بظاہر تو یہ ایک عام سا واقعہ ہے
لیکن سوچنے والوں کیلیئے یہ ایک در وا کرتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم اخلاق اور
تمدن کی کس ڈگر پر کھڑے ہیں:
پچھلے دنوں میں اک ایمرجنسی کال پر ایمبولینس لے کر پارکنگ پلازہ سے گزر
رہا تھا۔ وہاں تو ویسے بھی بہت رش ہوتا ہے تو ایک صاحب راستہ روکے کھڑے تھے
میں ان سے راستہ دینے کا کہا تو وہ صاحب کار سے ا تر آئے اور آتے ہی مجھے
مارنے لگے۔ گالیاں بھی دیں اور کہنے لگے کہ خالی ایمبولینس لے کر جا رہے ہو
اور شور مچا رہے ہو۔ میں نے کہا یہاں پیچھے فائرنگ ہوئی ہے، کوئی زخمی ہو
گیا ہے، مجھے فوری پہنچنا ہے۔ انہوں نے اور گالیاں دیں اور کہنے لگے میں
بھی یہیں قریب رہتا ہوں کچھ نہیں ہوا، تم بکواس کر رہے ہو۔ خیر صاحب! لوگوں
نے بیچ بچاؤ کرایا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک نوجوان لڑکا زخمی تھا، میں نے
اسے گا ڑی میں ڈالا اور تیزی سے اسپتال پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہی
صاحب جو مجھے گالیاں دے رہے تھے، مار پیٹ رہے تھے روتے ہو ئے داخل ہوئے وہ
زخمی نو جوان ان کا بھائی تھا۔ انہوں نے مجھ سے بہت معذرت کی ۔ زندگی کا تو
کچھ معلوم نہیں ہے نا تو بس انسان کو دوسرے انسان کو رعایت دینی چا ہیے۔
دوسرے کو بھی انسان سمجھنا چا ہیے۔
ہمارے معاشرے میں ان لوگوں کو جو انسانیت کی فلاح کیلیئے بے لوث خدمت انجام
دیتے ہیں اور انکا مقصد نام کمانا نہیں ہوتا، ایسے لوگوں کے ساتھ ہمارا
سلوک ناروا ہوتا ہے، اتنا ناروا کہ وہ تنگ دل ہو کر اپنے نیک ارادوں سے ہی
باز آجاتے ہیں۔
اور وہ لوگ جو بظاہر پارسائی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور اصل میں معاشرے
کا ناسور ہیں، ہم ان لوگوں کو اپنے کاندھوں پر بٹھاکر انہیں انکے گھٹیا اور
غلیظ مقصد میں غیر محسوس طور پر تعاون فراہم کرتے ہیں۔
اللہ تعالٰی ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان عطا فرمائے، آمین۔ |