نکاح ۔۔۔۔۔معاشرے کی اصلاح

ایک مرد اور عورت کے درمیان ،اسلامی قانون کی رو سے جو تعلق اور رابطہ پیدا ہو جاتا ہے ،اسے نکاح کہتے ہیں۔وہ محض اپنی نفسانی اور جنسی خواہشوں کے پورا کرنے کے لئے نہیں اور نہ نکاح کا یہ مقصد ہے کہ ایک مرد اور عورت کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے گلے پڑ جائیں اور نہ شریعت اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ عورت کوشہوانی خواہشات کی تکمیل کا آلۂ کار بنا دیا جائے ۔شریعت اسلامیہ میں نکاح ایک دینی اور مذہبی عمل اور ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے ۔مرد و عورت میں الفت و یگانگت اور میاں بیوی میں باہمی مناسبت کا پاکیزہ رشتہ ہے اور مقصود اصلہ اس کا یہ ہے کہ مرد و عورت کے میل ملاپ سے ایک کامل اور خوشگوار زندگی وجود میں آئے نسل انسانی کا سلسلہ بھی حدودِ الہٰی کی نگرانی کے درمیان بڑھتا اور پھولتا پھلتا رہے۔قرآن کریم کا ارشاد گرامی ہے ۔نساء کم حرث لکم فاتو احرثکم انی شٔتم:’’تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتیاں ہیں تو آو اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو۔‘‘یعنی جہاں تک میاں بیوی میں وظیفہ ٔ زوجیت کا تعلق ہے ۔تو تمہاری بیوی تمہارے لئے ایسی ہی ہے جیسے کاشت کار کیلئے کاشت کی زمین ،زمیندار کے لئے اس کا کھیت ،کھیت کہتے ہیں اس قطعۂ زمین کو جس میں کاشت کے لئے تخم ریزی ہوتی ہے۔پیدا وار کے لئے بیج بویا جاتا ہے اور اس میں سبزی ،غلہ ،نباتات کا نشوو نما ہوتا ہے کھیت میں کسان محض تفریح اور وقت گزاری کے لئے نہیں جاتا بلکہ اسے اپنی بہت بڑی دولت سمجھ کر اسے نہایت درجہ عزیز رکھتا اور اس سے پیداوار حاصل کر کے خوب منافع کماتا ہے ۔اسی طرح عورتیں مردوں کے لئے کھیتی کی جگہ ہیں ۔اس کا نطفہ تخم ہے اور اولاد کا حصول بمنزلۂ پیداوار ہے تو عورتوں اور مردوں میں ایک دوسرے سے تعلق اور قربت سے مقصود نسل انسانی کی بقأ اولاد کا حصول اور پاکیزہ زندگی ایک خوشگوار ماحول کی فراہمی ہے نہ کہ قضائے شہوت اور محض جنسی خواہشات کی تکمیل یہی وجہ ہے کہ اسلامی قانون ،عورتوں کے مخصوص ایام میں ، قربت وہمبستری کی اجازت نہیں دیتا، غرض کہ نسل انسانی کے کسان کو بھی ،انسانیت کی اس کھیتی میں اس لئے جانا چاہئے کہ وہ اس سے نسل کی پیداوار حاصل کرے۔اس آیۂ کریمہ میں آگے یہ بھی ارشاد فرمایا،وقدموا لانفسکم۔یعنی اپنے حق میں آئندہ کیلئے کچھ کرتے رہو ،اپنے لئے مستقبل کا سامان کرو، پھر فرمایا:۔ واتقواللّٰہ۔اﷲ سے ڈرتے رہو یعنی بات نہ بھولو کہ تمہیں ایک دن مرنا اور اس کے حضور حاضر ہونا ہے ۔یہ جامع الفاظ ہیں جن سے دو مطلب نکلتے ہیں اور دونوں کی یکساں اہمیت ہے ایک یہ کہ نسل برقرار رکھنے کی کوشش کروتا کہ تمہارے دنیا چھوڑنے سے پہلے تمہاری جگہ دوسرے کام کرنے والے پیدا ہوں اور کارخانۂ عالم کا نظام قائم رہے۔دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑ نے والے ہو اس کو دین اخلاق اور آدمیت کے جو ہر سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو، یہ گویا اس کی تاکید ہے کہ لذتوں میں مشغولیت کے وقت بھی مسلمان مرد اور عورت اپنی ذمہداریوں کو نہ بھول جائیں ۔لذت پرستی ہی میں ڈوب کر نہ رہ جائیں بلکہ اپنی لذتوں کو بھی اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی فکر سے غافل نہ ہوں ۔اگر ان ذمہ داریوں اور فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی اور شہوانی لذتوں اور نفسانی خواہشوں ہی میں ڈوب کر رہ گئے تو خداوند قدوس کے یہاں باز پرس سے کس طرح بچ سکو گے ۔اسی مضمون کی تاکید قرآن عظیم کے اور مقامات سے بھی ہوتی ہے ۔مثلاً نکاح کے باب میں مردوں سے فرمایا۔محصنین غیر مسافحین۔یعنی’’نکاح جسکی اجازت تم مردوں کو دی جا رہی ہے وہ ازدواجی زندگی کے قید و بند میں رہنے اور ان ذمہ داریو کے پورا کرنے کے لئے ہو جو عقد نکاح کے بعد تم پر عائد ہوتی ہیں ۔اس کا مقصود نفس پرستی اور بدمستی نہیں ہونا چاہئے۔

عورتوں کے حق میں فرمایا:محصنٰت غیر مسافحات ولا متخذات اخدان۔یعنی’’ عورتیں جو مردوں کے عقد نکاح میں آرہی ہیں انہیں بھی یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وہ ازدواجی زندگی کے قید و بند کی پابند بن رہی ہیں ہوس رانی اور بد چلنی کی زندگی ، ازدواجی زندگی نہیں بن سکتی۔خلاصۂ کلام یہ کہ مرد و عورت دونوں کا مقصود نکاح کے ذریعے ایک پاکیزہ اور عفت مآب زندگی بسر کرنا ہونا چاہئے۔جنسی خواہشات کی تکمیل اس کی غایت نہیں اور اس تعبیر میں تنبیہہ ہے کہ زانی محض شہوت رانی کرتا اور مستی نکالتا ہے اور اس کا فعل غرض صحیح اور مقصد حسن سے خالی ہوتا ہے ،نہ اولاد حاصل ،نہ نسل و نسب محفوظ کرنا نہ اپنے نفس کو حرام سے بچانا ،ان میں سے کوئی بات اس کے مد نظر نہیں ہوتی وہ اپنے نطفہ ومال کو ضائع و برباد کر کے دین و دنیا کے خسارہ میں گرفتار ہوتا ہے۔سورۃ نحل میں ارشاد فرمایا:واللّٰہ جعل لکم من انفسکم ازواجا وجعل لکم من ازواجکم بنین وحفدۃ۔اور اﷲ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے عورتیں بنائیں اور تمہارے لئے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے اور نواسے پیدا کئے۔

یعنی اﷲ عزوجل نے مردوں کے لئے نوع انسانی ہی سے اس کا جوڑا پیدا کیا تاکہ دونوں میں الفت و محبت قائم رہے اور تخلیق انسانی کی غرض پوری ہو پھر دونوں کے باہمی اختلاط و قربت سے انسان کو اولاد بخشی اور اولاد کی اولاد عطا فرمائی پوتے اور نواسے دیے تاکہ نوع انسانی بر قرار رہے تو ازدواجی تعلقات کا قائم کرنا اور انہیں نیک مقاصد کی خاطر باقی رکھنا ۔ ان عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت عظمیٰ ہے جن کا خدائے قدوس نے اپنے بندوں پر احسان فرمایا اور اپنے احسانات و انعامات میں گنایا سورۃ فرقان میں ارشاد فرمایا:وھو الذی خلق من الما ء بشرا فجعلہ نسبا وصھرا۔’’اور وہ وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا فرمایا پھر اسے خاندان والا اور سسرال والا بنایا۔‘‘

اسلام نے سارے انسانی معاشرہ کی بنیاد خاندان ہی پر رکھی ہے اور سسرال کو بھی خاندان ہی کا ایک جزو ٹھہرایا ہے تو اجتماعی زندگی میں خاندان کو جو اہمیت حاصل ہے وہی اہمیت عقد نکاح کو بھی حاصل ہے ،بلکہ اس سے بیشتر آیۂ کریمہ پر غور فرمائیے ،بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا کھڑی کرتا ہے مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں بلکہ دو الگ نمونے مرد اور عورت بنائے اور جو انسانیت میں یکساں ،مگر جسمانی اور نفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف اور اس اختلاف کی وجہ سے باہم مخالف و متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں ۔پھر ان جوڑوں کو ملا کر وہ عجیب توازن کے ساتھ جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنیٰ دخل بھی نہیں ہے ،دنیا میں مرد بھی پیدا کر رہا ہے اور عورتیں بھی جس سے ایک سلسلہ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے ۔جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں کی بہوئیں بن کر جاتی ہیں اور اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آیۂ کریمہ میں سسرالی رشتے کو خالق کائنات نے اپنی نعمتوں میں شمار فرمایا اور اپنی قدرت کا ملہ کی دلیل ٹھہرایا کہ کسی بظاہر بے حقیقت چیز سے ،کتنے عظیم الشان اور دور دراز کے تعلقات قائم کر دئیے۔قدرت کے فیاض ہاتھوں نے جو جذبات انسان کی فطرت میں ودیعت فرمائے اور جو قوتیں اسے عطا فرمائیں وہ اس کے حق میں سرا پاخیر اور سرتا سر مفید ہیں اور انسان کو ان جذبات اور قوتوں سے وہی کام لینا چاہئے جو قدرت نے اسے سکھایا اور اسی حدتک کام لانا چاہئے جس حد تک قانون قدرت میں اسے وسعت دی گئی ہے انہی قوتوں میں سے ایک قوت توالد و تناسل بھی ہے جس کی بدولت انسانوں کے مابین ولادت کا سلسلہ قائم کرنا اور نسل انسانی کو بر قرار رکھنا ظہور میں آتا ہے جو عین منشاء الہٰی ہے۔ چونکہ یہ قوت فطری اور عطیہ خداوندی ہے لہٰذا اس کا کامل طور پر انسا ن میں پایا جانا اس کے کمال انسانیت کی دلیل ہو گی اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کا صرف اسی محل میں کیا جائے جو قدرت نے اس کے لئے متعین فرمایا ہے اور اسی محل صرف کو حدود الہٰیہ میں رہتے ہوئے اپنے تصرف میں لانا ،شرع کی زبان میں نکاح کہلاتا ہے اور جو بنیاد ہے ایک پاکیزہ زندگی کی۔
عورت اسلام سے پہلے

اسلام سے پہلے عورتوں کے حقوق پامال تھے نہ ان کی جان کی کوئی قیمت تھی ،نہ عصمت و عفت ہی کی قدر تھی بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہ تھی۔اس لئے جب کوئی مرد چاہتا اور جس عورت کو چاہتا اور جس طرح چاہتا اپنے نکاح میں لے آتا اور ان کے ساتھ وہی مرد سلوک روارکھتا جو جانوروں سے کیا جاتا ہے۔ حق مہر ایک بے معنی چیز تھی بلکہ عورت کی ملکیت اور سارا سازو سامان لاقانونی کے تحت شوہروں کی ملکیت قرار پاتا تھا ،بے حسی کا عالم یہ تھا کہ شوہر کے مرنے کے بعد سوتیلی ماؤں میں بھی وراثت کا قانون رائج تھا کہ مرنے والوں کے وارثوں میں ایک مال کی طرح اس کی تقسیم بھی عمل میں آتی تھی ۔دنیا میں سب پہلے حضور رحمۃ اللعالمین ﷺ نے عورتوں کے حقوق قائم کئے اور عورت کی شخصیت کو ابھارا اور قرآن کریم کے الفاظ میں اعلان فرما یا کہ :ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔(سورۃ بقرہ آیہ نمبر228)یعنی ’’جیسے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے ہی عورتوں کے حقوق مردوں پر ہیں۔ اسلام سے قبل مردوں کی طرف سے عورتوں کی تذلیل وتحقیر کی ایک وجہ اس کی مالی بے چارگی بھی تھی۔ اس لئے حضور اقدس ﷺ نے عورت کی مالی حالت کو بھی مستحکم کیا اور اس کے لئے اصول وضع کئے ۔
1)اسے وراثت میں حصہ دار بنایا اور اپنے باپ بھائی خاوند بیٹے وغیرہ کے مال کی متروکہ اور غیر متروکہ جائیداد و منقولہ و غیر منقولہ میں عورت کے حصے مقرر فرمائے۔2) میکے سے ملنے والا سامان جہیز اس کی ملکیت قرار دیا۔3) اسے اپنی املاک و جائیداد پر مالکانا حق دیکر اس میں تصرف کا حق دیا ۔4)اپنے حق مہر پر اسے پورا پورا اختیار بخشا۔اور اس طرح بنیادی حیثیت سے عورت کو مردکے مساوی کردیا اور ان تدابیر سے عورت کو پستی سے نکال کر بلندی عطا فرمائی اور صحیح معنیٰ میں اسے مرد کا شریک زندگی اور رفیقۂ حیات بنادیا۔

نکاح کے اصول
چونکہ نکاح شریعت اسلامیہ میں مرد و عورت کے مابین ایک شرعی تعلق ،دینی رابطہ اور مذہبی اختلاط ہے ۔اس لئے اسلام نے نکاح کے اصول وقواعد مقرر کئے ۔میاں بیوی کے حقوق متعین کئے تاکہ کوئی فریق کسی فریق کے حقوق کو پامال نہ کر سکے ۔ مثلاً
1)ایجاب و قبول کو نکاح کا لازمی حصہ قرار دیا۔2)کم از کم دوگواہوں کی موجودگی ضروری ٹھہرائی گئی۔3)عورتوں کی دوقسمیں کی گئیں ایک وہ جن سے نکاح حلال ہے اور دوسری وہ جن سے نکاح حرام ہے ۔4)عورت عاقلہ بالغہ ہوتو اسے اپنے نکاح کا اختیار دیا گیا اور نابالغی کی حالت میں اس پر اس کے ولی کواختیار بخشا گیا۔5)نکاح کو ہر صورت سے مکمل کرنے کے لئے کفو کا لحاظ کیا ۔6)مرد پر بنام حق مہر ایک معینہ رقم مقرر کی گئی اور اس پر عورت کو پورا پورا اختیار دیا ۔7)شریعت نے وہ حدود مقرر کیں جس کے بعد شوہر کو عورت پر کوئی حق نہیں رہتا ۔8)عورتوں کو چھوڑنے کے لئے قوانین و ضع کئے گئے جنہیں طلاق اور خلع کہا جاتا ہے ۔9)عورت کا نان نفقہ شوہر پر لازم قرار دیا۔10) زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کے بر خلاف مرد کو ایک عورت سے نکاح کا حکم دیا ،اور بوقت ضرورت ،کچھ شرطوں سے مشروط ،سخت پابندیوں کے ساتھ،ایک سے زیادہ کی اجازت دی۔

اب ان امور سے متعلق چند فقہی مسائل اور دوسرے احکام بھی پڑھیں۔

نکاح میں ایجاب قبول
ایجاب و قبول مثلاً ایک کہے ’’میں نے اپنے کو تیری زوجیت یا تیرے نکاح میں دیا۔‘‘دوسرا کہے’’ میں نے قبول کیا۔‘‘یہ نکاح کے رکن میں پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اور اس کے جواب میں دوسرا جو الفاظ کہے اسے قبول کہتے ہیں ۔یہ کچھ ضرور نہیں کہ عورت کی طرف سے ایجاب ہو اور مرد کی طرف سے قبول ۔بلکہ اس کا الٹا بھی ہو سکتا ہے ۔(درمختار ۔ردالمختار)مسئلہ:لڑکی کے باپ یا وکیل نے مرد سے کہا کہ ’’میں نے اپنی لڑکی یا اپنی مؤکلہ کا تجھ سے نکاح کیا یا ان کو تیرے نکاح میں دیا۔ اس نے کہا میں نے قبول کیا ۔یا اس کے باپ یا وکیل نے کہا کہ ’’میں نے اسے اپنے لڑکے یا اپنے مؤکل کے لئے قبول کیا تو نکاح درست ہے ۔(عالمگیری وغیرہ)مسئلہ:عورت نے مرد سے کہا’’میں نے تجھ سے اپنا نکاح کیا اس شرط پر کہ مجھے اختیار ہے جب چاہوں اپنے کو طلاق دے لوں ‘‘اور مرد نے قبول کیا تو نکاح ہو گیا اور عورت کو اختیار ہے جب چاہے اپنے کو طلاق دے لے۔مسئلہ:کسی نے لڑکی کے باپ سے کہا’’میں تیرے پاس اس لئے آیا ہوں کہ اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دے ‘‘ اس نے کہا’’میں نے اسے تیرے نکاح میں دیا تو نکاح ہو گیا ۔قبول کی بھی حاجت نہیں بلکہ اسے اب یہ اختیار نہیں کہ قبول نہ کرے۔(ردالمختار ۔عالمگیری)مسئلہ:کسی نے لڑکی کے باپ سے کہا’’تو نے اپنی لڑکی مجھے دی‘‘ اس نے کہا ’’دی ‘‘ اس نے کہا’’ قبول کی ‘‘ تو اگر یہ ایجاب و قبول منگنی کے لئے ہوں تو منگنی ہے اور نکاح کے لئے ہوں تو نکاح ۔ (ردالمختار،وغیرہ )مسئلہ:کسی کی منگیتر کو نکاح کا پیغام دینا مکروہ ہے ۔یوں ہی ایک کو زبان دیکر اس سے پھر جانا ،یا منگنی کو بلا وجہ شرعی توڑدینا بھی مذموم و بے جاہے اور بہر صورت ،دوسرے سے نکاح شرعاً درست و صحیح ہے اور اگر درحقیقت کسی عذر معقول یا وجہ شرعی کی بنا ء پر منگنی کر کے توڑدی اور لڑکی دوسرے کو دے دی تو اب کوئی برائی بھی نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ وغیرہ)مسئلہ :عورت کو چاہئے کہ مرد دیندار ،خوش خلق، مال دار، سخی سے نکاح کرے فاسق بد کار سے نہیں ، نیک چلنی ،خوش اخلاقی ،خدا ترسی اور پرہیزگاری سے بڑھ کر کوئی حسن و جمال اور متاع مال نہیں۔مسئلہ:نابالغ لڑکے اور لڑکی کے مابین ،نکاح میں مسنون طریقہ یہ ہے کہ ان کے اولیاء خود ایجاب وقبول کریں یا ان کی اجازت سے ان کے وکیل ،نابالغوں سے کہلوانے کی کوئی حاجت نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ )مسئلہ :یہ جو تمام ہندوستا ن و پاکستان میں عام طو رپر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں وہ نکاح پڑھانے والے سے کہ دیتا ہے کہ میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ نکاح پڑھادیجئے یہ طریقہ محض خیال ہے بلکہ یوں چاہئے کہ جو شخص نکاح پڑھائے وہ عورت یا اس کے ولی کا وکیل بنے ،خواہ یہ خود اس کے پاس جا کر اجازت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے لئے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں کو تو نے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں سے کر دے عورت کہے۔’’ہاں‘‘ (بہار شریعت،فتاویٰ رضویہ)

ایجاب و قبول گواہوں کے روبرو ہونا:
باہمی حقوق و اختیارات کو محفوظ رکھنے کیلئے کم از کم دو گواہوں یعنی دو مردوں یا ایک مرددو عورتوں کا ایجاب و قبول کے وقت ہونا شرط ِ نکاح ہے۔

مسئلہ:گواہوں کاعاقل بالغ ہونا بھی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنے اور مسلمان مرد کا نکاح ،مسلمان عورت کے ساتھ ہوتو گواہوں کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے ۔لہٰذا مسلمان مرد و عورت کا نکاح کافروں کی شہادت سے نہیں ہو سکتا ،ہاں اگر کتابیہ مثلاً نصرانیہ سے مسلمان مرد کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ ذمی کافر بھی ہو سکتے ہیں ۔مسئلہ :گواہ دوسرے ملک کے ہیں کہ یہاں کی زبان نہیں سمجھتے تو اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ نکاح ہو رہا ہے اور الفاظ بھی سنے اور سمجھے یعنی وہ الفاظ زبان سے ادا کر سکتے ہیں اگر چہ ان کے معنی نہیں سمجھتے تو نکاح ہو گیا۔(عالمگیری وغیرہ)مسئلہ:گواہ صرف وہی نہیں کہلاتے جو وہ مجلس عقد میں مقرر کر لئے جاتے ہیں بلکہ وہ تمام حاضرین گواہ ہیں جنہوں نے ایجاب و قبول سنا مگر ایسے ہوں کہ بوقت ضرورت ان کی گواہی سنی جا سکے۔(عالمگیری)مسئلہ:عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیں یعنی اس وقت گواہ غائب بھی ہو اور نکاح پڑھاتے وقت ہوں تو نکاح ہو گیا ،البتہ اذن لیتے وقت گواہوں کی حاجت یوں ہے کہ اگر عورت نے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھا تو اب گواہوں سے اس کا اذن دینا ثابت کیا جائیگا۔(ردالمختار وغیرہ)مسئلہ:یہ امر بھی ضروری ہے کہ منکوحہ گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہو رہا ہے ۔مثلاًً عورت اور اس کے باپ دادا کا نام لئے جائیں اور ادھر صرف اسی کا نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں عورت سے نکاح ہو رہا ہے تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں پھر بھی احتیاط اس میں ہے کہ باپ دادا کے نام بھی لئے جائیں تاکہ عورت متعین ہو جائے۔(ردالمختار)مسئلہ:عورت سے اجازت لیں تو اس میں بھی زوج اور اس کے باپ دادا کا نام ذکر کردیں تاکہ عورت کو ہونے والے شوہر سے واقفیت رہے۔تنبیہ:حدیث شریف میں ہے کہ جو مرد کسی عورت سے بوجہ اس کی عزت کے نکاح کرے اﷲ اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کے سبب نکاح کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھا ئے گا اور جو اس کے حسب کے سبب نکاح کرے گا تواﷲ تعالیٰ اس کے کمینہ پن میں زیادتی فرمائے گا اور جو اس لئے نکاح کرے کہ ادھر اُدھر نگاہ نہ اٹھے اور پاک دامنی حاصل ہو یا صلہ رحمی کرے تو اﷲ عزوجل اس مرد کے لئے اس عورت میں برکت دے گا اور عورت کیلئے مرد میں ۔(طبرانی) اس حدیث شریف کا حاصل عورت اور اس کے اہل خاندان کے لئے یہ ہے کہ وہ ایسے مرد سے نکاح نہ کریں جو ان کی دنیاوی وجاہت یا شہرت یا ان کے مال دولت پر ریجھ کرے یا صرف عورت کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر شادی پر آمادہ ہو بلکہ اصل چیز پاک دامنی کا باقی رکھنا اور خدا اور رسولﷺ کے احکام کی بجا آوری ہے ۔ اسی سے گھریلو زندگی سدا بہار رہتی ہے اور اسی کی بدولت زن و شوہر میں حقیقی محبت پیدا ہوتی ہے۔

غیر مسلمہ سے نکاح
مسئلہ:مسلمان مرد کا نکاح ،کتابیہ یعنی یہودی و نصرانی عورت کے سوا مجوسیہ آتش پرست ،بت پرست ،آفتاب پرست غرض کسی کافرہ سے نہیں ہو سکتا اور مسلمان عورت کا نکاح ،مسلمان مرد کے سوا کسی اور مذہب والے سے نہیں ہو سکتا۔(عالمگیری وغیرہ) اگر چہ وہ اہل کتاب سے ہو۔مسئلہ: قادیانی مرزائی کہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور جو بد مذہب ضروریات دین میں سے کسی دینی ضرورت کا انکار کرتا اور قطعی کفریہ عقائد رکھتا ہے ایسوں سے نکاح قطعاً یقیناً محض باطل اور زنائے خالص ہے اور جو کسی ضرورت دینی کا منکر نہیں ان کے بارے میں بھی علمائے اہلسنت کا قول فیصل یہی ہے کہ ان سے شادی بیاہ کے تعلقات جائز نہیں۔ضروری:بد مذہب عورت کو نکاح میں لاتے وقت یہ خیال کر لینا کہ ہم اس پر غالب ہیں اس کی بد مذہبی ہمیں کیا نقصان دے گے اسے سنی کرینگے محض حماقت ہے ۔یہ رشتہ تو دوستی میل رغبت ،میل محبت ،مہر پیدا کرتا ہے اور محبت میں آدمی اندھا بہرا ہوجاتا ہے اور دل پلٹنے خیال بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے ۔اﷲ تعالیٰ اپنے حفظ و امان ہی میں رکھے اور ایسے کو اپنی بیٹی دینا تو سخت قہر ،قاتل زہر ہے کہ عورتیں مغلوب و محکوم ہوتی ہیں ۔پھر انہیں اپنے شوہر کی محبت بھی ماں سے باپ سے تمام دنیا سے زیادہ ہوتی ہے پھر وہ نرم دل بھی زیادہ ہیں اور ناقص العقل بھی ہیں اور نکاح ہر وقت کا ساتھ ہے اور وہ بد مذہب ہے تو ضرور اس سے نادیدنی دیکھے گی اور انکار پر قدرت نہ ہوگی تو یہ عمر بھر کے لئے فضیحت و رسوائی کا سامان پیدا کرنا ہے ۔(فتاویٰ رضویہ)عورت کا کسی دوسرے کے نکاح یا عدت میں ہونا:قرآن کریم نے عقد نکاح کو ’’میثاقاً غلیظا‘‘ عہد مستحکم ،محکم پیمان اور باہمی نبھاؤ کا مضبوط بندھن قرار دیا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ نکاح کی اس بندش کی گرہ ،شوہر کے ہاتھ میں ہے تو جب تک شوہر طلاق نہ دے عورت بدستور اس کے نکاح میں رہتی ہے اگر چہ تعلقات بظاہر قائم نہ ہوں تو یہ دوسرے کی عدت میں ہو جب بھی نہیں ہو سکتا۔عدت طلاق کی ہو خواہ موت کی۔مسئلہ :عدت میں نکاح حرام قطعی ہے بلکہ نکاح توبڑی چیز ہے ۔قرآن نے عدت میں صریح پیام کو بھی حرام فرمایا اور عدت گذرنے پر نکاح کر لینے کے وعدے کو بھی حرام فرمایا ،صرف اس کی اجازت دی ہے کہ دل میں خیال رکھو یا کوئی پہلودار بات ایسی کہو جسے بعد عدت ارادۂ نکاح کا اشارہ نکلتا ہو ۔صاف صاف یہ ذکر نہ ہو کہ میں بعد عدت نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔پھر پہلودار بات بھی عدت وفات والی سے کہنا جائز ہے ۔عدت طلاق والی سے وہ بھی جائز نہیں۔(فتاویٰ رضویہ)مسئلہ:عورت کسی کے نکاح میں ہے مگر شوہر نے چھوڑ رکھا ہے نہ نان نفقہ دیتا ہے نہ اس کی خبر گیری رکھتا ہے نہ طلاق دیتا ہے ۔اس حالت میں بھی جب موت یا طلاق نہ ہو کسی اور سے نکاح حرام ہے او رحالات زمانہ کو آڑبنا کر نکاح کرنا اور بھی برا۔(فتاویٰ رضویہ)مسئلہ :عورت کا شوہر برسوں سے غائب ہے کچھ پتہ نہیں کہ زندہ ہے کہ مرگیا اور اب عورت اپنا دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہر گز نکاح نہیں کر سکتی اس پر لازم ہے کہ صبر و انتظام کرے ۔یہاں تک کہ اس کے شوہر کی ولادت کو ستر برس گزر جائیں اس کے بعد اس کی موت کا حکم کیا جائے ۔اب عورت عدت گزار کر دوسرا عقد کر سکتی ہے ۔ضرورت اور جوانی کا عذر حرام کو حلال نہیں کر سکتا ۔بہت کم سن لڑکیاں کہ بیوہ ہو جاتی ہیں ،ہندؤں کی دیکھا دیکھی عمر بھر نام نکاح نہیں لیتیں اس وقت ضرورت و جوانی کدھر چلی جاتی ہے ۔ہزاروں وہ ہیں جن کے شوہر زندہ موجود ہیں مگر ان کی طرف سے قطعی لاپرواہ وہ اپنی عمر کیوں کر کاٹتی ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ)جس دل میں خدا و رسول کا خوف اور اسلام و شریعت کا پاس ہوتا ہے ۔ہر حال میں خدا و رسول ہی پر ان کا بھروسہ ہوتا ہے اور وہی اس کا نیا پار لگا تے ہیں ۔ضرورتوں کے لئے جائز محنت مزدوری کے دروازے کھلے ہیں اور جوانی کے لے روزِ آخر حدیث شریف میں ہے روزہ کو سپر یعنی ڈھال بتایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ روزہ مرد و خواہ عورت کو بہکنے اور بھٹکنے نہیں دیتا۔نکاح میں ولایت اور وکالت:اسلام سے پہلے تو عورت کو اناج غلہ روپیہ پیسہ کی طرح تصرف میں لانے کا رواج اور کہیں عورت کو بے روح بتایا جاتا تھا اور اب بھی کہیں مجسم شیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کہیں صرف اغراض شہوانی کا آلہ قرار دیا جاتا ہے ۔غرض کہ کہیں اور کسی طرح عورت کی شخصیت ،اس کی ذہنیت اور اس کے حقوق کا ذرہ برابربھی پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ہے ۔یہ صرف اسلام ہے جس نے ساری دنیا سے اس ظلم و تشدد کو جڑسے اکھاڑ ا اور عورت کو بیٹی بہن اور بیوی ،ماں کی حیثیت سے ابھارا اور ہر حیثیت میں اس کے حقوق کی نگرانی فرمائی ۔اسے اختیارات دئیے اور ان اختیارات کو کام میں لانے کا حوصلہ بخشا۔یہاں تک کہ اسے اپنی ازدواجی زندگی ،اپنی مرضی کے مطابق گزر بسر کرنے کی اجازت دی بشرطیکہ وہ عقل و شعور سے بہرہ ور ہو بچپن کی حدود سے گزر کر بلوغ تک پہنچ چکی ہو اور کوئی ایسا کام نہ کرے جو اس کے خاندان کے لئے بے عزتی اور بد نامی کا باعث ہو۔

رسول اﷲ ﷺ کی خدمت اقدس میں ایک جوان لڑکی حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس کے باپ نے نکاح کر دیا اور وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی ہے ۔حضور اقدس ﷺ نے اختیار دیا یعنی چاہے تو اس نکاح کو جائز کر دے یارد کر دے ،(ابو داؤد) اور مسلم شریف میں روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا’’مَیِّبْ‘‘(وہ عورت جو کوآری نہ ہو)ولی سے زیادہ اپنے نفس کی حقدار ہے اور بِکر (کنواری) سے اجازت لی جائے اور چپ رہنا بھی اس کا اذن(اجازت ) ہے۔

Peer Owaisi Tabassum
About the Author: Peer Owaisi Tabassum Read More Articles by Peer Owaisi Tabassum: 198 Articles with 659009 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.