بہت دنوں سے ذہن میں سود کے حوالے سے کچھ سوالات گردش کررہے تھے جو اپنے
ملک کی اسلامی خاص طور پر سیاست میں حصہ لینے اور حکو متوں میں شامل رہنے
والی اسلامی جماعتوں کے امیروں کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرنا چاہتا
تھا لیکن علم و عمل کی کمی کی وجہ سے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے ۔اتنا تو
میں جانتا ہوں کہ سودی لین دین کو اﷲ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور اﷲ
تعالیٰ کا دین (اسلام )سختی سے ہر قسم کے حرام سے دوررہنے کی تلقین فرماتا
ہے ۔میں سود کے خلاف پہلے بھی قلم اُٹھا چکا ہوں لیکن آج میں اپنے علماء
کرام کی خدمت میں کچھ اہم سوالات پیش کرنے کی جسارت کروں گا لیکن اُس سے
پہلے صاحبزادہ ذیشان کلیم کی سود کے متعلق کچھ کھری اور سچی دلیلیں پیش
کروں گا۔صاحبزادہ ذیشان کلیم اپنے مضمون ’’سودشرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے
‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺنے سود کے حرام ہونے کے حوالے سے فرمایا
تھا کہ یہ قانون پوری انسانیت کی تعمیر واصلاح اور فلاح کے لئے ہے۔لہٰذا اس
کا اطلاق نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں پر بھی ہوگا۔نبی کریم ؐ کے اس
فرمان کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سودی کاروبار ایک جرم بن گیا
ہے۔عرب کے جو قبیلے سود کھاتے تھے نبی کریمؐ نے اُن کو اپنے اعمال کے ذریعے
آگاہ فرمایا کہ اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے تو اُن کے خلاف جنگ کی جائے
گی ‘‘یعنی سرکار دوعالمﷺ نے سود کا لین دین کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد
(جنگ)فرما کر یہ بات واضع کردی کہ سود کا کاروبار کرنے والے اﷲ تعالیٰ اور
اُس کے دین کے دشمن ہیں ‘‘صاحبزادہ ذیشان کلیم لکھتے ہیں کہ ’’نجران کے
عیسائیوں کوجب اسلامی حکومت کے تخت میں اندرونی خود مختاری دی گئی تومعاہدہ
میں تصریح کر دی گئی کہ اگر سود ی کاروبار کرو گے تومعاہدہ ختم ہوجائے گا
اور ہمارے تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہوجائے گی ۔سرکار دو عالمؐ نے جب
اہل طائف کے ساتھ معاہدہ امن کیا توسودی لین دین کے خاتمے کی شرط لگائی ۔حضرت
عبداﷲ بن عباسؓ کا یہ قول ہے کہ جو شخص اسلامی مملکت میں سود چھوڑنے پر
تیار نہ ہوتو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ
آنے کی صورت میں اُس کی گردن اُڑا دے ۔‘‘مختصر کہ سودی لین دین کرنے والوں
اور اُن کے نظام حکومت کے خلاف اﷲ تعالیٰ اور نبی کریمؐ نے اعلان جنگ کیا
ہے ۔میرا پاکستان کے تما م علماء اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمن ،مفکر و
شیخ اسلام مولانا طاہرالقادری ،مولانا محمد احمد لدھیانوی ، سید منور حسن
اور تمام علماء کرام کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ اگر سود کے خلاف خود اﷲ
تعالیٰ اور اُس کے پیارے حبیب ﷺنے اعلان جنگ کر رکھا ہے تو پھر اﷲ اور اس
کے رسولؐ کوماننے والے سودی نظام کا حصہ اس قدر خاموشی سے کس طرح بن سکتے
ہیں جس طرح آج مولانا فضل والرحمن اور سید منور حسن بن چکے ہیں ۔جب ہماری
حکومتیں آئی ایم ایف سے سود پر قرض لیتی اور اپنے ملک کے نوجوانوں کو سود
پر قرض دیتی ہیں توہم مسلمان اور اہل علم ہونے کے باوجود اﷲ تعالیٰ اور اُس
کے رسولؐ کے دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کیوں نہیں کرتے ؟آخر وہ کون سی
مجبوری ہے جس نے علماء کرام کو سودی نظام کے خلاف آواز بلندکرنے سے روک
رکھا ہے ؟آخر وہ کون سی زنجیریں ہیں جنہوں نے مسلمان ہونے کے باوجود ہمارے
ہاتھ پاؤں جکڑ رکھے ہیں؟کیوں ہم اُن لوگوں کے ساتھ لین دین کرتے ہیں جن کا
جینا مرنا،اُوڑھنا بچھونا ،کھانا پینا ،سونا جاگنا یہاں تک کہ ہر عمل سودی
نظام میں لت پت ہے ؟اگر ہمارے علماء کرام نے کوئی نیا اسلام دریافت کرلیا
ہے جس میں سود کو حرام کی بجائے حلال ہونے کا شرف حاصل ہے تو پھر علماء قوم
کو اُس دین سے آگاہ کیوں نہیں کرتے ؟اگر اﷲ تعالیٰ کے خلاف جنگ لڑنے والوں
کے ساتھ سودی نظام میں رہتے ہوئے کوئی امن معاہدہ طے پاچکا ہے تو پھر علماء
صاحبان صاف صاف کیوں نہیں بتا دیتے کہ اب سود اُس قدر حرام نہیں رہا۔مجھے
لگتا ہے کہ اگر میں اپنے سوالات کو مزید الفاظ دینے کی کوشش کروں گا تو
ممکن ہے گمراہی کی حدوں سے گزر جاؤں اس لئے میں آج علماء کرام اور خاص طور
پر مولانا فضل الرحمن ،مفکر و شیخ اسلام مولانا طاہرالقادری ،مولانا محمد
احمد لدھیانوی ، سید منور حسن اور تمام علماء کرام کی خدمت میں نہایت عاجزی
کے ساتھ یہ سوال رکھتا ہوں کہ سرعام سود کا نظام چل رہا ہے ہم کب اﷲ اور اﷲ
کے رسولؐ کے حکم کے مطابق اس نظام حرام کے خلاف اعلان جنگ کریں گے؟ کب تک
ہم حرام کھانے کے بہانے تلاش کرتے رہیں گے؟کب تک اس ظلم کے نظام کے خلاف
جنگ نہیں کریں گے ؟علما ء کرام سے سنا ہے کہ جو مسلمان غلطی سے (بے خبری
میں)حرام کھا لے بارگاہ الٰہی میں 40روزتک اُس کی دعا قبول نہیں ہوتی یعنی
بے خبری میں حرام کھانے والا مسلمان 40روز تک بارگاہ الٰہی سے دور ہوجاتا
ہے ۔اگر ایسا ہے تو ثابت ہوا کہ حرام نہ کھانے والے مسلمان کی جائز دعا
بارگاہ الٰہی میں کبھی رد نہیں ہوتی ۔قارئین محترم ذرہ غور کریں بے خبری
میں حرام کھانے سے انسان اپنے رب کی بارگاہ سے دورکر دیاجاتا ہے تو پھر جان
بوجھ کرروزانہ حرام کھانے والوں کا کیا حال ہوگا؟اگرپوری کی پوری قوم نظام
حرام کی دلدل میں پاؤں سے سر کے بالوں تک ڈوب چکی ہو ،چاروں اطراف سے سودی
لین دین کرے ۔یعنی اپنے رب اوراُس کے رسولؐ کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ اُن
سے جنگ لڑے تو اُس قوم کو ذلیل و رسوا ہونے سے کون بچا سکتا ہے ؟کون ہے جو
اﷲ تعالیٰ کے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتا ہے ؟کون ہے جو ہمیں حرام کھانے کے
باوجود بارگاہ الٰہی میں مقبول کردے ؟کون ہے جو اس جنگ میں ہمارے لئے فتح
کا انتظام کرے گا؟آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے ہر نقصان کی ذمہ داری
فوری طور پر امریکہ یا کسی اور ملک پر عائد کردیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں
سوچا کہ ہم توخود اﷲ تعالیٰ اور اُس نبی کریمؐ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ |