پاکستان میں ٹیلی وڑن کا آغاز
1963ءمیں لاہور سے ہوا۔ اس وقت بلیک اینڈ وائٹ ڈرامے براہ راست نشر کئے
جاتے تھے۔ ڈرامے کو کراچی پہنچنے میں 2سال لگے۔ رنگین ٹیلی ویڑن کا دور آنے
تک پاکستانی ڈرامہ کامیابی کی راہوں پر گامزن ہوچکا تھا اور یہی وہ دور تھا
جب لوگ ڈرامے کے وقت سے پیشتر اپنے ضروری امور نمٹاکر ٹیلی ویژن کے سامنے
بیٹھ جایا کرتے تھے۔
اس وقت پیش کئے جانے والے خالصتاً گھریلو اور انتہائی سنجیدہ موضوع پر
بنائے جانے والے ڈراموں کو عوامی مقبولیت کی سند حاصل ہوتی اور وہ طویل
عرصے تک موضوع بحث رہتے‘پھر پی ٹی وی کی پالیسی میں تبدیلی آنے لگی ۔
ڈراموں میں اختیار کی جانے والی سنجیدگی کم ہوئی اورعشق و محبت کی داستانوں
نے ڈراموں میں اپنی جگہ بنالی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ڈرامے کمرشل ازم کا
شکار ہونے لگے ‘ پھر ہوا کچھ یوں کہ پرفارمنس کے بجائے گلیمر پر توجہ دی
جانے لگی۔گزرتے وقت کے ساتھ نجی چینل میدان میں اُتر آئے اور مقابلہ سازی
کی فضا ہموار ہوئی۔
پھر وہ وقت بھی آیا جب ہر گھر سے سونی اور اسٹار پلس کی آوازیں سنائی دینے
لگیں‘ یہ جادو عوام کے سر چڑھ کر بولنے لگا جس کی وجہ سے پاکستانی ڈرامہ
انڈسٹری تذبذب کا شکار ہوکر بھارتی ڈراموں کی روش پر چل پڑی ۔ اس وقت حقیقت
سے ماوراءڈراموں کی بڑی تعداد تخلیق ہوئی لیکن انہیں عوام کی پذیرائی حاصل
نہ ہو ئی۔
سرکاری اور نجی ٹی وی پر بننے والے ڈراموں میں زبردست تبدیلی اس وقت دیکھنے
میں آئی جب ان ڈراموں نے بھارتی ڈراموں کے سحر سے آزاد ہوکر زندگی کی
سچائیوں اورحقیقتوں کو اسکرین پر پیش کرنا شروع کیا اور یہیں سے کامیابی کا
سفر شروع ہوتا ہے ۔دیکھا جائے تو ماضی میں بھی اُن ہی ڈراموں کو پسندیدگی
کی سند ملا کرتی تھی جن میں تلخ و شیریں حقیقتوں کی چاشنی شامل ہوتی
تھی۔چوہدری حشمت کا کردار ماورائی نہیں تھا ‘ اس کردار کی ناقابل فراموش
مقبولیت اس کی حقیقت کی وجہ سے ہی تھی۔ایسے ڈرامے جو عوام کو اپنی کہانی
محسوس ہوں ‘تب بھی کامیاب بھی اور آج بھی عوام ایسے ڈراموں کو سراہتی ہے۔
البتہ ”تب “لکھنے اور پیش کرنے پر مختلف اقسام کی قدغن تھیں لیکن آج میڈیا
اپنی بات ‘ اپنے ڈھنگ سے پیش کرنے میں آزاد ہے۔
بات جب کی جاتی ہے میڈیا کی ” آزادی“ کی تو اسے لوگ غلط معنوں میں لیتے
ہوئے ”فحاشی یا خرافات “سے تعبیر کرتے ہیں لیکن میری ”میڈیا کی آزادی“سے
مراد مبنی از حقیقت موضوعات کو اخلاقی پیرائے میں قرینے سے بیان کرنا ہے۔
ہم ان دنوں نجی چینلوںسے پیش کئے جانے والے بے شمار ایسے ڈرامے دیکھ رہے
ہیں جو معاشرے کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ہمارے مصنف ایسے موضوعات پر
باریکی سے قلم اُٹھارہے ہیں جنیں معاشرے کی دکھتی نبض تو قرار دیا جاتا ہے
لیکن قبل ازیں اُن پر نشتر لگاتے ہوئے قلم تھرا کر رہ جاتے تھے کہ نجانے
لوگوں کا کیا ردعمل ہو ‘ انہیں پتا نہیں کیا کچھ جھیلنا پڑے اور کس کس چیز
پر قدغن عائد کردی جائے لیکن نجی چینلوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے
موضوعات کو فلمبند کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔آج ہم بے شمار ایسے ڈرامے دیکھ
رہے ہیں جو وڈیرہ شاہی ‘ خواتین پر ہونے والے مظالم ‘ کم عمری کی شادیاں‘
تیسری جنس ‘ طوائف‘ شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے افیئرز‘ بگڑتی ہوئی
‘پریشان حال نوجوان نسل اور ان کے جرائم‘ مردانہ سماج اور معاشرتی برائیوں
کو مختلف انداز میں اُجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔
موضوع کی تکرار‘ اداکاروں کی یکسانیت اور کمزور اسکرپٹ والے ڈرامے عوام میں
کبھی جگہ نہیں بناپائے لیکن اچھی کہانی ‘ منجھی ہوئی اداکاری ‘ بہترین
ہدایت کاری اور معیاری ڈراموں نے نہ صرف دیکھنے والوں کے دلوں کو چھوا
‘مقبول عام ہوئے بلکہ ایسے ڈرامے ہر دور میں یاد رکھے گئے اور ان کی مثالیں
دی گئیں۔ان ڈراموں موضو ع اور کہانی کی مضبوطی‘ کرداروں کا انتخاب ‘ عکس
بندی ‘ ڈائریکٹر اور پروڈیوسروں کی کاوش نظر آتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے
کہ محنت خواہ کسی بھی دور میں کی جائے وہ کامیاب ہوجاتی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ پہلے کم وسائل کے باوجود ڈرامے اپنی اقدار کا خیال رکھتے
تھے آج کاڈراماہماری سماجی سوچ کاعکاس نہیں‘ ہمارا ڈرامہ بے باکی میں فلموں
سے بھی آگے نکل گیا ہے ‘جب کہ چھوٹی اسکرین کے حوالے سے ہماری آنکھیں اور
ذہن یہ سب کچھ دیکھنے کے عادی نہیں ہیں ۔نقاد کہہ رہے ہیں کہ چینلوں پر
”خرافات “دکھانے کی ّضرورت نہیں ہے‘نجی چینل وہ کچھ دکھارہے ہیں جو شعائر
اسلام کے منافی ہیں ‘مثال کے طور پر لڑکی اور لڑکے کا بے حجابانہ ملنا
‘جینز ٹی شرٹ میں گھومنا ‘ لڑکیوں کا اپنی شادی کے حوالے سے والدین سے
تکرار کرنا ‘ پسند کی شادی کے لئے گھر سے بھاگ جانا وغیرہ ‘وغیرہ ۔
ایسی تنقید کرنے والے حقیقت سے نگاہیں چرا کر جینے والوں میں سے کیوں کہ یہ
تو آج ہر گھر کی کہانی ہے۔ مثال کے طور پر لڑکیاں خواہ وہ بسوں میں سفر
کررہی ہوں یا اپنی گاڑیاں چلارہی ہوں ہمیں جینز ٹی شرٹ میں ملبوس نظر آتی
ہیں جب کہ دیگر معاملات بھی کچھ ایسے ہی ہیں بس ضرورت ہے تو حقیقت کا چشمہ
چڑھانے کی۔
ناقدین آج کے ڈراموں کو موضوعاتی اعتبار سے تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جب
کہ آج کے ڈرامے کل سے زیادہ حقیقت سے قریب نظر آرہے ہیں۔ کل اگر وڈیروں اور
جاگیرداروں کے مظالم دکھائے جاتے تھے تو انہیں ہاریوں اور مزارعوں کے
معاملات او ران کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک تک جب کہ اگر آج اس موضوع پر
قلم اٹھایا جائے تو ہر پہلو کا احاطہ کیا جاتا ہے خواہ وہ اُن کا بیک وقت
کئی شادیوں کا معاملہ ہو یا پھر زمین و جائیدا د کی خاطر بہن بیٹیوں کو
کاری کرنے کے معاملات۔ ان کی نجی جیلوں کو منظر عام پر لانا ہو یا پھر
غریبوں کو کتوں کے آگے ڈالنے جیسے واقعات کو عکس بند کرنا ۔
شاید معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم حقیقت کی کڑوی گولی نگلنا ہی نہیں چاہتے۔
ہمارے اردگرد جو اچھا ہورہا ہے اسے اسکرین پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں لیکن جب
ایسی برائیوں کو منظر عام پر لایا جاتا ہے ‘جو گھر گھر کی کہانی ہے تو لوگ
معترض ہوتے ہیں۔
آج معاشرے میں لڑکیوں اور لڑکوں کا بے حجابانہ اور آزادانہ میل جول جتنا
بڑھ چکا ہے اس کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔پارکوں ‘ سینماﺅں
اور تفریح گاہوں میں درجنوں نوجوان جوڑوں کی موجودگی کسی بھی وقت نوٹ کی
جاسکتی ہے۔
ایک نجی چینل سے پیش کی جانے والی ڈرامہ سیریل ان دنوں تنقید کی زد میں ہے
جس میں ایک بڑی عمر کے مرد نے ایک انتہائی کمسن بچی سے شادی کرلی۔ رائٹر نے
شادی کا مقصد حصول اولاد دکھاکر موضوع کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے
لیکن ڈرامے کی عکس بندی ”صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں “ کے
مصداق سب کچھ کہہ گئی ہے۔اس ضمن کہا جارہا ہے کہ ایسے موضوعات کو پیش نہیں
کیا جانا چاہئے جب کہ کمسن بچیوں کی بڑی عمروں کے مردوں سے شادی معاشرے میں
انتہائی عام ہے۔
ایک دوسرے چینل پر چلنے والا ڈرامہ ”ننھی“ بھی نقادوں کا نشانہ بنا ہوا ہے
۔ اس ڈرامے میں کا مرکزی خیال چوری کئے جانے والے بچوں کے گرد گھومتا ہے جب
کہ اس ڈرامے میں ایک کم سن لڑکی کی نفسیات کے حوالے سے قلم اُٹھایا گیا ہے
جس نے اپنابچپن مختلف چھوٹے بچوں کو پال کر گزاراہے اور اب وہ بچوں کے بارے
میں غیر معمولی طور پر جذباتی ہو گئی ہے۔ حقیقت پسندی سے پیش کئے جانے والے
کرداروں پر مشتمل یہ کہانی اسی تسلسل میں آگے بڑھتی ہوئی عوام الناس میں
اپنی جگہ بنارہی ہے ۔
روزمرہ کی خبروں میں مردوں کی کم سن بچیوں سے شادی یا بچوں کے اغوا جیسی
خبریں شائع ہونا عام سی بات ہے اور ہم میں سے بہت سے لوگ یہ خبریں سن اور
پڑھ کر فراموش کردیتے ہیں۔ یہ ڈرامہ نگار ہی ہیں جو ان خبروں کے پیچھے چھپے
المیے کو معاشرے کے سامنے لانے کی جرات کررہے ہیں۔ ایسے میں کمی بیشی کا
امکان تو ہوسکتا ہے لیکن ایسے دیگر موضوعات کو سامنے لانا چاہئے جن میں ایک
شخص کی غلطی کی سزا پورا خاندان اور بسا اوقات نسلیں بھگتتی ہیں۔ |