اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے
نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت ،نہ نگاہ!
کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو وہ بھولا ہوا نہیں ہوتا۔
پرانے وقتوں میں سیدھے سادھے اور بھولے بھالے لوگ نبیوں،رسولوں،
اماموں،ولیوں،گرووَں، اوتاروں کی باتیں مان لیتے تھے لیکن چالاک نہیں مانتے
تھے۔ اسی طرح آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی کچھ لوگ نبیوں، رسولوں کی باتوں
میں شک کرتے ہیں۔حالانکہ نبی، رسول، امام، ولی وغیرہ جو کچھ کہتے تھے وہ
اللہ کی طرف سے ہوتا تھا۔جسےآج کی سائنس سچ ثابت کر رہی ہے۔ مثلَا تمام
نبیوں، رسولوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالٰی )خالقِ کائنات( ایک ہے، وہ سب
سے بڑاہے،اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے سوچ سمجھ کر کائنات بنائی ہےجس کا
کوئی مقصد ہے۔جو کہ معراج شریف کے موقع پر نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وا لہ وسلم کو بتلادیا گیا تھا کہ زندگی ختم نہیں ہوتی، اور موت اس لیے
بنائی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی دیکھے کہ کون اچھے عمل کرتا ہے اور کون برے۔
مزید برآں یہ کہ ہر شخص نے قبر میں حساب دیناہے، پھر موت کے بعد دوبارہ
زندہ ہونا ہے۔ اور قیامت بر حق ہے، جزا سزا ہے، جنت دوزخ ہے۔ اور معراج
شریف سچا واقعہ ہے جسے سائنس ثابت کرتی ہے۔ لیکن یقین نہ کرنے والا انسان
خواہ مخواہ بحث کرتا انکار کرتا اور جھٹلاتا ہے۔
آج سائنس کا دور ہے اور جدید سائنس نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ اس کائنات میں
کھربوں بلکہ ان گِنت ستارے اور سیارے موجود ہیں) جن میں ہماری زمین ایک
چھوٹے سے گیند کی مانند ہے( اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور
یوں کائنات پھیل رہی ہے۔ سو یہ کائنات اتنی وسیع ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں
سکتے۔ اور جب کائنات )مخلوق( اتنی بڑی ہے تو اس کا خالق )اللہ تعالٰی( کتنا
بڑا ہوگا۔ اللہ اکبر۔ اور پھر یہ ساری کائنات ایک مربوط اورsystematic چیز
ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا خالق) اللہ تعالٰی( بھی ایک ہےجو اسے چلا رہا
ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں ہے کہ اسے روکے۔ اسی لیے
تو تمام انسان کسی نہ کسی شکل میں ایک خالق کو مانتے ہیں۔ نیز ہم یہ جانتے
ہیں کہ ستارے اور سیارے بنتے بھی رہتے ہیں اور ٹوٹتے بھی رہتے ہیں۔ اور جو
چیز بنی ہے وہ ایک دن ختم ہو جائے گی۔ اس لیے ہماری زمین بھی ایک دن ختم ہو
جائے گی۔ یہی قیامت ہے۔ سائنسدان) ہیت دان( کہتے ہیں کہ خلا میں بلیک ہول )اندھے
کنویں( بھی ہیں جن میں کہکشائیں تک غرق ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے نبی پاک صلی
اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ستر سال پہلے ایک پتھر دوزخ میں
پھینکا گیا تھا جو کہ آج )نبی پاک صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے زمانے میں(
اس کی تہہ تک پہنچا ہے یعنی دوزخ اتنی گہری ہے۔ اور پھر سائنسدان کہتے ہیں
کہ سورج جل رہا ہے اور اس کے شعلے لاکھ لاکھ میل تک بلند ہوتے ہیں اور )زوردار(
دھماکے ہوتے ہیں کہ ان کو اگر انسان سن لے تو اس کا دماغ پھٹ جائے لیکن
سورج چونکہ دور ہے اس لیے نہ تو اس سے اٹھنے والے شعلے نظر آتے ہیں اور نہ
ہی دھماکے سنائی دیتے ہیں۔ اس طرح بلیک ہول، سورج کے جلنے اور ایٹمی جنگوں
سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ہم دوزخ کہہ سکتے ہیں۔ جبکہ دنیا میں بہت سے
حسین، خوبصورت اور ٹھنڈے علاقے جنہیں ہمsymbolically جنت کہیں تو غلط نہیں
ہوگا۔ مثلَا پاکستان کے شمالی علاقے جیسے سوات،
ناران،کاغان،کافرستان،مری،ایبٹ آباد ، گلگت بلتستان اور شنگریلا وغیرہ )زمینی(
جنت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اس
کائنات میں اور ہماراسب کا خالق، مالک ،رازق ایک اللہ تعالٰی ہی ہے جس کا
کوئی شریک نہیں۔ اور موت بھی ہے اور دوبارہ زندگی بھی ہے اور نیکی بدی کی
جزا، سزا یعنی جنت، دوزخ بھی ہے اور موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی
بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ہمارے سامنے ہر روز ہمارا کوئی نہ کوئی
ٰعزیز یا ہمسایہ فوت ہو جاتا ہے اور انہیں کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ حتی کہ
ڈاکٹر خود بھی مر جاتے ہیں۔ اور قبر بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے
میت کو قبر میں دفن کر کے آتے ہیں۔ لیکن چونکہ جسم مرتا ہے اور روح نہیں
مرتی اور اپنے خاص الگ جسم کے ساتھ زندہ رہتی ہےاس لیے اس سے حساب بھی لیا
جاتا ہے۔ مردہ دفنانے والوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور ان لوگوں کی باتیں
بھی سنتا ہے جو اس کی قبر پر آتے ہیں۔ وہ انہیں پہچانتا بھی ہے لیکن انہیں
جواب نہیں دے سکتا۔اور یہ بھی کہ انسان کے اعضاء بھی انسان کے خلاف گواہی
دیں گے۔ وہ اس طرح ہے کہ جب چور چوری کرتا ہے، قاتل قتل کرتا ہے، زانی زنا
کرتا ہے تو اس کے جرم کے نشان اس کے ہاتھوں، جسم کے دیگر اعضاء اور لباس پر
رہ جاتے ہیں, یہی ثبوت اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ نیز وہ جو کچھ بھی کرتا
رہتا ہے اس کے حافظے میں محفوظ ہوتا ہے بلکہ اس کی پوری وڈیو فلم محفوظ
ہوتی ہے جس سے وہ کسی طرح بھی نہیں مکر سکتا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا کہ قبر میں دو فرشتے منکر نکیر
آتے ہیں جو کہ مردے سے سوال کرتے ہیں اور اس کے غلط جواب پر اسے گرز مارتے
ہیں جس سے مردے کی چیخیں نکلتی ہیں جو جنوں اور انسانوں کے سوا دیگر تمام
مخلوقات سنتی ہیں۔) یہ الگ بات ہے کہ روح کا الگ جسم ہوتا ہے اور اُسی سے
حساب لیا جاتا ہے نہ کہ دنیاوی فانی جسم سے(۔ جیسا کہ سائنسدان کہتے ہیں کہ
20KHz سے زیادہ اور 20Hzسے کمfrequency کی آواز انسان نہیں سن سکتے۔ لیکن
جانور سن سکتے ہیں جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم گدھے پر سوار
قبرستان میں سے گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کا گدھا اچانک
ایک قبر کے پاس ٹھٹھک کر رک گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے فرمایا
کہ اس قبر والےپر عذاب ہو رہا ہے۔کیونکہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے احتیاط
نہیں کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم نے گدھے سے اتر کر کجھور کی
شاخ توڑ کر اس قبر پر رکھی کہ جب تک یہ شاخ ہری رہے گی اس قبر پر عذاب نہیں
ہو گا۔
اب رہی نبی پاک صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کی معراج شریف کی بات۔ اُسے آئن
سٹائن کے نظریہ اضافیت (theory of relativity) نے سچ ثابت کر دیا ہے ۔ اس
لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وا لہ وسلم کے آسمانوں میں گزارے ہوئے ۱۸ سال
زمین کی ایک گھڑی کے برابر ہیں۔یہ سب بدیہی حقائق ہیں اور لازوال سچائی ہے
جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اور مذہب کی زبان میں جھٹلانے والے کو کافر )منکر(
کہا جاتا ہے۔
پس اے دوستو ، توبہ کرو اور ایمان تازہ کرو کہ اس سے سابقہ گناہ معاف ہو
جاتے ہیں اور آئندہ کیلئے اپنی اصلاح کرو کہ اصلاح سے آپ کے گناہ )ختم ہو
کر (نیکیوں میں بدل جاتے ہیں۔ اور یوں آدمی راہ راست پر آ جاتا ہے۔ اسی لیے
کہا جاتا ہے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار ہے نہ افکارِ عمیق
جہاں روشنی کی کمی ملی
وہیں پر ایک دیا جلا دیا
سوچو، غور کرو، ہم کیا ہیں، کون ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟ |