فاتح خیبر․․․․دامادِرسول ․․شیرخدا․․․خلیفۂ چہارم
امیرالمؤمنین سیدنا حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ
پروردۂ رسولﷺ……اقلیم ولایت کے شہنشاہ……عبادت وریاضت میں مسلمانوں کے پیشواء……ہمت
وشجاعت کے عظیم تاجدارخصوصاًمعرکۂ خیبرکے شاہسوار……شیرشمشیرزن وشاہِ
خیبرشکن……خاتونِ جنت کے شوہرنامدار…… سرداران جنت حسنین کریمین کے
والدبزرگوار……حضورسید عالمﷺ کے تربیت یافتہ عم ِزاد․․․وہ جن کی ولادت ’’کعبہ‘‘میں
ہوئی اور شہادت ’’مسجد‘‘میں پائی․․․․یعنی جن کی زندگی کامحورآغازسے انجام
تک اﷲ تعالیٰ کاگھرتھا……رسول اﷲﷺ’’خاتم الانبیاء ‘‘ہیں اوروہ ’’خاتم
الخلفاء‘‘ہیں ……وہ جن کی حضورسید الکونین ﷺنازبرداری کریں جواگرروٹھ
کرمسجدنبوی ﷺمیں چت لیٹ جائیں توخودسرکارِ دوعالمﷺمنانے آئیں اوراسی عالم
میں محبوب دوجہاں سے’’ابوتراب‘‘کاپیارااوردل رُبالقب پائیں……یہ وہ ہیں جن
کی محبت میں جیناعبادت ہے اوران کی محبت میں مرنا سعادت ہے۔ ان ہی عظیم
المرتبت شخصیت کوسیدناحضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کہتے ہیں۔
٭حضورﷺکالطف وکرم:
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ ’’نجیب الطرفین ہاشمی‘‘ہیں۔آپ رسول اﷲﷺ کے
سگے چچازادبھائی ہیں۔آپ کی کنیت’’ابولحسن اورابوتراب‘‘ہے۔ یوں تو حضرت علی
رضی اﷲ عنہ کے بہت سے القاب و خطاب ہیں مگرآپ کواپنے ناموں میں’ابوتراب‘بہت
زیادہ پسنداوربے حدپیارامعلوم ہوتاتھااور بارگاہِ رسالت مآبﷺسے ملاہوایہ
دلرباخطاب آپ کواتناپسندآیاکہ جوشخص آپ کو’’ابوتراب‘ کہہ کر پکارتاتھاتوآپ
اس سے بے حدخوش ہوتے تھے، کیونکہ اس نام سے حضورسیدالکونینﷺکے لطف و کرم
کویادکرکے بہت خوشی ومسرت سے لطف اندوزہوتے تھے۔
٭اُخوتِ رسولﷺ:
امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کی جملہ خصوصیات میں ایک عظیم
خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ رضی اﷲ عنہ رسول اﷲﷺکے سگے چچازادبھائی ہونے کے
علاوہ’’عقدمواخاۃ‘‘میں بھی آپﷺکے’’بھائی‘‘ہیں۔
چنانچہ جامع ترمذی میں حضرت عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہمابیان کرتے ہیں کہ جب
اﷲ کے پیارے رسول حضورخاتم الانبیاءﷺنے صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کے
درمیان’’عقدمواخاۃ‘‘ (بھائی چارہ)قائم فرمایااورایک صحابی کو دوسرے صحابی
کادینی واسلامی بھائی بنادیا۔توحضرت علی رضی اﷲ عنہ نہایت آبدیدہ ہوکر
بارگاہِ رسالتﷺمیں حاضرہوئے اوررض کیاکہ یارسول اﷲ ﷺآپ نے’’عقدمواخاۃ‘‘میں
تمام صحابۂ کرام کوتوایک دوسرے کابھائی بنادیاہے لیکن مجھے کسی کابھائی
نہیں بنایا، میں تویوں ہی رہ گیاہوں۔رسول اﷲﷺنے نہایت پیاراورمحبت کے
اندازمیں فرمایاکہ:’’اے علی!تم دنیاوآخرت دونوں میں میرے بھائی ہو‘‘۔(جامع
ترمذی،مشکوٰۃ المصابیح)
٭قبول اسلام میں سبقت اوّلیت:
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی عمرابھی صرف دس سال تھی،جب حضورخاتم
الانبیاء حضرت محمدمصطفیﷺکوبارگاہِ خداوندی سے ’نبوت ورسالت‘کاعظیم الشان
منصب عطاکیاگیا۔چونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ ،شیرخوارگی میں ہی حضور اکرمﷺکے
ساتھ ہی رہتے آرہے تھے،اس لئے آپ کواسلام کے مذہبی مناظر سب سے پہلے
نظرآئے۔چنانچہ ایک روزحضورسیدعالمﷺاوراُم المؤمنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی
اﷲ عنہاکواﷲ کی عبادت وبندگی میں مصروف دیکھاتوطفلانہ استعجاب کے ساتھ
پوچھنے لگے کہ یہ آپ دونوں کیا کررہے ہیں۔ حضورنبی کریمﷺنے اپنے نبوت و
رسالت کے منصب گرامی کی خبردی اورساتھ ہی کفروشرک کی مذمت کرکے آپ کوتوحیدو
رسالت پرایمان لانے کی دعوت دی۔
محققین علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے امّ المؤمنین حضرت
خدیجہ رضی اﷲ عنہا،مردوں میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ، بچوں میں حضرت
علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اورغلاموں میں سب سے پہلے حضرت زیدبن حارثہ رضی اﷲ
عنہ نے اسلام وایمان کی عظیم دولت حاصل کی۔
٭مقام ِعلم وفضل:
حضورسرکاردوعالمﷺکی جوہرشناس نگاہوں نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی اس
خدادادقابلیت و استعدادکاپہلے ہی اندازہ کرلیاتھااورآپﷺکی زبانِ فیضِ
ترجمان سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو ’’بابِ مدینۃ العلم‘‘(یعنی جملہ علم
وحکمت کے شہرکادروازہ)کی سندمل چکی تھی چنانچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مقام
علم وفضل کے متعلق حضورامام الانبیاء حضرت محمدمصطفیﷺفرماتے ہیں کہ:
’’میں جملہ علم وحکمت کاشہرہوں اورحضرت علی رضی اﷲ عنہ اس علم وحکمت کے
شہرکامرکزی دروازہ ہیں۔(جامع ترمذی،ابن عساکر،مشکوٰۃ المصابیح)
صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم میں علم وحکمت ،فہم وفراست اورفقاہت وثقاہت کے
اعتبارسے حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کامقام ومرتبہ بہت اونچااور بلندتر
ہے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضورنبی کریمﷺسے تقریباًپانچ سو چھیاسی (586)احادیث
مقدسہ روایت کی ہیں۔آپ کے علمی نکات،فتاویٰ اوربہترین فیصلوں کاانمول
مجموعہ!اسلامی علوم کے خزانوں کابہترین اور قیمتی سرمایہ ہیں۔
وہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ!جن کے متعلق خلیفۂ ثانی امیرالمؤمنین
حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ:’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ!ہم تمام
صحابہ میں سب سے بہترین اورصائب ترین علمی وفقہی فیصلہ کرنے والے ہیں‘‘۔
اورکبھی یوں فرماتے ہیں کہ’’میں ایسے مقدمہ سے اﷲ تعالیٰ کی پناہ
مانگتاہوں،جس کافیصلہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ بھی نہ کرسکتے ہوں‘‘۔
حضرت سیدناعلی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کمالِ علم وفضل،جمالِ فصاحت وبلاغت،
پرتاثیرمواعظ وخطابت، بے مثال فیاضی وسخاوت،بے نظیرجرأت و شجاعت اور سعادت
مآب قرابت ِرسولﷺمیں تمام صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم میں ایک خاص الخاص
اورممتازومنفردعظمت وفضیلت کے مالک ہیں۔الغرض آپ ہرمیدانِ فضل وکمال کے شاہ
سوارہیں۔یہی وجہ ہے کہ تمام دنیاقیامت تک آپ کو’’مظہر العجائب و
الغرائب،اسداﷲ الغالب امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب‘‘ کہہ کرپکارتی
اوریاد کرتی رہے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ خلیفہ دوم امیرالمؤمنین حضرت
عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے ارشادفرمایاکہ:’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوتین عظیم
الشان فضیلتیں ایسی ملی ہیں کہ اگرمجھے ان میں سے کوئی ایک بھی مل جاتی
تومیرے نزدیک وہ تمام دنیاسے زیادہ محبوب ہوتی۔لوگوں نے پوچھاکہ وہ فضیلتیں
کیاہیں؟توآپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ:
﴿1﴾ حضورسیدعالمﷺنے اُن سے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمتہ الزہراء رضی اﷲ عنہا
کانکاح کیا۔
﴿2﴾ اُن دونوں کومسجدمیں رکھااورجوکچھ ان کووہاں حلال ہے،مجھے حلال نہیں ہے۔
3﴾ جنگ خیبرمیں حضورنبی کریمﷺنے فتح وکامیابی کاعلم وجھنڈا انہیں عطا
فرمایا۔ (تاریخ الخلفاء)
٭ہمت وشجاعت کے پیکر:
شاہِ خیبرشکن امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کی بے مثال ہمت
وشجاعت اورشہرۂ آفاق جرأت وبہادری کی لازوال داستانوں کے ساتھ سارے عرب
وعجم میں آپ کی قوتِ بازوکے سکے بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ کے رعب ودبدبہ سے آج بھی
بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں۔ جنگ ِتبوک کے موقع پرسرکاردوعالمﷺنے
آپ کومدینہ منورہ میں اپناجانشین مقررفرمایاتھا،اس لئے اس غزوہ میں آپ شریک
نہ ہوسکے،اس کے علاوہ باقی تمام غزوات وسرایامیں آپ شریک ہوئے اوربڑی
جانبازی کے ساتھ کفارو مشرکین کا مقابلہ کیااوربڑے بڑے بہادروں اور
شہسواروں کواپنی مایۂ نازاور شہرۂ آفاق’’ ذوالفقارِحیدری ‘‘سے موت کے گھاٹ
اتارا۔
٭جانثاری وامانتداری:
حضورسیدعالمﷺنے جب اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکۂ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی
طرف ہجرت کرنے کاقصدوارادہ فرمایاتوآپﷺنے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ
کوبلاکرفرمایاکہ:’’مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت مدینے کاحکم
ہوچکاہے،اورمیں آج ہی مدینہ طیبہ روانہ ہو جاؤں گا،لہٰذاتم میرے بستر
پرمیری سبزرنگ کی چادراوڑھ کرسوجانااورصبح قریش مکہ کی ساری امانتیں اور
وصیتیں جومیرے پاس رکھی ہوئی ہیں،وہ ان کے مالکوں کے سپردکرکے تم بھی مدینہ
منورہ چلے آنا۔
چنانچہ حضرت علی حیدرکراررضی اﷲ عنہ بغیرکسی خوف وخطرکے حضوراقدس ﷺ کے
بسترمبارک پرسوگئے۔صبح ہوئی توکفارِمکہ جورات بھرناپاک ونامراد ارادے کے
ساتھ کاشانۂ نبویﷺکا بہت سخت محاصرہ کئے ہوئے تھے،برہنہ تلواریں لے
کرکاشانۂ مصطفویﷺمیں داخل ہوگئے لیکن یہاں آکردیکھاکہ بسترنبویﷺپرحضوراکرم
نورمجسمﷺکے بجائے آپ کاایک جانثار موت وحیات سے بے پروا ہو کر سو رہا ہے۔
کفار مکہ یوں ہی ناکام ونامرادہوکرواپس چلے گئے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات بھرآرام وسکون کے ساتھ
سویااورصبح اٹھ کرلوگوں کی امانتیں اوروصیتیں ان کے مالکوں کے حوالے
کردیں،امانتوں کی ادائیگی کی وجہ سے میں تین دن مکۂ معظمہ میں رہااور پھر
میں نے بھی مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کرلی۔آپ فرماتے ہیں کہ موت برحق ہے
لیکن آج کی رات مجھے موت نہیں آسکتی کیونکہ سرکاردوعالم ﷺنے فرمایا کہ علی
تم یہ امانتیں ان کو مالکوں کو دے کرپھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنااور جب تک
یہ امانتیں سپردنہیں ہوجاتیں اورجب تک میں مدینہ ہجرت نہیں کر لیتااس وقت
موت نہیں آسکتی کیونکہ یہ سرکارعلیہ السلام کا فرمان تھا۔
٭حضورﷺکی حسنِ کفالت:
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ،حضورسیدعالمﷺکی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئے ۔ابوطالب
چونکہ کثیرالعیال اورمالی ومعاشی تنگی سے نہایت پریشان تھے، اس لئے
حضوررحمت دوعالمﷺنے اپنے محبوب چچاکی تنگ دستی اور مفلسی سے متاثرہوکرحضرت
عباس رضی اﷲ عنہ سے فرمایاکہ ہم اس مصیبت و پریشان حالی میں چچاکاہاتھ
بٹاناچاہئے۔چنانچہ حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے حسب ارشادِنبوی ﷺ حضرت
جعفرطیاررضی اﷲ عنہ کی کفالت کی ذمہ داری لی اورخودحضورسید الکونینﷺکی نگاہِ
انتخاب نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو پسند فرمایا۔
چنانچہ آغازِطفولیت ہی سے حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ آفتاب نبوت ورسالت
حضورخاتم الانبیاءﷺکی حسن تربیت اورآغوشِ پرورش میں رہے۔ حضرت علی رضی اﷲ
عنہ نے ایام ِطفولیت ہی سے حضورسرورِدوعالمﷺکے دامن رحمت وعاطفت میں تربیت
پائی تھی ،اس لئے آپ رضی اﷲ عنہ قدرتاً محاسنِ اخلاق اورحسن تربیت کے
بہترین نمونہ تھے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت علی حیدرکراررضی اﷲ عنہ حضورامام الانبیاء حضرت
محمدمصطفیﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے چمن کی بہارہیں۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوبچپن
سے ہی درس گاہِ نبوت میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کازریں اور پرتقدس موقع
ملا،جس کاسلسلہ ہمیشہ قائم ودائم رہا۔مسندامام احمدمیں آپ رضی اﷲ عنہ اس
پرفخرونازکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’میں روزانہ صبح کومعمولاً آپﷺکی خدمت
اقدس میں حاضرہواکرتاتھااور تقرب کایہ درجہ میرے علاوہ کسی کوحاصل نہ تھا۔
چنانچہ اسی وجہ سے آپ کوحضوراکرمﷺکے تحریری کام کرنے کی سعادت بھی حاصل تھی
،کاتبانِ وحی میں آپ کااسم گرامی بھی سرفہرست نظرآتا ہے۔آنحضرتﷺ کی طرف سے
جوفرامین ومکاتیب لکھے جاتے تھے، ان میں بعض آپ کے ہاتھ کے دست مبارک کے
لکھے ہوئے تھے،چنانچہ’’صلح حدیبیہ‘‘کاصلح نامہ آپ نے ہی لکھاتھا۔
ٌ٭وصال باکمال:
امام المشارق والمغارب اسداﷲ الغالب امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ
وجہہ نے ایک طویل مدت تک اہل ایمان کے قلوب واذہان کوقرآن و حدیث اورعلم
وعرفاں سے فیض یاب فرمایا……اسلام کی راہ میں آخریہ عمرتک کفارسے
برسرپیکاررہے……دین ِاسلام کی بے مثال تبلیغ اورخدمت کی…… ہرقدم پراپنے
ماسبق خلفاء راشدین اورصحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کی ہرممکن راہنمائی کی……ہرلمحہ
اسلام کی راہ میں اپنامال ومتاع اوراپناتن من دھن قربان کیااور بالآخر
اسلام کی خاطراپنی جان بھی قربان کردی۔حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ
اکیس(21) رمضان المبارک بروزجمعتہ المبارک40ہجری کوفجرکی نمازمیں عین حالت
سجدہ میں شہادت کے عظیم منصب ومرتبہ پرفائزہوئے اور یوں علم وفضل،زہدوتقویٰ،
فیاضی وسخاوت، جرأت وبہادری،شجاعت وبسالت اوررشدوہدایت کاعظیم روشن وتاباں
آفتاب غروب ہوگیا۔۔
کسی نے کیاخوب رقم کیاہے کہ:’’حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ ہماری ظاہری
نگاہوں سے ضروراوجھل ہوگئے ہیں،لیکن اہل باطن کے سامنے آج بھی رونق
افروزہیں۔اہل محبت آج بھی آپ سے رابطہ کرتے ہیں اولیاء اﷲ آج بھی آپ سے فیض
پاتے ہیں خانۂ کعبہ سے لے کرکوفہ کی جامع مسجدتک آپ کی زندگی کاہردورہرلمحہ
لائق رشک اورقابل تقلیدہے۔آج پھرنگاہوں اور گمراہیوں کے اندھیروں میں حضرت
علی رضی اﷲ عنہ کے عظیم سیرت وکردار اوربے مثال سیرت کے روشن چراغ جلانے کی
ضرورت ہے۔آج کے اس دورِپرفتن میں مسلمانوں کی عظمت ِرفتہ کے حصول
اورشاندارکامیابی وعروج کیلئے ایک بار پھر’’ضربِ حیدری‘‘کی شدیدضرورت ہے‘‘۔
دعاہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کوحضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کے نقش قدم پرچلنے
اورآپ کی تعلیمات پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔۔آمین ثم آمین! |