بڑوں کی موت بعض اوقات
چھوٹوں کو بہت بڑا بنا دیتی ہے‘
تاریخ شاہد ہے کہ جو بھی حکمران دنیا کے کسی حصہ پر قابض ہوا، اس نے اس
حکمرانی کو اپنے خاندان کی میراث سمجھا، فرعون، نمردود، شداد کے قصے تو
مشہور ہیں۔ طاقت کے حصول کی فکر انسانی سرشت میں ازل سے شامل ہے۔ کہتے ہیں
کہ بڑوں کی موت بعض اوقات چھوٹوں کو بہت بڑا بنا دیتی ہے‘ پاکستان میں بھی
کئی سیاسی خاندانوں کی حکمرانی ہے،کچھ خاندان سیاسی منظر سے غائب ہوگئے اور
کچھ نئے خاندان سیاست میں داخل ہوگئے،بھٹو خاندان اب سیاست سے غائب ہوگیا
ہے۔ اب اس کی ایک اور نسل سیاست میں داخل ہے۔اسی طرح سے کھر، جتوئی،
گیلانی، چیمہ، کائرہ، بھروانہ، راجا،اور وٹو کی خاندانی سیاست بھی جاری ہے۔
ان میں سے اکثر کو ناکامی ہوئی ہے۔ اور اب ان سیاست پر اجارہ دار سیاسی
خاندانوں کو اب اقتدار کے ایوانوں میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے اگلے
انتخابات میں قسمت آزمائی کا انتظار کرنا ہو گا۔اب سیاست یا کاروبار ہی میں
وراثت چلتی ہے۔ علم‘ ادب‘ فن‘ ثقافت میں کوئی ایسا دروازہ‘ کھڑکی‘ سیڑھی
نہیں ہے جو بیٹے یا بیٹی کو باپ یا ماں کے بعد دلیپ کمار‘ شاہ رخ اور
امیتابھ بنا دے۔ سیاسی وراثتوں کے سچے واقعات سے برصغیر کی ساری تاریخ اٹی
پڑی ہے‘ بنیادی ضروریات اور سہولیات حاصل کرنے کے بعد انسان جس ڈگر پر چل
پڑتا ہے، وہ عارضی ٹھکانے میں اپنے خزانے کو ابدی دوام بخشنے کی راہ ہے، اس
کے لیے وہ طاقت اور اثر رسوخ حاصل کرتا ہے۔جو کبھی نظریے، کبھی قبیلے ،
کبھی قوم تو کبھی دولت کے بل پر ہوتا ہے۔ پاکستان ہی میں نہیں ساری دنیا
میں ، ایسے خاندان اور قبیلے ہیں جو اپنے اثر رسوخ میں اونچے درجے پر ہیں۔
، جنھیں انسانی برادری کے بااثر ترین خاندان سمجھا جاتا ہے، جن کا اثرورسوخ
کئی نسلوں، دہائیوں اور صدیوں تک قائم رہا۔
نہروگاندھی خاندان
ہندوستانی سیاست میں موتی لال نہرو کا خاندان پوری سیاسی سلطنت و بادشاہت
Dynasty کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔یہ خاندان سو سال سے زیادہ عرصے سے
ہندوستان، برصغیر اور دنیا کی سیاست میں کردار ادا کر رہا ہے۔ پنڈت جواہر
لعل نہرو کے کنبے کا شمار بھارت کے ایک بااثر سیاسی گھرانے میں ہوتا ہے، جو
بھارتی اقتدار پر دہائیوں براجمان رہنے والی انڈین نیشنل کانگریس کی باگ
ڈور سنبھالے ہوئے ہے، جب کہ اس کے تین اراکین کو بھارت کی وزارت عظمیٰ کا
قلم دان سنبھالنے کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے، جن میں پنڈت جواہر لعل نہرو،
ان کی آنجہانی بیٹی اندرا گاندھی اور نواسہ راجیو گاندھی شامل ہیں۔ان میں
سے موخر الذکر 2 کو قتل کیا گیا، جب کہ راجیو گاندھی کی اہلیہ سونیا بھارتی
حکم راں جماعت کانگریس کی سربراہ ہیں اور ان کے گاندھی خاندان جوان سپوت
راجیو اور راہول بھی احاطہ سیاست میں وارد ہوچکے ہیں۔۔ یہ کنبہ ایشیا کے
جمہوری ممالک میں موروثی سیاست کے حوالے عہد حاضر کی اہم مثال ہے۔
بھٹو خاندان
پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی خاندن یا رائل فیملی بھٹو خاندان کا آغاز
ذوالفقار علی بھٹوکے والد سر شاہنواز بھٹو سے ہوا جو اپنے علاقے کے سب سے
بڑے جاگیردار ہونے کے ساتھ متحدہ ہندوستان میں جوناگڑھ کے وزیراعظم رہے‘
اور سندھ کی سیاست میں ان کا بڑا رول ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہ
مقولہ درست ثابت ہوا کہ ‘ وہ آیا اس نے دیکھا‘ اس نے فتح کیا ۔ بھٹو کے
مرنے کے بعد محترمہ نصرت بھٹو، اور پھر بے نظیر بھٹو نے سیاست کے میدان میں
قدم رکھا۔ اس خاندان کا المیہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگر اس کے سا رے افراد
ناگہانی موت کا شکار ہوئے، ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ شاہنواز
بھٹو کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا، مرتضی بھٹو کو پولیس نے ان کی بہن کے عہد
حکمرانی میں قتل کر دیا۔ جبکہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں گولی مار کر
شہید کردیا گیا۔ شاہنواز بھٹو،مرتضی بھٹو کے بعد اس خاندان کی ایک فرد صنم
بھٹو زندہ ہیں۔ جبکہ دوسری،تیسری نسل میں بلاول بھٹو زرداری موجود ہیں۔
باچا خان
بڑے باچا خان بڑے سیاسی لیڈر تھے پھر ان کے فرزند خان عبدالولی خان سیاست
کی دنیا کے ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے‘ اسی دوران بی بی مور محترمہ نسیم
ولی خان بھی میدان میں اتریں‘ اب آگے ولی خان صاحب کے فرزند اسفندیار ولی
اس وقت باپ دادا کی گدی سنبھالے ہوئے ہیں۔
نواز شریف
ضیاء الحق کے عہد میں ایک نیا سیاسی خاندان لاہور میں پیدا ہوا‘ میاں نواز
شریف کو مسلم لیگ کا لیڈر بنایا گیا پھر اس کے ساتھ شہباز شریف آ گئے‘ پھر
کچھ عرصے کے لئے محترمہ ڈاکٹر کلثوم نواز صاحبہ نے چارج سنبھالا‘ اب تیسری
کھیپ حمزہ شریف اور حسین شریف ، مریم ، ڈاکٹر صفدرکی صورت میں ملک پر
حکمرانی کر رہی ہے۔
رْتھ چائلڈ خاندان
رتھ چائلڈ خاندان، جسے رتھ چائلڈز بھی کہا جاتا ہے، جرمنی کا ایک یہودی
کنبہ ہے، جس نے بین الاقوامی بینکنگ اور مالیات میں ایک نئی جہت متعارف
کروائی اور پھر پورے یورپ کو اسی رنگ میں رنگ دیا۔ اس خاندان کی سرگرمیوں
کو بام عروج پر پہنچانے کا سہرا درحقیقت آسٹریا اور برطانیہ کے حکم رانوں
کے سر ہے، جب کہ اس کے عروج کا سفر 1744 میں پیدا ہونے والے میئر ایمشیل کی
جدوجہد سے شروع ہوا، جس نے تمام تر جدوجہد کے ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال
رکھا کہ اس کے کاروبار کو خاندانی تسلط سے فائدہ پہنچے۔
اس ضمن میں میئر نے اپنے کنبے کے تمام لوگوں کو کلی اختیارات دیے، تاکہ
انھیں کاروباری اہداف حاصل کرنے اور دولت میں اضافہ کرنے کی ترغیب ملے۔
بالآخر وہ اپنے مقصد میں کام یاب رہا۔ ساتھ ہی اس نے خاندان کے اندر شادیوں
کے چلن کو رواج دیا اور ہر حد درجہ کوشش کی کہ کوئی رکن بھی خاندان سے باہر
شادی کی زنجیروں میں نہ جکڑا جاسکے۔
٭ پلانٹا جنیٹس
پلانٹا جنیٹس خاندان کو انگلش تمدن اور سیاسی نظام کی ترقی کے حوالے سے
ٹیوڈر کنبے پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ ان کے دور اقتدار کی وضع کردہ روایات
موجودہ دور میں بھی جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ اس کے برعکس ٹیوڈر عہد میں انگلش
سرزمین پر چرچ کا قیام عمل میں آیا اور ایک طبقے کے مطابق اسے زریں دور بھی
قرار دیا گیا لیکن اس کے باوجود پلاٹناجنیٹس کا تاریخی قد ان سے کم نہیں
ہوتا کیونکہ اس کنبے کی بنیاد بطور شاہی گھرانا ہینری دوم نے رکھی تھی۔ جو
جیفری پنجم کا بیٹا تھا۔ پلانٹاجنیٹس خاندان میں سے انگلینڈ کا پہلا بادشاہ
12 ویں صدی میں تخت نشیں ہوا۔
جب کہ اس گھرانے میں مجموعی طور پر 15 افراد کو کلیسا کی باگ ڈور سنبھالنے
کا شرف حاصل ہوا۔ یہ عرصہ 1154 سے1485 تک محیط رہا، جس میں انگلش فنون و
ثقافت پروان چڑھے، کیوں کہ ان شعبہ ہائے زندگی کو بابائے انگریزی شاعری
جیفری چاسر کے زیر اثر اہل کلیسا کی جانب سے حوصلہ افزائی بھی حاصل رہی۔ اس
خاندان کی تاریخی یادگاروں میں گوتھک طرز تعمیر کے مختلف شاہ کار شامل ہیں،
جن میں ویسٹ منسٹر ایبے اور یارک منسٹر کی نوتزئین شدہ عمارات کا ذکر نہ
کرنا زیادتی ہوگی۔ سماجی شعبے میں اس کنبے کے ان مٹ نقوش میں جمہوری اور
سیاسی حقوق کی متفقہ تاریخی دستاویز ’’میگنا کارٹا‘‘ سرفہرست ہے۔
یہ تاریخ ساز معاہدہ پلانٹاجنیٹس کے اقتدار کے آخری دور میں جان ون کے
عہدحکومت میں ہوا تھا، جو آگے چل کر عمومی و آئینی قوانین کی ترقی کے لیے
مشعل راہ ثابت ہوا۔ انگلینڈ کی پارلیمان اور اس کا موجودہ نمونہ بھی
پلانٹاجنیٹ عہد کی دین ہے۔ اس خاندان کی علمی خدمات کیمبرج اور آکسفورڈ
یونی ورسٹی کی صورت آج بھی روشنی دے رہی ہیں۔
٭ خان گھرانا
خان سے مراد فرماں روا اور خاقان کا مطلب حکم راں ہے، لیکن ان الفاظ کی
کانوں میں بازگشت ذہن کو منگول سلطنت کے بانی چنگیز خان کے دور میں
پہنچادیتی ہے، جس نے تاریخ میں ایک وسیع و عریض ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔
اس نے شمالی ایشیا کے خانہ بدوش قبائل مجتمع کیا۔ بعد ازاں اس نے چنگیز خان
کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس نے کارا ختان خانات، قفقاز، خوارزمی سلطنت اور
مشرق ومغرب کی کئی سلطنتوں پر حملے کیے۔ اس کے عرصہ حیات میں منگول سلطنت
نے وسطی ایشیا کا قابل قدر حصہ اپنے تسلط میں لے لیا۔
چنگیز خان نے 1227میں مرنے سے پہلے اوغدائی خان کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔
ساتھ ہی اس نے اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں اور پوتوں میں تقسیم کردیا۔ چنگیز
خان کو منگولیا کے کسی نامعلوم مقام پر دفنایا گیا۔ اس کے بعد اس کی
اولادوں نے سلطنت کو وسعت دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور موجودہ دور کا چین،
کوریا، قفقاز، وسطی ایشیائی ممالک سمیت مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ کے خطے
بھی خان سلطنت کے زیرنگیں رہ چکے ہیں۔
٭کلاڈیا اور جولیس خاندان
دو کنبوں کے ادغام سے تشکیل پانے والا یہ خاندان سلطنت روما کے ابتدائی دور
میں بام عروج پر تھا، جس کے پانچ اراکین بالترتیب کیلیگیولا، آگسٹس،
کلاڈیس، تبیرس اور نیرو 27 قبل مسیح سے68 عیسوی تک تخت روم پر براجمان رہے۔
تاہم اس خاندان کے آخری فرماں روا نیرو کی خودکشی نے خاندان کے اقتدار کے
تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مذکورہ پانچوں حکم رانوں کو باہمی شادیوں اور
رضاعت کے ذریعے جولیو اور کلاڈیا خاندانوں میں یک جا رکھا گیا تھا۔ اس
سلسلے کا بانی بسااوقات جولیس سیرز بھی باور کیا جاتا ہے۔
حالاں کہ وہ کلاڈین خاندان کا فرد نہیں تھا۔ اس کی بہ نسبت آگسٹس کو اس
خاندان کے بانی کے طور زیادہ واضح انداز میں دیکھا جاتاہے۔ جولین کلاڈین
حکم رانوں میں جو اقدار مشترک تھیں، ان میں سب کے بالواسطہ طور سریرآرائے
تخت ہونے کے ساتھ سلطنت روما کی توسیع اور بڑے پیمانے پر تعمیرات شامل ہیں۔
وہ عمومی طور پر اپنے دل میں عام آدمی کا درد رکھتے تھے، لیکن سینیٹ کے
ارکان بسااوقات ان میں غصے کی آگ بھڑکا دیتے تھے۔ قدیم مورخین نے انھیں
گھمنڈی اور جنسی طور پر بے راہ رو بھی قرار دیا ہے۔
٭ چو خاندان
چو، چین کے منگ خاندان کے حکم رانوں کو کہا جاتا تھا۔ پہلا منگ حکم راں
ہونگوو تھا، جس نے شاہی خاندان کے منگ کا لقب منتخب کیا تھا۔ جس کے معنی
ذہین ہیں۔ اس کنبے نے چین پر 1368 سے1644 تک حکومت کی، جسے انسانی تاریخ
میں سماجی کاموں اور حکومتی استقلال کے تناظر میں درخشاں باب قرار دیا
جاتاہے۔ اس کا سبب یہ بھی تھا کہ یہ خاندان نسلی اعتبار سے تجار کے قبیلے
سے تعلق رکھتا تھا۔ 1644 میں سقوط بیجنگ سے منگ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا،
جس کا محرک لی ڑیچینگ کا زیر قیادت باغیانہ حملہ بنا۔
تاہم اسے بھی دوام نہ مل سکا اور جلد ہی منگ نمک خوار مانچو کے زیر اثر چنگ
حکم رانوں نے عنان سلطنت سنبھال لی اور ان کا دور 1662 تک برقرار رہا۔ منگ
عہد میں بحریہ کی توسیع سمیت لاکھوں افراد پر مشتمل بری افواج تشکیل پائیں۔
تعمیراتی منصوبوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی اس دور یاد رکھا جاتا ہے،
جس میں بڑی نہریں بنانے کے ساتھ15ویں صدی میں بیجنگ کو بیرونی حملہ آوروں
سے تحفظ دینے کے لیے عظیم دیوار قائم کی گئی۔ منگ سلاطین کو چین میں تہذیب
کے ارتقاء و عروج سمیت سرمایہ داری نظام کے دوام کے تناظر میں فراموش نہیں
کیا جاسکتا۔
٭ہسبرگ خاندان
براعظم یورپ میں ہسبرگ گھرانا ایسا شاہی کنبہ ہے، جس نے باقاعدہ طور پر
سلطنت روما کے لیے منتخب حکم راں فراہم کیے۔ یہ عہد 1452 سے1740 تک محیط
ہے۔ اسپین اور آسٹریا بھی اس خاندان کے زیراقتدار رہے۔ اس خاندان کا تعلق
بنیادی طور پر سوئٹزر لینڈ سے تھا، جس نے پہلی بار آسٹریا پر حکومت کی۔ اس
خاندان کا اقتدار 6 صدیوں تک قائم رہا۔ شاہی خاندان کے اندر ہونے والی
شادیوں سے برگنڈی، اسپین ، بوہیمیا، ہنگری اور دیگر خطے اس خاندان کی وراثت
بنے۔
اس کے بعد سلطنت کوآرگو میں واقع ہسبرگ محل کی مناسبت سے موسوم کیا جانے
لگا۔ اس سلطنت کا نصب العین آسٹریا کو خوش حال رکھنا اور دوسروں کو لڑتے
رہنے دینا تھا، جس سے اس خاندان کا حاکمانہ اور سیاسی تدبر واضح ہوتا ہے۔
اس کنبے میں شادی کرکے حکم راں اس کی طاقت بڑھا دیتے تھے۔ ہسبرگ خاندان کی
معروف شخصیت ماریا تھریسا ہے، جسے یورپ کی عظیم دادی بھی کہا جاتا ہے۔
٭پٹولمی خاندان
مقدونیہ کا یہ شاہی خاندان 3 سو سال تک مصر پر حکم راں رہا، جس کی مدت
حکومت 305 سے 30 بعد مسیح تک ہے۔ اس کنبے سے سکندر اعظم کا تعلق ہے۔ وہ
اپنے محافظوں کے طور 7 جرنیلوں اور نائبین کو ہمراہ لے کر رخت سفر باندھتا
تھا، جو اس کے انتقال کے بعد والیان مصر بن گئے۔ سکندر نے خود کو پٹولمی
اول کے طور پر پیش کیا تھا۔ بعد میں اسے ’’سوتر‘‘ یعنی نجات دہندہ بھی
پکارا جانے لگا۔
ہلیان مصر جلد ہی اس کنبے کو فراعین کا نعم البدل تسلیم کربیٹھے۔ پٹولمی
خاندان کا مصر سے راج رومی فاتحین نے ختم کیا۔ اس حوالے سے آخری دور کی
معروف ہستی ملکہ قلوپطرہ ہفتم، جس نے جولیس سیزر اور پومپی کے درمیان سیاسی
جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا، کی خودکشی مصر میں پٹولمک راج کا اختتام
ثابت ہوئی تھی۔
٭مدیسی خاندان
فلورین کی بااثر مدیسی فیملی کا عہد 13 سے17 ویں صدی تک محیط ہے۔ جس میں
تین پوپ بشمول لیو دہم، کلیمنٹ ہفتم اور لیو یازدہم گزرے ہیں، جب کہ اس
کنبے سے تعلق رکھنے والے لاتعداد حکم راں فلورینس کی تاریخ کا حصہ بنے، جن
میں نشاءِ ثانیہ کے عہد میں فنون لطیفہ کو فروغ دینے والے لورینزو کا نام
ہمیشہ میں یاد رکھا جائے گا۔
بعد ازاں اس خاندان کے لوگوں نے فرانسیسی اور برطانوی شہنشاہیت میں بطور
رکن حصہ ڈالا، سگنور خاندان کی طرح انھوں نے بلدیاتی حکومتیں قائم کی اور
فلورینس پر خاندانی طاقت سے غلبہ پایا۔ ان کی بدولت یہ اس شہر میں فنون اور
انسانیت کے احیا کا ماحول تخلیق پایا، جو بعد ازاں اطالوی نشاء ثانیہ کے
لیے مشعل راہ بنا، مدیسی بینک نے بھی یورپ میں اپنی شہرت و امارات کے جھنڈے
گاڑے۔ اپنی دولت کے بل پر اس خاندان بے پہلے فلورینس کو دست نگر کیا اور
پھر پورے یورپ پر گرفت حاصل کرلی۔
٭کیپٹین خاندان
یہ یورپ کا سب سے بڑا شاہی کنبہ تھا، جو دراصل فرانس کے ہف کیپیٹ کی نسل سے
تھا۔ اسپین کا شاہ جان کارلوس اور لگسمبرگ کے گرینڈ ڈیوک ہنری بھی اسی
گھرانے کی باربون شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ صدیاں گزرنے کے ساتھ کیپٹین پورے
یورپ میں پھیل گئے۔ اس دوران انھوں نے براعظم کے ہر خطے پر حکومت کا شرف
پایا۔ شاہی وقار کے باوجود اس کنبے میں جنسی بے راہ روی اور محرمات سے عقد
کا رجحان موجود تھا۔ہسپانوی سلاطین اس معاملے میں سب سے زیادہ بدنام رہے۔
آج بھی اسپین اور لگسمبرگ میں کیپٹین خاندان کا راج ہے۔ |