محکمہ انفارمیشن پنجاب نے بتایا کہ میاں
شہباز شریف کی معاونت سے فنکاروں کیلئے پہلے 1کروڑ روپے کا بجٹ پاس کروایا
گیا اور پھر ڈھائی کروڑ روپے فن کے تاجرروں میں تقسیم کیے گئے اور اب اِس
میں مزید اضافے کا امکان ہے۔معلوماتِ عامہ کے مطابق کسمپرسی کی زندگی
گزارنے والے100سے زائد فنکاروں کو 50ہزار ماہوار وظیفہ باقائدگی سے مِل رہا
ہے ۔قبل اِس کے کہ راقم الحروف کا مقصد طوالت تحریر کی نظر ہو جائے بہتر
ہوگا موضوع کی جانب رقصِ قلم کروں ۔1993ءمیں پی ٹی وی سے شروع ہونے والے ہر
دلعزیز بچوں کے ڈرامہ سیریل ”عینک والا جِن“جِسے نہ صرف 42سے زائد ممالک
میں دیکھا اور پسند کیا گیا بلکہ کئی زبانوں میں اِس ڈرامے کے تراجم بھی
ہوئے۔ڈرامے کی ” الف “سے لیکر ”ے“تک ویسے تو پوری ٹیم ہی قابلِ تعریف ہے
لیکن حسیب پاشا عرف( ہامون جادو گر)نے محنت و لگن سے یہ واضع کر دکھایاکہ
اگر گلابوں کی حفاظت اور قدر کی جائے تو اُن کی خوشبو سدا مہکتی رہتی
ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تقریباً20سال گزر جانے کے بعد بھی ہامون جادوگر نے
ساڑھے چارسال قبل دوبارہ الحمراءکے سابق سیکرٹری انفرمیشن طاہر رضا ہمدانی
کے تعاون سے ڈرامہ ”عینک والا جِن “ کی ٹیم کو لیکرالحمراءہال نمبر 3لاہور
میں ”جِن اور جادو گر“ کے نام سے جو دیا جلایا تھا وہ الحمراءکے ایگزیکٹو
ڈائریکٹر محمدعلی بلوچ اور جناب عطاالحق قاسمی کی معاونت اور حوصلہ افزائی
سے تاحال روشن ہے یا یوں کہیں تھا۔
|
|
”جِن اور جادوگر “ سے قبل الحمراءہال نمبر 3میں ڈرامہ ”ستاروں سے آگے “پیش
کیا جاتا تھا جسے ہال کے درودیوار اور کرسیاں دِل کھول کر داد دیتے رہے ہیں
لیکن گزشتہ ساڑھے چار سالوں سے ہر اتوار کو صبح سے ہی الحمراءمیں گہما گہمی
شروع ہو جاتی ہے فیملیز بالخصوص بچوں کی بڑی تعداد اپنے حقیقی ہیروز کو
دیکھنے کیلے جوق در جوق جمع ہوتے ہیںاور الحمراءہر اتوار کو ایک تفریح گاہ
محسوس ہوتا ہے۔”جِن اور جادوگر“ نے ایک بار پھر فیملیز کو گھروں سے نکل کر
تھیٹر کی جانب رُخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔اِس کی بڑی وجہ صرف چھٹی کا
دِن اتوار یا بالکل فری فیملی پاس ہی نہیں بلکہ ڈرامے کے مصنف ”ہامون جادو
گر“ کی تحریر میں موجود نت نئے کرتب ،جادو.... جیسا کہ ایکٹرز کی تصاویر کو
قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر میں بدل کر بچوں کو ایک عظیم پیغام
دینا ،چھوٹی چھوٹی نصیحتیں،آدابِ زندگی،آدابِ اساتذہ ، آدابِ والدین،حقوق
العباد،مساوات،بھائی چارگی،پیار و الفت،بڑوں کا احترام ، چھوٹوں پر
شفقت،ارکانِ اسلام کے متعلق آگاہی،حب الوطنی،اچھے اور بُرے کی تمیز،جھوٹ سے
نفرت ،حق اور سچ کی علمبرداری یہ سب کچھ والدین کو اپنی جانب مقناطیسی قوت
سے ہر اتوار کو کھنچتے ہوئے الحمراءکی جانب لے آتے ہیں۔ڈرامے کے ہدایت کار
منا لاہوری عرف زکوٹا جِن کی دِل دہلا دینے والی چیخ سے لیکر ہامون جادو گر
کے تکیہ کلام ”میرا نام ہامون جادو گر ہے کوئی پتلون جادو گر نہیں“تک ایک
ایک فقرہ اور حقیقت میں ڈوب کر نبھانے والے مستقل کردار بشریٰ ناز، سعید
بلال،جمال پاشا، کاظم امام فیصل لاہوری ،صنم بٹ ،کومل ،پھول، مقدس حسان بن
مطلوب کی اداکاری اور سنجیدہ ہنسی مزاخ دیکھنے والوں کوپورے دو گھنٹے پتھر
کا بنائے رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ڈرامے کو بیشمار selebritisکی فیملیوں
نے کئی بار دیکھاہے۔پاکستان کی تاریخ کا یہ واحد Playہے جو گزشتہ 20سالوں
سے مختلف اشکال میں دیکھا جانے کے ساتھ ساتھ دِن بہ دِن اپنے ناظرین اور
چاہنے والوں میں بھی اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے ۔
”جِن اور جادو گر “ میں چار لاکھ سے زائد طلباءو طالبات کو ہنسی مزاخ اور
باتوں ہی باتوں میں ڈینگی سے بچنے کے اقدامات کے بارے بھی مطلع کیا جا چکا
ہے علاوہ ازیں مختلف بیماریوں اور جراثیم سے بچنے کے بارے بھی خوب فقرہ
بازی ہوتی ہے ۔یہ”جِن اور جادو گر “ کی ٹیم ہی ہے جِس نے خود وہاں جا کر
زلزلہ زدگان معصوم ، سہمے اور مرجھائے ہوئے بچوں کے چہروں پر مسکراہٹیں
لوٹا ئی تھیں۔UNICEFاقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی ہے جو بچوں اور ماﺅں کی صحت
اور تعلیم کو بہتر بنانے میں حکومتوں (خاص طور پر ترقی پزیر ممالک)کی مدد
کرتی ہے ۔”جِن اور جادو گر“ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہUNICEF نے اِس ا
سٹیج پلے کے مختلف مقامات پر ڈھائی ہزار شوز کروائے کیونکہ انہیں ہیرے اور
موتی میں فرق معلوم ہے ۔ انہیں معلوم تھا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اُن کے
معیار پر پورا اُترتے ہوئے بچوں کو تعلیم اور صحت کے متعلق ان گنت مفید
مشوروں کےساتھ ساتھ دیگرمعلومات سے بھی آگاہ کر سکتے ہیں۔پنجاب آرٹس کونسل
کو چاہیے کہ بچوں کے اِس صحت و نصیحت آموز اسٹیج ڈرامے کو نہ صرف لاہور کے
مختلف سکولوں اور تھیٹروں میں نمایا کرے بلکہ پنجاب کے تمام تر اضلاع میں
بھی اِس اصلاحی و مزاحیہ ڈرامے کو نمائش کیلئے پیش کیا جائے اور پاکستان کے
تمام صوبوں میں اِس کے شوز ہوں ۔یہی تجویز جناب عطا الحق قاسمی صاحب کی بھی
الحمراءکی درو دیوار میں سما ءکر رہ گئی ہے ۔”عینک والا جِن “ کی تمام ٹیم
آج تک” پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ“کے نام سے بھی انجان ہے۔
|
|
ویسے ہمیں یا ہمارے بچوں کو ایسے اصلاحی ڈراموں سے کیا لینا دینا اچھا ہی
ہے جو گزشتہ پانچ ہفتوں سے الحمرا ءہال نمبر 3ہر اتوار کو اُداس ہوتا ہے
یوں لگتا ہے جیسے یہاں معصوم قہقہے بلند ہونے اور افسردہ چہرے کھلنے کا
سیزن اختتام پزیر ہو گیا ہے ۔گزشتہ پانچ ہفتوں سے ہال کی تزئین و آرائش کے
کام ہوئے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ہال نمبر 1یا ہال نمبر2کو ڈرامہ ”جِن اور جادو
گر“ کیلئے زحمت دینا شائد ہال نمبر3کے مرتبت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ویسے
یہ ایک اچھا اقدام ہے بچارے معصوم بچے اور فیملیاں چند ہفتے ڈرامہ کی چاہ
میں اپنی جوتیاں گھسیں گے اور پھر تھک ہار کر اور بھول بھال کے بیٹھ جائیں
گے۔جب تماشائی ہی نہ ہوں گے تو پھر تماشاں کیسا ؟اِسی گزشتہ اتوار کو یونہی
الحمراءجانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر معصوم بچوں اور فیملیز پر ترس آیا
کہ بچارے سادہ لوح اِس انتظار میں جمع ہو رہے ہیں کہ دو بجے ڈرامہ”جِن اور
جادو گر“ شروع ہوگا اُن میں سے بہت سی فیملیزاتوار کی چھٹی کا فائدہ
اُٹھاتے ہوئے دور دراز کے علاقوں سے بھی آئی ہوئی تھیں ۔کِسی کو اِس بات کی
پرواہ کیوں ہو کہ کون کتنا سفر طے کر کے آرہا ہے یا کتنا کرایہ یا فیول خرچ
کر چکا ہے اور عام عوام کا وقت تو ویسے بھی قیمتی ہوتا ہی نہیں۔ہمیں صرف
چلنے ،چلانے، بکنے ،بکانے کے اشتہارات پر کروڑوں خرچ کرنے ہوتے ہیں کِسی
پروگرام کی بندش پر نہیں۔ عین سکولوں کی چھٹیوں کے دوران ہی بچوں کے
پسندیدہ ڈرامے کی بھی چھٹیاں کروا دی گئی ہیں۔ویسے سوچا جائے تو اِس میں
کوئی برائی بھی نہیں بجٹ 2013نے ویسے ہی بہت سے راز عیاں کر دیے ہیں۔ اِس
اسٹیج ڈرامے کا بھی بند ہوجانا ہی بہتر ہے کم از کم فنکاروں کی ماہوار
تنخواہوں کی مد میں ڈار صاحب کے قومی خزانے میں کچھ تو اضافہ ہوگا ۔میاں
شہباز شریف صاحب آپ کو اِس وقت قومی خزانے میں اضافے کی ضرورت ہے لحاظہ مجھ
ناچیز کا ایک مشورہ ہے کہ یہ تمام فنکار صرف بچوں کے ہیر و ہی نہیں بلکہ
قومی نگینے بھی ہیں انہیں محفوظ کر لیں اور جہاں آپ نے فنکاروں کے وظائف کا
بندو بست کیا ہے و ہی اِن کی اہمیت کو بر قرار رکھنے کا بھی کوئی وظیفہ بتا
دیں۔آخر میں آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں ”پاکستان میں ایک ایسا بم پروف
تہہ خانہ بن چکا ہے جہاں پرائیڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ اور اعزازات کو اُن
کے اصل حقداروں سے بچا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے“۔ |