’’حاشیہ ‘‘سوچ و مقاصد کے آئینے میں

بے شمار لوگوں کا اب یہ تاثر بن چکاہے کہ مسلمان کمزور و قابل رحم ہوچکے ہیں۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ تاثر کن وجوہات کو سامنے رکھ کر قائم کیا گیا؟ اس سوال کا جواب تاثر قائم کرنے والے شخص کی ذہنی قابلیت و ذہنی وسعت کا موازنہ کر کے ہی دیا جا سکتا ہے ۔عین ممکن ہے کہ یہ تاثر برما ، افغانستان ، کشمیر ، فلسطین، انڈیا ،چیچنیا ، عراق کے مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر قائم کیا گیاہو مگر درحقیقت مسلمان نہ کبھی کمزور و قابل رحم تھے اور نہ کمزور و قابل رحم ہیں۔

دراصل کمزور و قابل رحم تو وہ ہیں جو مسلمانوں کے رحم و کرم پر دنیا کو جنت سمجھ بیٹھے ہیں جب کہ مسلمانوں کے لیے یہ دنیا تو صرف چند دن کا کھیل ہے، مومن کے لیے تو یہ دنیا قید خانہ کے سواکچھ نہیں ہے، مسلمان تودنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دیتے ہیں جب کہ غیر مسلموں کے لیے دنیا ہی سب کچھ ہے ۔پھر قابل رحم و کمزور کون ہوا مسلمان یا غیر مسلمان؟؟

رہا سوال کے مسلمان اگر طاقت ور ہیں تو پھر یہ ہر جگہ کیوں پِس رہے ہیں ؟اس کا نہایت ہی سادہ سا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی طاقت کاادراک نہیں ہے ۔ ادراک نہ ہونے کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں غیر اسلامی افکار ، تہذیب و تمدن ، رہن سہن،سوچ بچارکی اندھی تقلید، شان دار ماضی سے چشم پوشی اور سیکھنے سکھانے کے عمل سے دوری بھی شامل ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے ذلت و رسوائی کا باعث بننے والے عوامل کو دھتکارا تو یہ غالب و منصور ہی ٹھہرائے گئے۔

مسلمانوں کے پاس اتفاق و اتحاد کا ایسا عنصر موجود ہے کہ جس پر عمل پیرا ہونے سے مسلمانوں کی طاقت نہ صرف عیاں ہوتی ہے بل کہ ان کا رعب و دبدبہ دنیا کے بلندو بالا ایوانوں تک کوگرادیتا ہے۔ اس اتفاق و اتحاد کے عنصر کو دبانے والے عوامل میں کچھ کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے اور انھیں عوامل کی وجہ سے یہ امت احساس کمتری میں مبتلا ہے حالاں کہ یہ اعلیٰ ترین امت ہے اور یہی وہ امت ہے کہ جس کا امتی بننے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام نے خواہشیں ظاہر کیں تھیں ۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ اندھے کو قوت بینائی ، گونگے کو قوت گویائی اور بہرے کو قوت سماعت ملے او ر وہ ان نعمتوں کوٹھکرا دے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ قافلے سے بچھڑنے والاراہی دوبارہ قافلہ ملنے پر اس کا حصہ نہ بنے ،یہ بھی ممکن نہیں کہ کال کوٹھڑی میں زندگی کے ماہ و سال گزارنے والا قیدی سورج کو دیکھنے کے لیے بے تاب نہ ہو اور اسی طرح سیدھے راستے سے بھٹکنے والا راستے کے پیچ و خم کی تلخیاں جھیلنے کے بعد جب سیدھے راستے کو دور سے ہی دیکھ لیتا ہے تو لپک کر سیدھے راستے کوحاصل کر ہی لیتا ہے چاہے اس کی زندگی کی آخری سانسیں ہی کیوں نہ چل رہی ہوں ۔پس اس امت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔

یہ امت اس غلامی کے پھندے اور احساس کمتری سے نکلنا چاہتی ہے مگر اس امت کواس کا شان دار ماضی بتانے والے اپنے فرض عین سے نا آشناہوچکے ہیں۔ نسلوں کو آئن سٹائن ، نیوٹن،ڈارون،لامارک، ردرفورڈ، پاسچر وغیرہ کے کارنامے تو پتہ ہے اور بتانے والے بھی جوک در جوک بتاکرفخر محسوس کرتے ہیں مگراس بے راہ امت کو البیرونی ، ابن الہیثم،بو علی سینا، ابن خلدون،جابر بن حیان وغیرہ کے کارناموں سے آگاہ کروانے والے ناپید ہوچکے ہیں اور دنیاکے دھندوں میں اپنے فرض عین کو بھول چکے ہیں۔شیکسپیئر کے قصے کہانیاں تو یاد کروا کر انہیں مشعل راہ بنا کر منزل کا تعین تو کروا دیا جاتا ہے مگر اﷲ کے نافرمانوں اور اﷲ کے ساتھیوں کے سچے واقعات سے راہ نمائی حاصل کرناتودرکنار ایسے موادکو پڑھنے تک کاوقت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔کوئی غیر مسلم سائنس و ٹیکنالوجی یا علم و ہنر میں کوئی کارنامہ سر انجام دے دے تو یہ امت عش عش کرتی ہے جب کہ ایسا ہی کارنامہ کوئی مسلمان کردے تو شک و غیر یقینیت کی فضاقائم کردی جاتی ہے ۔اﷲ کے ناپسندیدہ کام کرنے والوں کی تشہیربڑھا چڑھا کرکی جاتی ہے جب کہ اﷲ کے پسندیدہ ترین کام کرنے والوں کے بارے میں عجیب و غریب تاثرات اور پیچیدگیاں پیدا کر دی جاتی ہے ۔ ان وجوہات کی بنا ء پر یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلیٰ ترین امت احساس کمتری کا شکار ہو کر غلام نہ بنے ۔

پس جب مسلمانوں کا شان دار ماضی اس امت کے سامنے لایا جائے گا تو یہ امت اندھی تقلید بھی چھوڑ دے گی، غلامی کا پھندا بھی توڑ دے گی ،غیر اسلامی ثقافتی یلغار کو ٹھکرا دے گی، معاشرے میں پھیلی غیر یقینیت اور برائیوں کا خاتمہ بھی کرے گی ،سائنس و ٹیکنالوجی علم وہنر میں زمانہ کو اسیر بھی کرے گی اور سیکھنے سکھانے کے عمل میں پیش پیش بھی ہوگی ۔

میں نے بھی معاشرے میں بے راہ روی دیکھی اور اس کے اثرات نسلوں میں دیکھے، میں بھی بے شمار لوگوں کی طرح میڈیا کو مورد الزام ٹھہراتا ، عذاب الہٰی کہہ کر استغفر اﷲ پڑھتا ، والدین کی عدم توجہی اور دین سے دوری کے الاپ ا گلتا، معاشرے کو غلامانہ معاشرہ کہتا اور لاکھوں کی طرح میں بھی ان برائیوں کو برا سمجھتا مگر ان برائیوں کے تدارک کے بارے میں نہیں سوچتا ، اپنے آپ کو بچاتے بچاتے اور اپنے مستقبل کو چند کوڑیوں سے محفوظ کرتے کرتے زندگی کے دھندوں میں مصروف رہتا ۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارا شیوہ حیات یہ بن چکا ہے کہ ’’کوئی مرتا ہے تو مرے بس میں بچ جاؤ‘‘لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اپنے آپ کوبچاتے بچاتے اگر سب کچھ تباہ ہو گیا تو پھر بچنا بے مقصد و بے معنی ہوگا ۔

معاشرے میں پھیلی برائیوں کا ذمہ دارعموماًمیڈیاکو قراردیاجاتا ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ بے راہ روی ، فحاشی و عریانی ، غیر اسلامی ثقافتی یلغار اور غلامانہ ذہنیت کا ذمہ دارصرف میڈیا ہی ہے۔ ان قباحتوں کی ذمہ دار وہ کم علمی ،بے دھیانی اور کم عقلی ہے جس کی وجہ سے ہم نے اپنے روشن ماضی کو پس پشت ڈال کر ان قباحتوں کو اپنا لیاہے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ کسی نے شان دار ماضی کوپہچانا ہواور اس نے ان قباحتوں سے نفرت کر کے انہیں دھتکارا نہ ہو۔جب حقیقی راہ نما کی بے لوث راہ نمائی کے پیاسے لوگ راہ نما نہ پاسکیں گے تو پھر ادھر ادھر بھٹک کر کاروان سے بچھڑ ہی جائیں گے لیکن جب انہیں کاروان نظر آئے گا تو یہ ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے کاروان میں شامل ہو ہی جائیں گے۔

پس اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ایک اصلاحی و تربیتی رسالہ ’’ حاشیہ ‘‘ شروع کیا ہے جس کے ذریعے معاشرے کے ہر فرد کو مسلمانوں کے شان دار ماضی ، مسلمانوں کی علم و ہنر اور سائنس و ٹیکنالوجی میں کارکردگی و خدمات کو نمایاں کیا جائے گا اس کے علاوہ اس رسالہ میں مسلمان راہ نماؤں کے حالات زندگی پر روشنی ڈال کر حقیقی مسلمان راہ نماؤں کی خصوصیات نمایاں کی جائیں گی اس کے علاوہ معاشرے میں انقلابی اقدامات کرنے والے اور معاشرے میں بھلائی کے کام کرنے والے افراد کے انٹرویوز بھی شائع کیے جائیں گے موجودہ دور کے طالب علموں ، سائنس دانوں ، مفکرین ، سکالرز کی سائنس و ٹیکنالوجی اور علم وہنر میں خدمات کو نمایا ں بھی کیا جائے گاتاکہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے تربیت و اصلاح بہم پہنچائی جاسکے۔جوقارئین و قاریات ’’حاشیہ‘‘ کے سلسلے میں کسی طرح سے بھی ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں وہ اس ای میل پر رابطہ کریں شکریہ[email protected]

Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86261 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.