گزشتہ دنوں اخبارات میں چھپے ایک بیان پر ایک
قابل احترام دوست نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس احتجاج کی نفی کرتے ہیں
جبکہ احتجاج مہذب قوموں کا ہتھیار ہوتا ہے تو میں نے کہا کہ بات درست ہے
لیکن ان اقوام کا جنکے حکمراں بھی مہذب ہوں اور انکے منتخب کردہ ہوں ۔
جب جب روح زمین پر ناانصافی سر اٹھانے لگے اور ارباب اختیار اس سے بے خبر
ہوں تو مہذب قومیں پر امن احتجاج کر کے انکی توجہ اس امر کیجانب مبذول
کراتی ہیں تاکہ اہل اقتدار اپنی زمہ داریوں سے بطریق احسن نمٹ سکیں یہ بات
اپنی جگہ صیح لیکن ایسا تبھی ممکن ہے کہ جب ’’حکمراں‘‘ طبقہ نادانستہ اس
نوح کی کسی نا انصافی کو دیکھنے سے قاصر رہا ہو لیکن ایک ایسا خطہ جو کسی
اور کی کالونی ہو اور جہاں قائم حکومت وہاں کے عوام کی منتخب کردہ نہیں
بلکہ مسلط کردہ ہو ۔۔۔جہاں نافذالعمل آئین وہاں کے عوام کے خود کا تشکیل
کردہ نہیں بلکہ کسی اور کا تفویض کردہ’’ ایکٹ ‘‘ ہو ۔۔۔جہاں کے نام نہاد
ایوانوں میں بیٹھنے والے عوام کے منتخب کردہ نہیں بلکہ غیر ملکی آقاؤں کے
چہیتے اور ایوارڈ یافتہ ہوں ۔۔۔جو خود کو دیس کے ان نام نہاد ایوانوں تک
پہنچانے کی خاطر قومی غیرت کا سودہ کرنے میں بھی زرہ برابر عار محسوس نہ
کرتے ہوں ۔۔جہاں عوام کے محافظ کے روپ میں مصند اقتدار پر براجمان بہروپیئے
دیس کے عدل و انصاف و قانون کے تمام اداروں پرقلی دسترس رکھتے ہوں اور انکے
ہاتھوں قوم کی بیٹیاں غیر محفوظ ہو ہوجائیں ۔۔۔پھر وہاں کسی پر امن احتجاج
پر اکتفا کرکے انصاف کی توقع بذات خود اس ظلم و جبر کو شہ دینے کے مترادف
ہوجاتا ہے۔
ماضی قریب میں مظفر آباد کے ایک ہوٹل میں ایک المناک واقع وقوع پذیر ہوا جس
نے عوام میں ایک اضطراب کی کیفیت برپا کی ۔کئی عوامی ایکشن کمٹیاں اور
اتحاد تشکیل دئے گئے اور دیس کے چھوٹے بڑے شہروں میں آئے روز بڑے بڑے عوامی
اجتماع کے انعقاد کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا جس پر ایک خطیر رقم خرچ
ہوئی۔ریڈیو ٹی وی اور اخبارات اس ایک خبر سے بھرے رہتے تھے۔ایک سروہے کے
مطابق ان دو ماہ میں صرف آزادکشمیر کے لوکل اخبار ات میں پچاس ہزار سے
زائدانفرادی خبریں چھپیں جو ایک ریکارڈ ہے اور دیس کے باہر کے میڈیا میں
بھی بڑی تشہیر ہوئی ۔اور اس طوفانی احتجاج کے چند ایک مطالبات تھے جنمیں
کمیشن قائم کیا جائے۔۔۔مجرموں کو بینقاب کیا جائے۔۔۔وزرہ اپنے عہدوں سے
استعفے دیں وغیرہ وغیرہ۔۔اور پھر اس تمام احتجاج کا نتیجہ کیا نکلا
؟-0صفر۔۔۔جو خود اس بات کا بین ثبوت ہیکہ اس احتجاج میں حکمت عملی اور ہوم
ورک ہی نہیں بلکہ مقاصد کے تعین کابھی فقدان رہا اور یہ احتجاج زیادہ تر
لوگوں کیلئے محض’’ دل پشوری ‘‘ کا ایک زریعہ بنا یہی وجہ ہے کہ جو خبر ماضی
قریب کے اخبارات کے ستر فیصد پر قابض تھی آج پورے دیس کے اخبارات میں اسکا
زکر ڈھونڈنے سے نہیں ملتا اور اس طرح اس عزت ماب قوم کی بیٹی کو ان پانچ
درندوں نے جتنا ظلم و جبر کا نشانہ نہیں بنایا جتنا کہ اس احتجاج نے اسے
پوری دنیا میں رسوا کرکے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہے اور اب ایسے غیر
سنجیدہ احتجاجوں پر سوال کرنا حق ہے اور یہ کہ احتجاج مہذب اقوام کا حق ہے
تو اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ ہم مہذب ہونیکے ساتھ ساتھ محکوم
بھی ہیں جو بذات خود بہت بڑی ناانصافی ہے اور محکوم اقوام جنہیں سالہا سال
سے اپنی آزادی سے محروم رکھا گیا ہو وہ بالا دست قوتوں سے اتنے سستے انصاف
کی توقع نہیں رکھ سکتیں وہ اسکے علاوہ بھی کچھ کر گزرنے کا حق رکھتی ہیں ۔بالاخصوص
جب اس قدر انسانی اقدار سے گرے ہوئے فاشست اور لچر قسم کے درندہ صفت لوگ
مسلط ہو جایئں تو پھر احتجاج کی شکل بھی بدل جایا کرتی ہے ۔اسلئے ایسے
حالات میں صرف اخباری بیانات ،نعروں ،لاروں، تحریروں اور تقریروں سے کسی کو
انصاف نہ مل سکا نہ ملے گا ہاں مظلوم کے کرب میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔
ابھی دو ماہ ہوئے جس مظلوم کے لئے انصاف کی دوہائی دی جاتی رہی اس وقت اسکی
مظلومیت و بدنامی کا صرف چند لوگوں کو علم تھا لیکن اس احتجاجی طوفان نے
کشمیر کے تینوں حصوں سمیت گلف امریکہ ،کینیڈا ،لاطینی ممالک سمیت وسطی ایشا
ء میں موجود بچے بچے تک کو یہ واقعہ ’’منہ زبانی‘‘ یاد کروا تو دیا لیکن
مذکورہ خاتون کو رسوائی کے علاوہ انصاف کتنا مل پایا اسکا کسی کو ناں تو
احساس ہے اور نہ پرواہ۔۔۔اور آج یقیناًوہ سارا احتجاج ساون کی بارش کے پانی
و گرم دودھ کے جھاگ کی طرح غائب ہو چکا ہے سوال یہ ہے کہ کیا احتجاج ایسے
ہی ہوتے ہیں جو لوگوں کو انصاف کے بجائے زمانے میں رسوا کر دیں اور مظلوم
کو زرہ برابر راحت دلوائے بغیر ختم ہو جاتے ہیں؟۔۔۔نہیں ہر گز نہیں ۔۔۔اگر
وہ پچاس ہزار لوگ جن کی اخبارات میں صرف خبریں چھپی ہیں ان میں سے کسی ایک
کیساتھ ایسا ہوا ہوتا تو کیاوہ محض اس احتجاج پر مطمعین ہو جاتا اور اسے ہی
انصاف مان لیتے ؟ یقیناً نہیں ۔۔۔لیکن اگرزرہ سنجیدگی کا مظائرہ کیا جاتا
تو وہ پانچوں قومی مجرم چند روز میں عوامی عدالت کے کٹہرے میں ہوتے اور وہ
عوامی عدالت تھوراڑ چوک میں سجتی اور انکا مقدمہ سنتی اور کھلے عام لاکھوں
لوگوں کی معیت میں مظلوم اور ظالم کا فیصلہ سنایا جاتا تب ،،،،ہم اپنے
اصلاف کی روحوں کے سامنے سر خرو ہوتے اور فخر سے کہتے کہ ہم نے اپنی غیور
روایات کو زندہ رکھا ہے مگر،،،،ایسا ہو نہ پایا اور وہ تمام لوگ جو محض چوک
وچوراہے پر کھڑے تقریروں میں کمیشن کے قیام وزراہ استعفی دیں جیسے فرسودہ
مطالبات کر کے غیرتمندی کا علان کرتے رہے آج وہ اس مظلوم کو بھلا کر کسی
اورکو انصاف دلانے چل پڑھے ہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور آئے روز
غاصب و جابر کے پالتو قوم کی عزتوں سے کھیلتے رہیں گے اور مغیر ،علی مرتضیٰ
،اور عارف شائد کی شکل میں ایک ایک کر کے قوم کے بیٹوں کو موت کے گھات
اتارا جاتا رہیگا اور ہم صرف اخباری بیانات و جلسے جلوس میں جذباتی تقریریں
کر کے دل کو تسلی دیتے رہیں گے کہ ہم مہذب قوم ہیں اور ہم نے احتجاج ریکارڈ
کروا لیا ہے ۔ ،،،،،،اس لئے ایسے احتجاج کے خلاف بھی احتجاج کرنا عین عبادت
ہے۔ |