دربار ِ دل

کہتے ھیں اللہ دل میں بستا ھے ۔ ھم کبھی اپنے دل میں نہیں جھانکتے جس دل میں اللہ بستا ھے وہ دل کیسا ھے-

کل میں اپنے دل کے دربار میں گئی سارا وقت وہیں گزارہ سارا وقت وہاں گھومتی رھی اپنے دل کے گلی کوچوں میں جھانک کر بہت افسوس ھوا-

اللہ کے ساتھ ھزار بت ایستادہ تھے چھوٹے بڑے دیو قامت بت بہت سے بت دیکھنے میں بہت خوبصورت لگ رھے تھے میں سوچنے لگی - کیا اللہ کے ساتھ یہ بت رہ سکتے ھیں ؟؟ جہاں اللہ ھو وہاں بتوں کا کیا کام -

دن میں پانچ نمازیں -- ایک گھنٹہ اللہ کے ساتھ باقی تیئس گھنٹے ان بتوں کے ساتھ - میں نے سوچا ان سب بتوں کو توڑ دوں مگر کیسے ۔۔ دن کے باقی تئیس گھنٹے ان بتوں کے ساتھ بسر ھوتے ھیں ۔ ان بتوں کو توڑ دیا تو دن کیسے گزرے گا مجھے ان بتوں سے نفرت ھے مگر ان سب کی عادت ھو چکی ھے ان سب کو کیسے توڑ دوں -

کبھی اپنے دل کی نگری سے گزر ھوا ھے آپ کا ۔۔۔
کہیں حسد کی آگ جل رھی ھے
کہیں نفرتوں کی دیواریں ھیں
کہیں خود غرضی
تو کہیں خود پرستی ھے
کہیں اپنی ذات برادری کا غرور
کہیں اپنے عہدے اور مال و دولت کا مان
اپنی تعلیم اپنی خوبصورتی کا احساس
چھوٹے بڑے ھزار بت تکبر کے
ان سب کے درمیان کہیں لکھا ھوا اللہ کا نام
دل کے دربار کا شہنشاہ کون ھے
دل کے مندر میں پوجا کس کو جاتا ھے
دل کی نگری میں حکمرانی کس کی ھے

کل میں اپنے دل کی نگری میں گھومتے ھوئے روتی رھی آنسو بہاتی رھی -

مگر یہ بت کچی مٹی کے تو بنے ھوئے نہیں تھے جو چند انسوؤں سے بہہ جاتے ۔ وہ تو ویسے ھی تھے میرے دل کی نگری ان سے آباد تھی ۔ ان کو کیسے اٹھا کر باھر پھینک دوں - آگ لگا دوں - اپنے دل کی نگری کیسے خود برباد کر دوں -

کیا آپ نے کبھی اپنے دل میں بسے بتوں کو توڑا ھے ؟؟
یا آپ کے دل میں کوئ بت نہیں ھے ؟؟
ایک عام انسان کا دل مندر کی طرح ھوتا ھے بتوں سے بھرا ھوا ۔
ھر مسلمان کا دل مسجد نہیں ھوتا -

مسجد میں تو سب برابر ھوتے ھیں وہاں دولت کی نمائش نہیں ھوتی
ذات برادری کو نہیں دیکھا جاتا
وہاں تو اللہ کے حضور نگاھیں جھکی ھوتی ھے صورت کو نہیں پرکھا جاتا
وہاں نفرتوں کی باتیں نہیں ھوتی

میں نے اپنے دل کے دربار میں جانے کے بعد جانا ۔ میرا دل ایک مندر ھے - وہ مسجد کب تھا - یا میں نے اسے سنوارنے کی کوشش بھی کب کی تھی -
sadia saher
About the Author: sadia saher Read More Articles by sadia saher : 41 Articles with 35702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.