حقیقت میلاد النبی - حصہ دوم

اس کائناتِ انسانی پر اﷲ رب العزت نے بے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے۔ انسان پر بے پایاں نوازشات اور مہربانیاں کیں اور یہ سلسلہ ابد الاباد تک جاری و ساری رہے گا۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دوسری سے بڑھ کر ہے لیکن اس نے کبھی کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں لذت و توانائی سے بھرپور طرح طرح کے کھانے عطا کیے مگر اس کا کوئی احسان نہیں جتلایا، پینے کے لیے خوش ذائقہ مختلف مشروبات دیے، دن رات کا ایک ایسا نظام الاوقات دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا ہے، سمندروں، پہاڑوں اور خلائے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکھا، والدین، بہن، بھائی اور اولاد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی، عالمِ اَنفس و آفاق کو اپنی ایسی عطاؤں اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم ان کا ادراک کرنے سے بھی قاصر ہیں لیکن ان سب کے باوجود اس نے بطور خاص ایک بھی نعمت کا احسان نہیں جتلایا کہ وہ رب العالمین ہونے کے اعتبار سے بلاتمیز مومن و کافر سب پر یکساں شفیق ہے اور اس کا دامنِ عاطفت ہر ایک کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ایک نعمت ایسی تھی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے حریمِ کبریائی سے نوعِ اِنسانی کی طرف بھیجا تو پوری کائناتِ نعمت میں صرف اس پر اپنا اِحسان جتلایا اور اس کا اظہار بھی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہلِ ایمان کو اس کا احساس دلایا۔ مومنین سے روئے خطاب کر کے ارشاد فرمایا :

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.

القرآن، آل عمران، 3 : 164

’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا۔‘‘

اِسلام میں اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں اور اُس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودیت و بندگی ہے، لیکن قرآن نے ایک مقام پر اس کی جو حکمت بیان فرمائی ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ ارشاد فرمایا :

لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌo

إبراهيم، 14 : 7

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اِضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘

اِس آیتہ کریمہ کی رُو سے نعمتوں پر شکر بجا لانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ پھر نعمتوں پر شکرانہ صرف اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہی واجب نہیں بلکہ اُمم سابقہ کو بھی اس کا حکم دیا جاتا رہا۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 47 میں بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلائی گئی جس کی بدولت انہیں عالم پر فضیلت حاصل ہوگئی اور پھر اس قوم کو فرعونی دور میں ان پر ٹوٹنے والے ہول ناک عذاب کی طرف متوجہ کیا گیا جس سے رہائی ان کے لیے ایک عظیم نعمت کی صورت میں سامنے آئی۔ اِس کے بعد فرمایا :

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ.

البقرة، 2 : 49

’’اور (اے آلِ یعقوب! اپنی قومی تاریخ کا وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں اِنتہائی سخت عذاب دیتے تھے۔‘‘

اِس قرآنی اِرشاد کی روشنی میں غلامی و محکومی کی زندگی سے آزادی بہت بڑی نعمت ہے جس پر شکر بجا لانا آنے والی نسلوں پر واجب ہے۔ اِس سے اِستدلال کرتے ہوئے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قومی آزادی کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی نعمتِ غیر مترقبہ سمجھیں اور اس پر شکرانہ ادا کریں۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ اِس اَمر پر شاہد ہے کہ نعمت کے شکرانے کے طور پر باقاعدگی کے ساتھ بالاہتمام خوشی و مسرت کا اظہار اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ نسلوں کو اِس نعمت کی قدر و قیمت اور اَہمیت سے آگاہی ہوتی رہے۔

یوں تو اِنسان سارا سال نعمتِ اِلٰہی پر خدا کی ذات کریمہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے لیکن جب گردشِ اَیام سے وہ دن دوبارہ آتا ہے جس میں من حیث القوم اس پر اﷲ تعالیٰ کا کرم ہوا اور مذکورہ نعمت اس کے شریک حال ہوئی تو خوشی کی کیفیات خود بخود جشن کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

قرآن مجید نے دیگر مقامات پر خاص خاص نعمتوں کا ذکر کر کے ان ایام کے حوالے سے انہیں یاد رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پھر نعمتوں پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا سنت انبیاء علیھم السلام بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے لیے نعمتِ مائدہ طلب کی تو اپنے رب کے حضور یوں عرض گزار ہوئے :

رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ.

القرآن، المائدة، 5 : 114

’’اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید (یعنی خوشی کا دن) ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور (وہ خوان) تیری طرف سے (تیری قدرتِ کاملہ کی) نشانی ہو۔‘‘

قرآن مجید نے اس آیتہ کریمہ کے ذریعے اپنے نبی کے حوالے سے اُمتِ مسلمہ کو یہ تصور دیا ہے کہ جس دن نعمتِ اِلٰہی کا نزول ہو اس دن جشن منانا شکرانہ نعمت کی مستحسن صورت ہے۔ اِس آیت سے یہ مفہوم بھی مترشح ہے کہ کسی نعمت کے حصول پر خوشی وہی مناتے ہیں جن کے دل میں اپنے نبی کی محبت جاگزیں ہوتی ہے اور وہ اِس کے اِظہار میں نبی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ کی کسی نعمت پر شکر بجالانے کا ایک معروف طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان حصولِ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ اس کا دوسروں کے سامنے ذکر بھی کرتا رہے کہ یہ بھی شکرانہ نعمت کی ایک صورت ہے اور ایسا کرنا قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ثابت ہے:

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْO

الضحی، 93 : 11

’’اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریںo‘‘

اِس میں پہلے ذکرِ نعمت کا حکم ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کو دل وجان سے یاد رکھا جائے اور زبان سے اس کا ذکر کیا جائے لیکن یہ ذکر کسی اور کے لیے نہیں فقط اﷲ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اس کے بعد تحدیثِ نعمت کا حکم دیا کہ کھلے بندوں مخلوقِ خدا کے سامنے اس کو یوں بیان کیا جائے کہ نعمت کی اَہمیت لوگوں پر عیاں ہوجائے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ذکر کا تعلق اﷲ تعالیٰ سے اور تحدیثِ نعمت کا تعلق مخلوق سے ہے کیوں کہ اس کا زیادہ سے زیادہ لوگوں میں چرچا کیا جائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا :

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِO

البقرة، 2 : 152

’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور (میری نعمتوں کا) اِنکار نہ کیا کروo‘

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103474 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.