عزت نفس

عزت نفس ہر انسان کی ایک جیسی ہی ہوتی چاہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب کسی بھی شخص کو کسی بھی ناطے سے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں کو اپنی زبان یا رویے سے زک پہنچائے کہ جس سے کسی کی عزت نفس مجروح ہو

اخلاقی و مذہبی اعتبار سے کسی کی عزت نفس سے کھیلنا نہایت قبیح فعل ہے ہر شخص کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ خود کو اس فعل قبیح کا مرتکب ہونے سے دور رکھے دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر لوگ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر ان کو بھری محفل میں لعن طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں یا موقع بہ موقع بلاوجہ کچھ لوگ دوسرے لوگوں کا مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں ان کی دانست میں یہ محض ایک شغل یا وقت گزاری کا ذریعہ ہے

یہ نہایت ہی منفی رویہ ہے اور کسی بھی قسم کے منفی رویے سے کبھی کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے وہ اس بات سے بے خبر اپنے اس شغل سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ ان کی یہ حرکت دوسرے کی شخصیت کو کس بری طرح مجروح کر رہی ہے ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ بڑی مچھلیاں سمندر کے پانی پر راج کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہوئے چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرتی ہیں یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جنہیں دوسروں پر حکمرانی کا کجھ اختیار مل جائے اور پھر اس اختیار کا احساس بھی ہو جائے تو وہ "خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے" کی طرح " خدا جب اختیار دیتا ہے اکڑ ( بعنی تکّبر) آ ہی جاتی ہے کے مترادف اس بات سے قطع نظر کہ یہ اختیار انہیں امانت کے طور پر میّسر آیا ہے اور امانت ذمہ داری ہے جس کو بہ احسن و خوبی نبھانا ہی اپنے اختیار کا جائز استعمال کرنا ہے اس کے برعکس چند با اختیار افراد اپنے اختیار کا بہت حد تک ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کردیتے ہیں

جبکہ یہی لوگ جو دوسروں کی عزت نفس کو خاطر میں نہیں لاتے جب کوئی انہیں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی کہہ دے تو دوسروں کے اپنے ہی جیسے رویے کو بالکل برداشت نہ کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ایسے افراد یہ چاہتے ہیں کہ ان کے دل میں جو مرضی آئے وہ دوسروں کو کہیں اور دوسرے ان کی ہر جائز نہ جائز بات کو بسر و تسلیم برداشت کرتے چلے جائیں انکا ہر روا ہو نا روا سلوک ہر حال میں چپ چاپ سہ جائیں اور درگزر سے کام لیں

اگرچہ درگزر کی عادت اچھی چیز ہے لیکن اس حد تک کہ کوئی کسی کی درگزر کی عادت کا ناجائز فا‏ئدہ نہ اٹھانے لگے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خود تو دوسروں کو جو مرضی کہتے پھریں لیکن دوسرے ان کے اس منفی رویے پر ردعمل کا اظہار نہ کریں اور اگر کوئی ردعمل کے طور پر انہی کا طرز عمل ان کے ساتھ ہی اپنانے لگے تو برا مان جاتے ہیں

ایسی صورت حال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنی تکلیف کو محسوس کرنے کہ بعد ان کے دلوں میں دوسروں کی تکلیف کا احساس پیدا ہو اور وہ اپنے دل میں اپنے سابقہ رویے پر پشیمان ہوکر آئندہ کے لئے دوسروں کی بابت قدرے محتاط اور بہتر رویہ اختیار کرتے ہوئے آئندہ کے لئے خود کو دوسروں کے ساتھ ایسے ناروا رویّے سے باز رکھیں جو دوسروں کے لئے باعث آزار ہوتا ہے

جس طرح ہر انسان کو اپنی عزت نفس عزیز ہے اسی طرح دوسروں کی عزت نفس کو بھی عزیز رکھنا ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی عزت نفس کا بھی احساس کریں تاکہ دنیا کی آئندہ تاریخ میں بھی آپ کا ملک، آپ کی قوم، اور آپ کا معاشرہ ایک معزز ملک، قوم اور معاشرے کے طور پر اپنی پہچان قائم رکھے
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456970 views Pakistani Muslim
.. View More