محبت میں توحید کے ہی طلب گار
تھے ہم
دل ضدی تھا ورنہ تجھے شرک کی اجازت ہوتی
:ذوالفقارؔ
قارئین کرام!یہ کہانی میرے بہت ہی قریبی عزیز ترین دوست کی سچی روداد ہے
جوکہ بسلسلہ روزگار راولپنڈی میں مقیم ہے ۔میں ان دنوں اسکے ساتھ ہی اپنی
دفتری ذمہ داریاں سرانجام دیے رہا تھا ،اگرچہ میں اس کہانی کا کوئی کردار
تو نہ تھا مگر بہت کچھ آنکھوں سے دیکھنے کا موقعہ ملا تھا۔آئیے میں آپ کو
اپنے اسی دوست عدنان بیگ کی زبانی یہ کہانی سنواتا ہوں۔
میرا نام تو آپ لوگ جان ہی چکے ہیں میرے والدصاحب کی وفات کے بعد مجھ پر
گھر کی ذمہ داریاں پڑی تو مجھے حصول نوکری کے لئے کوشش کرنی پڑی اور یہ
جہدوجہد جلد مجھے ایک نیم سرکاری میں ملازمت دلا گئی۔اور یوں میں اپنے گھر
کی کفالت کرنے لگا اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی مکمل کرنے لگا۔ْؑکچھ عرصے
سے میرے مہینے ،میرے ہفتے اورمیرے دن بہت تیزی سے گذر رہے تھے کب صبح
ہوتی،کب دن گزار اور کب شام ہوگئی کچھ بھی معلوم نہ تھا؟یہ میری پریکٹیکل
لائف کا آغاز تھا ابھی میری تعلیم مکمل نہ ہوئی تھی کہ مجھے نوکری مل گئی
اس وقت میں بہت خوش تھا کہ کتابوں سے جان چھوٹ گئی لیکن معلوم نہ تھا کہ
’’آسمان سے گرااور کھجور میں اٹکا’‘
میں جہاں پر نوکری کر رہا تھا دراصل وہاں پہلے سے ہی میری بڑی بہن ملازمت
کر رہی تھی۔آفس میں شروع کے دنوں میں تو میں بہت خوش تھا لیکن جوں جوں دن
گزرتے گئے میں کام چور بنتا گیا ہرہفتے چھٹی کرنامیرا معمول سا بنا گیا
تھا۔آفس کا ٹائم صبح نو سے شام پانچ بجے تک کا تھا اور میر ا دل اس دوران
بہت گبھراتا رہتا میرا سارا دن اسی انتظار میں گذر جاتا کہ جلدی جلدی پانچ
بج جائیں اور میں گھر چلا جاؤں۔اسوقت دراصل مجھے کام سے کوئی خاص لگاؤ نہ
تھا نہ کوئی ایسی وجہ تھی کہ میں دیر تک رکا رہتا۔
روز صبح 8:30پر جب ہماری بس ہمیں لینے آتی تو مجھے دور سے یوں لگتا جیسے
اڈیالہ جیل کی آرہی ہے اور ہم قیدیوں کو زبردستی چڑھا کر جیل (آفس) چھوڑ
آئے گی ،جب بس آکے پاس رکتی تو میرے ساری قیدی دوست معاف کیجئے گا میرے
سارے دوست بس پر یوں ٹوٹ پڑتے جیسے انھیں آفس پہلے پہنچنے کا بہت زیادہ شوق
ہو میں بالکل سب سے آخر میں بس پر چڑھتا۔ دوسرے سمجھتے شاید مجھے انکا بہت
خیال ہے اور انکی عزت کرتاہوں اس لئے شاید آخرمیں بس پر چڑھتا ہوں لیکن اصل
بات کچھ اور تھی چونکہ آفس جانے کوتومیرا دل ہی نہیں کرتا تھا اس لئے سب سے
آخرمیں بس پر یہ سوچ کر چڑھتا آخر آفس جانا ہے کون سا کوئی شہر فتح کرنے جا
رہا ہوں؟
ویسے تو ہر روز ہمارے آفس کے لوگ سٹاپ پر لیٹ آیا کرتے تھے لیکن ایک دن
اپنا تمام آفس سٹاف بس سٹا پ پر دس منٹ پہلے ہی موجود تھا میں حیران رہ گیا
دراصل ایک دن پہلے قائداعظم یونیورسٹی کی طالبات سٹاپ پر بس کا انتظار کر
رہی تھیں شایدیہی وجہ تھی کہ ہمارا آٖفس سٹاف آج اسی نیت سے جلدی آگیا تھا
کہ شاید آج بھی انتظار کر رہی ہوں گی ۔بہرحال اس کے بعد میں نے سٹاپ پر نہ
تو کسی طالبہ کو بس کا انتظار کرتے ہوئے دیکھااورنہ اپنے آفس سٹاف کے لوگوں
کوجلد ی آتے دیکھا۔لیکن کچھ لوگوں کی جلدی بس سٹاپ پر آنے کی بے چینی پتا
چل گئی تھی کہ وہ کیوں ہوتی تھی؟؟؟
آفس میں ہمیشہ میری بہن مجھ پر نظر رکھی ہوئی ہوتی تھی کہ آیا میں کیا کر
رہاہوں کس طریقے سے بول رہا ہوں اور کہیں سر پر زیادہ تیل تو لگا کر نہیں
آیا ہوں ۔ اور گھر واپسی پر وہ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتی یوں کرتے کرتے سات مہینے
گذر گئے اور پھر بہن کی شادی ہو گئی اور وہ آفس چھوڑ گئی بہن کے جانے کے
بعد مجھے آفس بالکل خالی خالی محسوس ہونے لگا ۔میں اپنی بہن کی سیٹ کو
دیکھتا کبھی وہ اس پربیٹھا کر تی اور آج وہ خالی ہے۔ان کے جانے کے بعد میں
بالکل بدل سا گیا ۔روزانہ صا ف ستھر ا ہو کر آفس جاتا۔ پہلے میرا لنچ بکس
باجی لے کر جایا کرتی تھی ۔اب مجھے خود لے جانا پڑتا ۔کچھ مہنیوں بعد میرا
گریجویشن کا رزلٹ بھی آگیا میں سیکنڈ ڈویژن کے ساتھ پاس ہوا۔سب بہت خوش تھے
۔لیکن مجھے آج بھی وہ دن وہ راتیں یاد ہیں جب میں پڑھتے پڑھتے سو جایا کر
تا تو میری بہن آدھی رات کو جاگ کر مجھے کمرے میں دیکھنے آتی کہ کہیں میں
سو تو نہیں گیا اور مجھے پڑھنے کیلئے جگاتی اسطرح گریجویشن میں کامیابی
کی۔پیچھے میری بہن کا ساتھ تھا جنہیں میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ یوں وقت
گزرتا گیا اور میں ایک بار پھر سے کتابوں کی طرف آگیا ۔کیونکہ میں جان گیا
تھا کہ آگے بڑھنے کیلئے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے یہی بہترین سہارا ہے۔اب
میری سوچ یکسر بدل سی گئی پہلے وہ آفس جہاں میں سارا دن بس چھٹی کا انتظار
کرتاتھا ۔ اب ہر روزکسی کو کسی طریقے سے فائدہ پہنچان کاسوچتاہوں۔
اور پھر وہ وقت آیا کہ کوئی آفس میں اچھا لگنے لگا لیکن میں اس سے کبھی اس
کا اظہار نہ کرسکا،اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ مجھے سے اچھے عہدہ پر
فائز تھی ،مگر اس کے حسن اخلاق اور خوبصورتی کا میں گروید ہ سا ہو گیا
تھا۔میرا اگرچہ اسے سے روز ہی واسطہ پڑتا رہتا تھا مگر میں اپنی پسندیدگی
کو اس سے چھپانہ سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے میرے بارے میں شکایت
میرے باس کو کردی اور پھر مجھے اپنے آپ کو ایک حد میں رہ کر کام کاج کرنا
پڑا۔مگر مجھے افسوس اس بات کا رہا کہ میں کھلا کر اظہار نہ کر سکا اور محض
میری پسندیدگی ہی میرا جرم محبت ٹھہراجس کی مجھے اکثر خلش محسوس ہوتی ہے
اور میں تنہائی میں اسے ہی یاد کررہتاہے اگرچہ اب میری زندگی میں کوئی اور
آنے کو ہے مگر اس حسن پری کی یاد کا دیا ہمیشہ میرے دماغ میں روشن رہے گا۔
شاید زندگی اسی کا نام ہے۔ کہ بعض دفعہ ہم کسی کی چاہت ہوتے ہیں اور بعض
دفعہ کوئی ہماری چاہت ہوتے ہیں لیکن ہم اکثر ان چاہتوں میں اتنا آگے نکل
جاتے ہیں کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک ایسی بھی ذات ہے جس کی چاہت نہ ہو تو
کچھ بھی ممکن نہیں کیونکہ جوڑے تو آسمانوں پر بنتے ہیں۔محبت صرف کسی کو پا
لینے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ کسی کے دل میں جگہ بنا لینا اصل محبت ہے۔
وہ فقط میرا ہے، تھا اور رہے گا بھی
گرفتاریِ محبت میں کوئی ضمانت نہیں ہوتی
ذوالفقارؔ |