظر آتا ہے اور نہ ہی
مغربی این جی اوز کو دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بچوں کو بھی اس سے جدا کر لیا
گیا۔ اس کے خلاف امریکہ کی عدالت میں کیس زیر سماعت رہا۔ استغاثہ اس کے
خلاف کوئی الزام بھی ثابت نہ کر سکا۔ امریکہ کی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کے خلاف اس کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ اس کو چھیاسی سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اگر یہی سزا پاکستان کی کسی عدالت نے سنائی ہوتی تو عالمی میڈیا نے آسمان
سر پر اٹھالینا تھا اب چونکہ یہ سزا امریکہ کی عدالت نے سنائی اس لیے اس پر
کسی عالمی میڈیا اور کسی این جی اوز کو اعتراض نہیں ۔ وہ اس لیے کہ اس سے
پاکستان کو بدنام نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے ان کے ان عزائم کا پرچار کرنے میں
کوئی مدد نہیں ملتی جو وہ پاکستان کے خلاف رکھتے ہیں۔ مختاراں مائی مظلوم
عورت تھی جبکہ عافیہ صدیقی کی مظلومیت کسی عالمی میڈیا اور کسی عالمی این
جی اوز کو دکھائی نہیں دے رہی۔ اس سے اسلام کے خلاف بھی کوئی بات نہیں کی
جاسکتی۔ ایبٹ آباد آپریشن کے مرکزی کردار ڈاکٹر شکیل کے بدلے میں عافیہ
صدیقی کو رہا کرانے کا مطالبہ سامنے آیا تو اس کی والدہ نے ایسا کرنے سے
انکار کردیا۔ مختاراں مائی کے خلاف جو ظلم رپورٹ ہوا تھا اس کو پڑھ کر بھی
شرفاء کے سر شرم سے جھک گئے تھے۔ اور جو ظلم امریکہ کی جیل میں عافیہ صدیقی
کے خلاف ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی جان کر شرفاء کے سرشرم سے جھک جاتے
ہیں۔ ظلم تو دونوں پر ہوا ہے ایک عالمی میڈیا اور عالمی این جی اوز کی ہیرو
ہے اور ایک امریکی مجرم ہے۔ مختاراں مائی کی آڑ میں تو سب کو پاکستان میں
انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی سب کو دکھائی دے رہی تھی۔ مگر
عافیہ صدیقی پر جو ظلم ہوا وہ انسانی حقوق کے زمرے میں گویا نہیں آتا۔ اس
کی رہائی کیلئے پاکستان کے حکمرانوں نے سنجیدہ کو شش نہیں کی۔ کسی حکمران
نے امریکہ سے اس کی رہائی کا رسمی مطالبہ بھی نہیں کیا۔ نہ ہی کسی این جی
اوز نے اس کی رہائی کی مہم چلائی ہے۔ ابھی چند دن پہلے بھی عافیہ صدیقی پر
ہونے والے ظلم کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق وہ بیہوش ہو گئیں۔ اب تک
دو خواتین کا احوال آپ نے پڑھ لیا ہے ۔ اب تیسری خاتون کی بات کرنے جا رہے
ہیں۔ مختاراں مائی کے واقعہ کے بعد ایک عرصہ ہو گیا تھا کہ عالمی این اجی
اوز اور عالمی میڈیا کے ہاتھ میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں آرہا تھا۔ اب
ان کے ہاتھ میں ایسا ایشو آگیا جس ایشو کی ان کو تلاش تھی۔ آپ کہیں گے کہ
وہ کیسے ۔ وہ اس طرح کہ جس طرح اس واقعہ کو کیش کرایا گیا۔ اس سے تو یہی
ثابت ہوتا ہے کہ عالمی میڈیا اور این جی اوز کو اس واقعہ کا شدت سے انتظار
تھا۔ ہوا یوں کہ سوات میں لڑکیوں کی وین پر اس وقت حملہ ہوا جب وہ سکول سے
گھر واپس جارہی تھیں۔ اس حملہ میں تین لڑکیاں زخمی ہوئیں۔ ان زخمی لڑکیوں
میں نہم کلاس کی ایک لڑکی ملالہ یوسف زئی کے نام سے بھی تھی۔ دیگر لڑکیوں
کی خبر تو برائے نام شائع ہوئی۔ ملالہ یوسف زئی کو مختاراں مائی کی طرح غیر
معمولی اہمیت دی گئی۔ اس واقعہ کے بعد ملالہ یوسف زئی کی خدمات کو خراج
تحسین پیش کیا جانے لگا۔ مختاراں مائی کے واقعہ کے بعد عالمی میڈیا اور این
جی اوز کو پاکستان میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق یا د آگئے تھے۔
ملالہ پر حملہ کے بعد ان کو قبائلی علاقوں میں بچیوں کے حقوق یاد آگئے۔ ان
کو اس وقت بچیوں کے حقوق یاد نہیں رہتے جس وقت ڈرون گرا کر ایک ہنستا بستا
گھر ملیا میٹ کر دیا جاتا ہے۔ ان کو بچوں کے حقوق اس وقت بھی یاد نہیں آئے
تھے جب باجوڑ میں ایک مدرسہ پر ڈرون گرا کر 80کے قریب طلباء کو شہید کر دیا
تھا۔ اس پر حملہ کے بعد کہا گیا کہ قبائلی علاقوں میں بچیوں کو تعلیم سے
محروم کیا جا رہا ہے۔ ملالہ یوسف زئی قبائلی علاقوں میں تعلیم کے فروغ
کیلئے کام کررہی تھی۔ شدت پسند نہیں چاہتے کہ یہاں تعلیم عام ہو۔ اس کو
پہلے اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ پھر اس کو ملک سے باہر
لے جا یا گیا وہاں اس کا علاج ہوتا رہا۔ وہاں اس کی عیادت کیلئے امریکہ
برطانیہ سمیت کئی ممالک کے سربراہوں ، وزراء اور دیگر حکومتی اور سیاسی و
غیر سیاسی شخصیات آتی رہیں۔ اس ملالہ کی ایک ایک حرکت کی رپورٹ میڈیا کی
بریکنگ نیوز بنتی رہی۔ اس نے کروٹ لی تو میڈیا نے بریکنگ نیوز چلادی کہ
ملالہ نے آج کروٹ لی ہے۔ اس کا علاج ہوتا رہا۔ امن کے عالمی ایوارڈ ز کیلئے
نامزدگیاں ہوئیں تو ان میں ملالہ یوسف زئی کا نام بھی شامل تھا۔ اس کے نام
سے فنڈز بھی قائم کیا گیا۔ ملالہ فنڈز قائم کرتے وقت کہا گیا کہ یہ پاکستان
کے قبائلی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ اور
دو بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔ ان کی خبر کسی نے نہ لی۔ سوشل میڈیا پر ہم نے وہ
تصاویربھی دیکھیں جن میں ملالہ یوسف زئی اپنے والد کے ساتھ امریکیوں سے
ملاقات کر رہی ہیں۔ اس کو امن کا نوبل انعام بھی دے دیا گیا۔ مختاراں مائی
ہو یا ملالہ یوسف زئی یہ دونوں ظلم کا شکارتو ضرور ہوئی ہیں۔ لیکن ان میں
سے کسی نے بھی کسی اور کی جان نہیں بچائی۔ جس پر حملہ کیا جائے یا جس کے
ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کیا جائے وہ این جی اوز کی نوازشات کی مستحق بن جاتی
ہے اور جس پرحملہ ہو اور اس حملہ میں اس کے سرپر کوئی چوٹ آجائے اور وہ
نوبل انعام کی حق دار بن جاتی ہے تو ایسے حقدار تو پاکستان میں ہزاروں کی
تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ کتنے ایسے مظلوم ہیں جن کی عصمت دری کی جارہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کتنے ایسے افراد ہیں جن کے سروں میں اس وقت چوٹیں آتی ہیں
جس وقت ان پر یا ان کے قافلے ان کی سواری پر حملہ کیا جاتا ہے۔ ان میں سے
کسی کو نہ تو امریکہ کا دورہ کرایا گیا اور نہ ہی کسی کو امن کا نوبل انعام
دیا گیا۔ اب آپ کوایک ایسی خاتون کے بارے میں یاد دلاتے ہیں جس نے اپنی جان
کوخطرہ میں ڈال کر دوسروں کی جان بچائی ہے۔ یہاں ہم یہ واضح کرتے چلیں
ہماری نہ تو مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی سے کوئی ذاتی، سیاسی ، لسانی
یا کوئی اور دشمنی ہے۔ نہ ہی عافیہ صدیقی اور سمیعہ نورین سے کوئی رشتہ
داری یا تعلق ہے ہم صرف عالمی میڈیا اور عالمی این جی اوز کے طرز عمل اور
وہ پاکستان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں پر بات کر رہے ہیں۔ جی ہاں ہم
سمیعہ نورین کی بات کررہے ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ گجرات میں
ایک سکول وین کا گیس سلنڈر پھٹ گیا۔ اس میں بیس بچے جھلس گئے۔ کسی نے کہا
کہ اس وین میں آگ سلنڈر پھٹنے سے نہیں وین میں پڑی ہوئی پٹرول کین کو آگ
لگنے سے لگی۔ آگ سلنڈر پھٹنے سے لگی یا پٹرول کین کو آگ لگنے سے لگی اس پر
ہم آرٹیکل لکھ چکے ہیں۔ یہاں ہم اس بہادر خاتون کی بات کررہے ہیں جس نے
اپنی جان کو خطرے میں رکھ کر بچوں کی جان بچائی۔ جب آگ جل رہی ہو یا کوئی
چیز آگ میں جل رہی ہو تو اس کی تپش کی وجہ سے اکثر لوگ اس کے نزدیک نہیں
جاتے۔ اس کو بجھانے کی کوشش تو کی جاتی ہے تاہم اس کے اندر کوئی نہیں جاتا۔
گجرات میں سکول وین کوآگ لگی تو اس خاتون نے بھاگ کر اپنی جان نہیں بچائی
بلکہ اس نے بھڑکتی آگ میں کھڑے ہو کر بچوں کووین سے باہر پھینکا ۔ تاکہ وہ
مزید متاثر ہونے سے بچ جائیں۔ اس کے کپڑوں کو آگ لگ چکی تھی۔ اس نے اپنی
جان کی پرواہ نہیں کی۔ اس نے قوم کے نونہالوں کو بچاتے بچاتے اپنی جان دے
دی۔ مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی دونوں زندہ سلامت ہیں۔ جبکہ سمیعہ
نورین نے اپنی جان بھی قوم کے بچوں کو بچاتے ہوئے قربان کردی ہے۔ اس بہادر
خاتون کے حق میں نہ تو کسی میڈیا نے کوئی پروگرام نشر کیا ہے اور نہ ہی کسی
این جی اوز کو اس کا خیال آیا ہے۔ اس کے خاندان کے ساتھ کسی امریکی ، کسی
برطانوی حکمران یا سیاستدان نے اظہار تعزیت نہیں کیا۔ کسی عالمی میڈیا میں
اور کسی این جی اوز کے پلیٹ فارم سے اس کے اس جرات مندانہ کام کی تعریف
نہیں کی گئی۔ نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی نے گورنر کو سفارش کی تھی کہ
سمیعہ نورین کو سول ایوارڈ کیلئے نامزد کیا جائے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ
مختاراں مائی اور ملالہ یوسف زئی کی طرح سمیعہ نورین بھی مغرب کی آنکھوں کا
تارہ بن جاتی۔ بلکہ ان دونوں سے زیادہ۔ اب کیونکہ اس کی آڑ میں وہ پاکستان
اور اسلام کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتے اس لیے اس سلسلہ میں انہوں نے
خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہم وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان سے
مطالبہ کرتے ہیں۔ اس بہادر خاتون کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا
جائے۔ گجرات کے گرلز سکول اور گرلز کالج میں اس کے نام سے کمرے تعمیر کیے
جائیں۔ بلکہ گجرات کے کسی ایک ہائی گرلز سکول یا گرلز کالج کواس کے نام سے
موسوم کردیا جائے۔ اب ان چاروں خواتین میں سے امن کے نوبل انعام کی اصل میں
حق دار کون ہے اس بات کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑ کراس آرٹیکل کا اختتام کر
رہے ہیں۔ |