آنسوﺅں کا ھر قطرہ دنیا کی ہر چیز سے مہنگا ہے اس کی قدر
و قیمت وہی جان سکتا ہے جب اس کی آنکھ سے ٹپکے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
اس وقت ہر طرف آنسوﺅں کا ایک سیلاب بہہ رہا ہے جہاں نہ مال محفوظ ہے نہ جان
،مہنگائی ،بے روز گاری ،دہشت گردی ،خود کش حملے ،انفرادی خود سوزی ،ڈرون
حملے المیہ تو یہ ہے ان سے متاثر برائے راست غریب طبقہ ہوتا ہے کہیں پہ
غربت سے تنگ آکر کوئی خود سوزی کرتا ہے کوئی نا انصافی کے آنسو بہا رہا ہے
انتہا پسندی جو پاکستان میں زبان عام ہو چکی ہے آئے روز ہزاروں لوگوں کی
جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں ایک ہی لمحہ میں ہزاروں گھرماتم کدہ بن جاتے
ہیں اس حوالے سے ملک اندرونی طور پہ شدید ترین مشکلات سے گزر رہا ہے چونکہ
ہر شہری جب گھر سے نکلتا ہے وہ اس دن کو اپنا آخری دن سمجھ کر نکلتا ہے
جبکہ اس کے برعکس حکمران طبقہ کو اس کی فکر نہیں چونکہ ان کے ساتھ محافظ
ہمہ وقت رہتے ہیں اس لیے اس سے متاثر عوام ہی ہوتی ہے کوئی ولی عہد کبھی ان
آنسوﺅں کا حساب نہیں دئے سکتا یہ ایک حقیقت ہے غربت ،بے روزگاری ،دہشت گردی
،ڈرون حملے آخر پاکستان ہی کا کیوں مقدر کیوں؟کوئی بھی شخص پیدائشی دہشت
گرد نہیں ہوتا اس کو دہشت گرد بنانے میں ہمارئے حکمراں طبقہ کا ہاتھ ہے
غربت ،بے روزگاری اور مہنگائی جب اپنے جوبن پہ ہو گی تو ایسے میں جب دو قت
کی روٹی مہیا نہ ہو تو غربت کے مارئے کو اغیار کا آلہ کار بنے سے کون روک
سکتا ہے اگرہر خاص و عام کو روزگار مل جائے تو اس کی روک تھام کسی حد تک
ممکن ہے کوئی غربت سے تنگ ،کوئی اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھ کر جارحانہ
اقدام پہ مجبور ہوتا ہے جب انصاف اس قدر مہنگا ہو جائے غریب و مظلوم انصاف
کے حصول کے لیے در پدر کی ٹھوکریں کھائے اور وڈیروئے اپنی من مرضی کا انصاف
خرید لیں یہ وہ خطرناک موزی مرض ہے جس کی بنا پہ ایک غریب صحت مند نوجوان
قانون کو از خود اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اغیار کا آلہ کار بن کر نہ صرف
انتقام کی آگ بجھاتا ہے بلکہ وہ ملک و معاشرئے کے لیے بھی انتہائی خطرناک
ہوتا ہے جرائم کی ابتدا ان نا انصافیوں سے شروع ہوتی ہے اور انتہا کی مثال
ملک خداداد میں آئے روز ہر طرف بکھری لاشوں کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے
غیر ملکی مداخلت اور کمزور خارجہ پالیسی ہونے کی وجہ سے فرقہ واریت ،مذہبی
انتہا پسندی عروج پر ہے آئے روز بریکنگ نیوز میں یہ خبر سننے کو ملتی ہے
فلاں جگہ خود کش حملہ ہوا اور ہزاریں جانیں لقمہ اجل بن گئیں اب ٹیلی ویژن
سکرین پہ ایسی نیوز آجائے تو دیکھنے والے اسے ایک افسانہ سمجھنے لگے ہیں
کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں روزانہ کا معمول ہے قبل ازیں جب پہلا واقع ہوا
ہو گا تو ہر آنکھ سے آنسو ٹپکے ہوں گئے مگر جب ایسے واقعات شہر شہر پہنچے
اور طرف لاشیں ہی لاشیں گرنے لگیں تو یہ کرب ناک واقعات خبر نہ رہے بلکہ
روز کا معمول بن گیا اس دکھ و کرب میں وہی مبتلا ہے جس کے اپنے پیاروں کی
لاشیں ہر جانب بکھری ہوں اور آہ بکا ،چیخ و پکار سینکڑوں گھروں کا مقدر بن
چکے ہوں ان آنسوﺅں کی قدر قیمت جاننا اشد ضروری ہے ورنہ اگلا نشانہ آپ کا
اپنا گھر ملک شہر گاﺅں ہو سکتا ہے ۔ حالیہ کوئٹہ زیارت کے مقام پر قائد
اعظم کی رہائش گاہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا دہشت گردوں نے پاکستانی
تاریخی مقام کو چھیننے کی کوشش کی ہے کوئٹہ ،کراچی ،تو مکمل طور پہ دہشت
گردی کی لپیٹ میں ہیں کراچی کے گنجان شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات باعث
تشویش ہیں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیا جائے تو کراچی عملا دہشت گردوں کے
قبضہ میں ہے پاکستانی عوام کی جان و مال کی حفاظت کس طرح ممکن ہے اس کا
لائحلہ عمل حکومت کے زمے ہے اگر حکمراں وہاں امن قائم کرنے میں نا کام ہو
گئے تو بھاری مینڈیٹ بھی ایک پارینہ قصہ بن جائے گا اس موزی مرض سے نجات کے
لیے طویل حکمت عملی کی ضرورت ہے سندھی ،بلوچی ،پٹھان ،پنجابی سب کو ایک
پرچم کے نیچے اگھٹا کرنے کی پالیسی اپنانا ہو گی پاکستان سے غیر ملکی
مداخلت بند کی جائے قانونا بھی ایک ملک دوسرئے ملک میں بغیر اجازت کے
مداخلت نہیں کر سکتا یہ غیر ملکی مداخلت پاکستان کی آزادی ، خود
مختاری،جمہوریت ، کو چیلنچ کیئے ہوئے ہے پاکستان ان ڈرون حملوں کو رکوانے
کے لیے اقوام متحدہ کو تحریک کرئے اور پاکستانی سالمیت کے خلاف بیمانہ
اقدام پر غیر ملکی مداخلت کو نہ صرف بند کیا جائے بلکہ ملوث ممالک کو اقوام
متحدہ کے قوانین کے تحت سزا دلوانے کی جامع کوشش کی جائے بصورت دیگر طاقت
کا جواب بھی طاقت سے دیا جائے کچھ پاکستانی بھائی نفرتوں کے الاﺅ میں جل
رہے ہیں ان کو اور علماءکرام کو بھی محبت سے مل بیٹھ کر ملکی جمہوریت اور
سالمیت کے لیے دعوت دی جائے تاکہ ان کے اندر سے احساس محرومی ختم ہو سکے
اور وہ نارمل زندگی گزاریں بے روزگاری کی شرح پہ جامع حکمت عملی اپنائی
جائے۔ |