پانی قدرت کا حسین
تحفہ اور عطیہ ہے اور اسکا سفر کتنا دلچسپ ہے کہ ہلکا ہو تو آکاش کی طرف
سفر کرتا ہوا ہواؤں کو آبیار (Pregnent) کرتا ہے، کبھی تو بادل بن کے آسمان
پر چھا جاتا ہے اور پھر رحمت بن کے زمین پہ برستا ہے، اور کبھی آلودہ فضا
کی غلاظتوں کو سمیٹتا ہے تو کبھی پھولوں پہ شبنم بن کے موتیوں کی طرح چمکتا
ہے اور کبھی آبشار بن کے موسیقی کا سامان مہیا کرتا ہے اور کبھی برف بن کے
پہاڑوں کی چوٹیوں پہ دمکتا ہے مگر زمین پہ ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا
ہے اور اگر اِس کے بہاﺅ کو پابند کر دیا جائے (حدوں میں، Boundries) تو ندی،
نالوں اور دریاﺅں کی طرح بہتا ہے اور کبھی چشمہ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے
پھر اپنا سفر شروع کر دیتا ہے۔ اگر حدوں میں رہے تو اس کے باعث طاقت پکڑتا
ہے۔ اگر ایک طرف ہمارے لیے آبپاشی کا سامان مہیا کرتا ہے تو دوسری طرف اس
سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے۔ اور اِسی طرح اس کا آدھا سفر ایک سمندر میں
مدغم ہونے پہ مکمل ہو جاتا ہے جبکہ سورج کی تپش اسے مشتعل کرتی ہے اور پھر
یہ بھاپ بن کر ہوا کے بازﺅں پہ بلند و بالا پہاڑوں کا سفر کرتا ہے اور
پہاڑوں کی ننگی چوٹیوں کو سفید مخمل غلاف (برف) سے ڈھانپ دیتا ہے۔ مگر ایک
بار پھر اچانک دھوپ کی تپش اِسے تھپکی دیتی ہے اور یہ پھر رخت سفر باندھ
لیتا ہے اور ہواؤں کے دوش پہ سوار میدانوں کا رُخ کرتا ہے اور خطہ زمین پہ
رحمت بن کے برستا ہے اور بنجر زمین اس کے دم سے سونا اُگلنے لگتی ہے۔
قدرت نے پانی کی فطرت میں بہنا لکھا ہے اگر اِسے بہنے کا موقع نہ ملے تو
تالاب اور جوہڑ کی شکل میں رُک جاتا ہے اور یہیں اِس میں سڑاند پیدا ہو
جاتی ہے جو زندگی کو فنا کا درس دیتی ہے۔ اور اگر اِس کے بہاﺅ میں حدیں نہ
رہیں تو اپنی لامحدود طاقت و طغیانی کے باعث سیلاب کی شکل میں میدانوں میں
دندناتا پھرتا ہے اور کسی سرکش حیوان کی طرح ایک بار پھر زندگی کو فنا کی
طرف بہا لے جاتا ہے جبکہ حدوں میں بہتے ہوئے زندگی کو بقا دیتا ہے مگر حدوں
کو توڑنے میں اور رُکنے میں فنا سے روشناس کرواتا ہے۔ اس کا یہ سفر ازل سے
اِس کی گتھی میں لکھ دیا گیا ہے اور یہ اپنے سفر میں رواں دواں ہے
(Automatic)۔ قدرت نے انسان کے اندر اور باہر پانی کا انتہائی اعلیٰ تناسب
رکھا ہے جبکہ زمین تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی سے مرکب ہے اور یہ خشکی
کا خطہ پانی کی سطح پر تیرتا پھرتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی
جگہ بدلتا ہے، اگر دُنیا کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو اندازہ ہوگا جہاں پہلے
کبھی سمندر تھے وہاں خشکی کا بسیرا ہے اور جہاں پہلے خشکی کا خطہ تھا وہ اب
سمندر کا مسکن ہے۔ یہ معاملہ کچھ بھی عجیب نہیں یہ سب کچھ ہمارے لیے بنا ہے
کیونکہ ہم اِس کارخانہ قدرت کے شاہکار ہیں اِس کائنات کی تمام مخلوق ہمارے
لیے سربستہ ہاتھ باندھے (مسخر ہونے کو) کھڑی ہے کہ جیسے الہ دین کے چراغ
والا جن اپنے آقا کے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے اور اس کے کسی بھی حکم کو بجا
لانے کیلئے تیار ہے۔ مگر ہمارے اندر اِتنی سکت کہاں کہ ہم اِس ”جن“ کو قابو
میں کرلیں۔ اِن تمام طاقتوں پہ حاوی ہونے کی کنجی (Key) کسی بھی جن یا دیو
کے پاس نہیں بلکہ ایک اِنسان کی دسترس میں ہے جو ”لذت آشنائی“ سے سرشار ہے۔
قدرت نے تمام کی تمام کائنات ہمارے تسخیر کرنے کیلئے بنائی ہے مگر ہم لذت
کے جھوٹے اور چھوٹے چھوٹے کھلونوں سے دل بہلا رہے ہیں۔
ایک دفعہ ایک چرواہے کو جنگل سے شیر کا شیرخوار بچہ ملا اِس نے اِس کو اپنے
بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ رکھ لیا یہ بچہ اِنہیں میں پل کر بڑا ہوا مگر وہ
بکریوں کے ساتھ رہ کر اِنہی کی طرح کا ہو کر رہ گیا تھا،ایک دفعہ جنگل میں
ایک بوڑھے شیر نے دھاڑ ماری اور بکریوں کے ریوڑ کی طرف لپکا اِس بوڑھے شیر
کو دیکھتے ہی سب بکریاں بھاگنا شروع ہو گئیں جس کو دیکھ کر وہ شیر بچہ (جو
اب جوان ہو چکا تھا) نے بھی بھاگنا شروع کر دیا مگر اچانک اِس کا آمنا
سامنا اِس بوڑھے شیر سے ہو گیا اور اِسے دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ بھی اِسی
طرح کا ہے تو اب اِس نے بکریوں کی طرح ممیانہ بند کر دیا اور ایک گرج دار
دھاڑ ماری کہ بوڑھا شیر ڈر کے بھاگ گیا اب یہ شیر بچہ جو کہ بکریوں میں پل
کر جوان ہوا تھا اِس نے اپنی حقیقت کو جانا اور بکریوں کو چھوڑ کر جنگل کی
راہ لی کہ میں تو جنگل کا بادشاہ ہوں (میرا مقام یہ نہیں ہے کہ میں ان
چھوٹے کھلونوں سے دل بہلاؤں ) ۔ اس نظر نے وہ زاویہ دیکھا جو حقیقت شناسا
تھا اور اِس آمنے سامنے (Face to Face)کے زاویہ نے شیر کو اُس کی اصلیت اور
اُس کا مقام بتا دیا۔ (جاری) |