فتنہ قادیانیت کے تعاقب میں حضرت درخواستیؒ کی خدمات
تحریر : سعید الرحمن درخواستی
انگریز کا خود کا شتہ پودا مرزا غلام احمد قادیا نی جھوٹی نبوت کا لباس پہن
کر جب سامنے آیا اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی امت کو اپنے دام تزویر
میں پھانسنے کی کو شش کا آغاز کیا ملت بیضاء دین حنیف اور شریعت محمدیہ (علی
صاحبہا الصلوة السلام ) کے مسلمہ اصول و کلیات کی عمارت کو دجل و تلبیس کے
زہر آلود نشتر چبھوکر دراڑیں ڈالنے کی ناپاک سعی کی ابتدا کی تو علما ءحقہ
کمر کس کر مرزا کے مقابلے میں نکل آئے، ہر طرح سے اس کا ناطقہ بند کرنے کا
عزم لے کر اس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
قصر ختم نبوت پر ڈاکا ڈالنے والے اس عالمی ڈاکو کو ناکو ں چنے چبوادیئے اور
اس کی جھوٹی نبوت کے پر خچے اڑادیئے ۔ مولانا ثناءاللہ امر تسریؒ، پیر مہر
علی شاہ گولڑویؒ، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، مولانا ابو القاسم
رفیق دلاوریؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا سید عطاءاللہ شاہ
بخاریؒ اور مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہم کے کار نا مے آج بھی
زینت اوراق ہیں۔ انہیں علما ئے ربانیین کے قافلہ میں سے شیخ الاسلام حافظ
الحدیث والقرآن حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ بھی تھے
۔
احادیث نبویہ سے قلبی لگاؤ
حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی نور اللہ مرقدہ کو خلًاق عالم نے زما نہ
طالب علمی میں ہی حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی سر کار دو
عالم ﷺ سے عشق و محبت فریفتگی وشیفتگی اس قدر عطا فر ما ئی تھی کہ احادیث
نبویہ (علی صاحبہا الصلوة والسلام ) کو حرز جان بنا کر سینے میں لفظ بلفظ
محفوظ کرنے کی کو شش شرو ع کر دی روزانہ جتنی احادیث ازبر ہو جا تیں شام کو
قطب الاقطاب عارف دین حضرت خلیفہ غلام محمد نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں جا
کر سناتے اور اپنے شیخ روحانی کی ڈھیروں دعاؤں سے بہرہ مند ہوتے حضرت ؒ جب
اپنے مخصوص انداز میں یہ شعر پڑھتے
ومن مذہبی حب النبی وحدیثہ
وللناس فیما یعشقون مذاھب
تو ایسا عجیب سماں بند ھتا کہ سامعین کے دل میں عشق رسول ﷺ کی چنگاریاں
بھڑک اٹھتیں المتبنی القادیانی علیہ ما علیہ کا فتنہ جب عوام الناس میں
انگڑایئاں لینے لگا تو حضرت درخواستی ؒ بھی علماءربانیین کے ساتھ اس فتنے
کو زمین بوس کرنے کے لیے شمشیر برہنہ بن کر میدان عمل میں کود پڑے راقم
الحرو ف اب آپکے سامنے حضرت ؒ کی اس فتنہ سیئہ کے خلا ف کی گئی جد و جہد کا
مختصر سا خا کہ پیش کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد عبد اللہ در خواستی ؒ ان نفوس قدسیہ سے تھے
جنہیں رب ذوالجلال نے اپنے دین متین کی آبیاری اور خدمت کے لیے پیدا فر
مایا تھا وہ صاحب کشف بزرگ تھے شریعت محمدیہ (علی صاحبھا الصلوة والسلام)
کی پابندی ان کی طبیعت ثانیہ تھی اللہ رب العزت نے ابتدا سے ہی ان کو ایسا
ماحول میسر فر مایا تھا جو ہمہ گیر دینی جد و جہد کا ماحول تھا۔ بر صغیر
میں دارالعلوم دیوبند کا نشان اور اس کی عظیم روایات کا حامل و وارث اور
تحریک شیخ الہند کا جنوبی پنجاب میں مرکز دین پور شریف تھا، حضرت درخواستی
ؒ کو دین پور کی نسبت نے اکابر علما ءدیو بند کی فکر جد و جہد دینی حمیت کی
روایات کا امین اور پا سبا ن بنادیا۔
معرکہ حق و باطل میں آپ کی آمد کا سبب
تقسیم پاکستان سے قبل ریا ست بہاولپور میں حضرت مولانا الہی بخشؒ (جو کہ
حضرت ؒ کے استاد تھے )کی صاحبزادی عائشہ کا نکاح عبد الرزاق نامی شخص سے
ہوا جو کہ بعد میں مرتد ہو کر قادیانی مذہب میں داخل ہوگیا تھا۔ مولانا
الہی بخش مرحوم ثقہ عالم اور بزرگ تھے وہ اس نکا ح کو عدالتی سطح پر فسخ
کرانا چاہتے تھے مگر عدالتی چکرو ںمیں کبھی پڑے نہ تھے حضرت درخواستی ؒ اس
وقت بستی" درخواست" میں تدریسی اور تبلیغی خدمات میں مشغول تھے ۔مولانا
الہی بخش ؒ نے اپنے شاگردرشید کو اس واقعہ کی اطلاع دی، حضرت درخواستی ؒ
تمام مصروفیات چھوڑکر استاد محترم کی خدمت میں پہنچے استاد محترم نے ساری
صورتحال سے آگا ہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ روزبروز مخالفین کا دباؤ بڑھتا
جارہا ہے حضرت ؒ نے در پیش مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر استاد محترم کی حمایت
میں ہمت باندھ لی اور مولانا الہی بخش ؒ کو ساتھ لے کر قطب الاقطاب حضرت
مولانا خلیفہ غلامحمد دین پوری ؒ کی خدمت میں دین پور شریف حاضر ہوئے اور
تنسیخ کا مقدمہ درج کرانے کی اجازت چاہی۔ حضرت دین پوری ؒ نے اجازت دے دی
اور کامیابی کے لیے دعا بھی فرما ئی ۔ بھا ولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ
میں مقدمہ درج کرادیا گیا ۔ حضرت درخواستی ؒ تمام مصروفیا ت ترک کرکے اس
کیس کی پیروی میں لگ گئے، مقدمہ درج کرانا ،اس کی تاریخیں بھگتنا اور کیس
کی نگرانی کرنا ان تمام امور کو اول سے آخر تک حضرت ؒ نے اپنے ذمہ لے لیا۔
مقدمہ کی نوعیت کچھ اس طرح تھی کہ کافی دن بحث و مباحثہ ہوتا رہا، مخالفین
نے کیس خارج کرانے کی بے حد کو شش کی مگر حضرت ؒ نے ایسے ٹھوس اور مضبوط
دلائل عدالت میں پیش کئے کہ بلآخر جج صاحب کو یہ کیس مجبورا بہاولپور کی
مرکزی عدالت میں منتقل کرنا پڑا، جہاں حضرت مولانا محمد صادق مرحوم (جو
ہمارے علاقے کی بہت بڑی علمی شخصیت تھی جن کا حضرت ؒ سے گہرا تعلق تھا )اور
شیخ الجامعہ مولانا غلام محمد مرحوم جیسی یکتائے روزگار شخصیات بھی موجود
تھیں۔ حضرت ؒ نے ان حضرات سے گزارش کی کہ اس کیس کو آپ اپنی سرپرستی میں لے
لیں جسے دونوں بزرگوں نے قبول کرلیا حضرت ؒ کے ذمہ اس مقدمہ کی تشہیر کرنا
اور ہندوستان کی ریاستوں، خانقاہوں اور مدارس سے فتاویٰ حاصل کرنا اور بحث
و مباحثہ کے لئے اس وقت کے جید اور مستندکبار علما ءکو مقدمہ کی اہمیت سے
آگا ہ کرنا تھا۔
مقدمہ بہاولپور میں حضرت ؒ کا تاریخی کردار
بہاولپور کے علما ءکرام کی خدمات : دارالعلوم دیوبند سے امام المحدثین حضرت
مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد
شفیعؒ، مولانا مرتضی حسن چاند پوریؒ اور مولانا ابوالوفا شاہجہان پوری قدس
سرہم جیسی برگزیدہ شخصیا ت کو بلوانا عدالت میں ان حضرات کے بیانات کروانا
، دینپور شریف سے حضرت غلام ٘ محمد دینپوریؒ کی تشریف آوری، کوٹ مٹھن کی
خانقاہ کے سجادہ نشین کی خدمات، حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی اور مولانا
محمد صادق مرحوم کی دلچسپی ان تمام امور میں حضرت درخواستی ؒ نے مرکزی
کردار ادا کیا ۔
آپؒ کو رب ذوالجلال نے محنت وایثار کی صفات سے نوازاتھا ، حوالہ جات کی تلا
ش کے لئے آپ کے بے پناہ حافظہ نے تمام مشکلا ت کو حل کردیا ، انہیں خدمات
اور صلا حیتوں کے باعث آپ تمام اکابر علماءکی آنکھوں کا تارا بن گئے تھے۔
یہ۱۹۲۵ تا ۱۹۳۶ء کے گیارہ سالوں کی بات ہے آپ کی تمام تر صلا حیتیں اس کیس
کے لئے وقف رہیں ، اس کیس کی پیروی کے سلسلے میں امام المحدثین حضرت مولانا
انور شاہ کشمیری ؒ جب بہاولپور تشریف لائے، ان کی خدمت حضرت ؒ نے اپنے ذمہ
لے لی، اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے حضرت درخواستی ؒ نے حضرت کشمیری ؒ سے
شرف تلمذ بھی حاصل کیا ۔ آپ نے بخاری جلد اول (مکمل )سناکر خصوصی سند حاصل
کی۔
زمانہ طالب علمی سے احادیث مبارکہ سے قلبی لگاؤ اور صحاح ستہ کے مکمل سند
کے ساتھ حفظ ہونے کی سعادت اور بر کت کیوجہ سے حضرت کشمیری ؒ سے حافظ
الحدیث کا خطا ب حاصل کیا ان ایام میں حضرت کشمیریؒ بیمار تھے اس کے باوجود
عدالت میں جاکر ایسے براہین قاطعہ پیش فر مائے جس سے مختار مدعی علیہ جلال
الدین شمس (قادیانیوں کا وکیل ) کے پاؤں اکھڑگے ، حضرت ؒ نے ایک مر تبہ
فرمایا کہ حضرت شاہ صاحب ؒ کے دلائل قاطعہ سننے کے بعد ہمیں فتح کا یقین
ہوگیا تھا انشاءاللہ یہ کیس ہم جیت جائیں گے۔ ہندوستان واپسی کے وقت حضرت
شاہ صاحب ؒ نے ارشاد فرمایا کہ اس کیس کا فیصلہ اگر میری زندگی میں نہ ہو
سکے تو میری وفات کے بعد میری قبر پر ضرور سنایا جائے، آپ کی اس آرزو کو
پورا کرنے کےلئے حضرت مولانا محمد صادق مرحوم نے (تاریخی فیصلہ جس میں
قادیانیوں کو مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا تھا کے بعد )
دیوبند میں حضرت شاہ صاحب ؒ کے مزار پر جا کر مقدمے کا فیصلہ سنایا پوری
دنیا میں یہ اعزاز (ریاست بہاولپور ) کی اسی عدالت کوحاصل ہے جس نے
مرزائیوں کے ارتداد کا سب سے پہلے فیصلہ سنایا۔
حرمت نبی ﷺ پر سب کچھ قربان
اس مشہور مقدمہ بہاولپور میں فاضل جج فریقین کے اور علما ءکے بیانات سن کر
ایک نتیجہ پر پہنچ گے تھے اور اس فتنہ سیہ کی حقیقت ان پر آشکار ا اور روز
روشن کی طرح واضح ہوچکی تھی مگر فیصلے کا اعلان کرنے میں اس خیال سے متردد
اور تذبذب کا شکار تھے مبادا بقول علامہ شورش کاشمیری انگریز کے ایجنٹ اور
خود ساختہ پودے کو غیر مسلم قرار دینے پر انگریزی حکومت ریاست بہاولپور کو
نقصان نہ پہنچائیں یہ خبر جب والی ریاست بپاولپور نواب صادق صاحبتک پہنچی
تو انہوں نے جج صاحب سے بغیر کسی خوف و خطر کے ببانگ دہل یہ فرمایا کہ آپ
قادیانیوں کو علاالاعلان غیر مسلم قرار دیں اگر صادق کی ایک کیا ہزاروں
ریاستیں بھی سرکا ر محمد ﷺ کی نبوت کے تحفظ میں قربان ہو جا ئیں تو یہ میرے
لئے سب سے بڑی سعادت کی بات ہوگی اور مجھے کوئی پرواہ نہیں پھر کیا وہ
تاریخی فیصلہ جب سامنے آیا جس کے نتیجے مین انگریز کے خود کا شتہ پودے
قادیانیوں کو پوری دنیا میں خائف و خاسر ہونا پڑا اور آخر کار (۷ ستمبر
۱۹۷۴ء) کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پار لیمنٹ کے تاریخ ساز فیصلے کی رو
سے قادیانی غیر مسلم اقلیت قرارپائے (۱۹۲۵ء سے لے کر۱۹۶۳ء) تک آپ مسلسل
تحفظ ختم نبوت کے لئے کام کرتے رہے ۱۹۷۴ء میں آپ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا
جس کی وجہ تحفظ ختم نبوت کی خدمات بتائی جاتی ہے (۱۹۵۲ء) میں آپ حج پر
تشریف لے گئے مدینہ منورہ جا کر روضہ اقدس پر حاضر ہو کر مراقب ہوئے اور
مدینہ میں رہنے کی اجازت چاہی رات کو خواب میں حضور ﷺ کی زیارت سے مشرف
ہوئے حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ پاکستان میں میری نبوت کو چیل اور کتے نوچ
رہے ہیں ان سے تحفظ ختم نبوت کے لئے مقابلہ کرو اور میرے نواسے عطاءاللہ
شاہ بخاریؒ کو بھی میرا پیغام پہنچا دو اس کے بعد آپ فورا واپس پاکستان
تشریف لائے اور خان گڑھ میں جاکر حضرت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو حضور کا
پیغام اور سلام پہنچایا۔
۱۹۵۳ء میں مشہور زمانہ تحریک ختم نبوت کے الاو کو جلا بخشا ہمہ تن تحریک کی
کامیابی کے لئے مصروف عمل رہے آپؒ نے تقریروں کے ذریعے بلا مبالغہ ہزاروں
شاگردوں و متعلقین کو گرفتاری پیش کرنے کے لئے کراچی بھیجا جب تمام سرکردہ
رہنماء کراچی میں گرفتار ہو گئے تو آپؒ نے تحریک کو اپنے وجود سے ایسا
سہارا دیا جس سے حکو مت زچ ہو ئی، قید و بند کی صعوبتوں کی پرواہ کئے بغیر
منزل کی طرف اپنے سفر کو جاری رکھا اور آخر وقت تک تحریک کے لئے بہادر
جرنیل کی طرح مورچہ زن رہے۔
۱۹۵۴ء میں تحریک ختم نبوت کے بعد جب مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی گئی
تو آپ نے اس کی سر پرستی فر مائی۔ چونکہ اکابرین مجلس امیر شریعت سید
عطاءاللہ شاہ بخاریؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا قاضی احسان احمد
شجاع آبادیؒ، مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر قدس سرہم کے ساتھ حضرتؒ کا
خصوصی تعلق تھا اس لئے کوئی اہم ختم نبوت کی کانفرنس ایسی نہ ہو تی تھی جس
میں آپکی صدارت و شرکت نہ ہو کوئی ایسا امر نھیں ہوتا تھا جس میں آپ کا
مشورہ شامل نہ ہوتا ہو ہمیشہ عالمی مجلس ختم نبوت کے مبلغین کی سر پرستی فر
مائی، مبلغین کو پند ونصائح سے نوازتے اور ان کے کام کی نگرانی فرماتے۔
اپریل ۱۹۶۵ء میں تغلق روڈ ملتان پر آپ نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مر
کزی دفتر کا سنگ بنیاد رکھا اس تقریب میں تمام اکابرین تشریف فرما تھے۔ آپ
نے اپنے تمام حلقہ اثر کو اس نیک مقصد اور مشن کے لئے ہمہ وجود متوجہ
فرمایا۔
پروانہ ختم نبوت کی سر پرستی
حاجی محمد مانکؒ نے کرو نڈی ضلع خیرپور میں عبدالحق نامی قادیانی کو اس کی
رحمت اللعلمین ﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دھنی پر جہنم رسیدکیا حاجی صاحب پر
کیس چلا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اس کیس کی پیروی کی۔ ابتدائے کیس سے
فیصلہ تک ہر اھم امر میں حضرت درخواستیؒ کا مشورہ شامل رہا۔ مجاھد ملت
مولانا محمد علی جالندھریؒ مقدمہ کی پیروی کے لئے ہر پیشی پر حضرتؒ کو اپنے
ھمراہ لے جا تے تھے۔ حضرتؒ کی دینی سقاہت و وجاہت نے اس کیس کو ملک بھر میں
مشہور کردیا۔ حضرتؒ کے ھر قسم کے تعاون وسرپرستی میں مقدمہ کے ضمن میں
درپیش مسائل ومشکلات کو حل کردیا تا آنکہ قدرت نے فضل فرمایا اور حاجی
صاحبؒ کو سزائے موت نہ ہو سکی معمولی سزا کاٹ کر جیل سے بخیر و عافیت رہا
ہو گئے۔ ان کی رہا ئی کے وقت بھی حضرتؒ بنفس نفیس جیل کے دروازے پر استقبال
کے لئے تشریف فرما تھے۔
قادیانی فتنہ سے ملک کے گوشہ کی حفاظت
اس طرح ایبٹ آبادکو مرزائیوں نے پرو گرام کے تحت اپنا مرکز بنانا چاہا تو
ان کی سر کو بی کے لئے حضرتؒ وہاں تشریف لے گئے اور حاجی ناول خان کو
فرمایا کہ "دشمنان خاتم النبیینﷺ ایبٹ آباد کو مرکز بنا کر یہا ں کے سادہ
لوح عوام کو گمراہی کی دلدل میں پھنسانا چاہتے ہیں یہ تمہارے عشق رسول کا
امتحان ہے کہ ان کے پاؤں یہا ں جمنے نہ دو" اس کے جواب میں چند شیدائیوں نے
مسلح ہوکر ان سے مقابلہ کیا جس کی وجہ سے پانچ چھ مرزائی واصل جہنم ہو گئے
مقدمات بھی چلے مگر حضرتؒ کی دعاﺅں اور مخلص ساتھیوں کی کوشش سے سب ان
مقدمات سے بری ہو گئے اس کے بعد قادیانیوں نے بلوچستان کی طرف رخ کر کے
کوئٹہ کو اپنا مرکز بنانا چاہا اور وہاں بڑے منظم انداز میں گمراہ کن
لٹریچر تقسیم کرنا شروع کردیا حضرتؒ کو اس کا علم ہوا تو ان کی بیخ کنی کے
لئے تشریف لے گئے آپؒ کی تقریرو ں سے متاثر چند جواں ہمت مسلمانوں نے
قادیانیوں کے سر غنہ پر قاتلانہ حملہ کر کے اس کی انتڑیاں نکال دیں جس کی
وجہ سے یہ فتنہ کوئٹہ میں ختم ہوگیا اس کے بعد قادیانیوں کو بلوچستان کا رخ
کر نے کی جرأت نہ ہو سکی۔
حضرتؒ نے اپنے ادارہ جامعہ عربیہ مخزن العلوم خانپور کو ختم نبوت کی خدمات
کے لئے پیش پیش رکھا، سالانہ جلسے پر جماعت کے تمام رہنماؤں مبلغین کو دعوت
دیتے تھے ہر سال دورہ تفسیرالقرآن الکریم کے موقع پر مولانا لال حسین اخترؒ
کو بلواکر رد قادیانیت کے لئے خصوصی لیکچروں کا اہتمام فرماتے اور اب بھی
ہر سال رد قادیانیت اور رد عسائیت کے موضوع پر دورہ حدیث اور تخصص فی الفقہ
کے طلباءکو لیکچر دینے کے لئے جماعت کے مرکزی مبلغین تشریف لا تے رہتے ہیں
۔
الغرض ہر موقع پر ختم نبوت کے کام کرنے والے رہنما ﺅ ں وکا رکنوں کو حضرتؒ
کا تعاون وسر پرستی حاصل رہی خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع
آبادی مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری اور مناظراسلام مولانا لال حسین
اختر قدس سرہم (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے تینوں امراء)کی نماز جنازہ
حضرتؒ نے پڑھا ئی پورے ملک میں کراچی سے لے کر خیبر تک خود اور اپنی جماعت
جمعیت علماءاسلام کے ہر خورد وبزرگ کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے وقف
کردیا۔ آپؒ کی ہمہ گیر شخصیت دینی وجاہت اور جمعیت علماءاسلام کی طاقت کا
حکومت کو علم تھا کوئٹہ اور ایبٹ آباد میں قادیانی مرکز کی تعمیر کے خلاف
آپکے کار کنوں کے جذبات اور آپ کے حکم کی تعمیل کا منظر حکومت دیکھ چکی تھی
آپ نے ۱۹۷۴ء میں تحریک ختم نبوت کو اس آب وتاب سے پورے ملک میں آراستہ کیا
کہ بلاآخر تحریک کامیاب ہوئی اور قادیانی ملکی عدالتی اور پارلیمانی سطح پر
کافر قرار دیئے گئے ۔
دم واپسیں تک دینی خدمات
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نئے مرکز ی دفتر حضوری باغ روڈ ملتان کی تکمیل
کے بعد آپ بیماری کے باوجودتشریف لے گئے دفتر میں موجود رفقاءکو تحریک کی
کامیابی پر مبارکباد دی اور مزید کچھ نصیحتوں سے نوازا غر ضیکہ جس طرح درس
وتدریس و عظ و تبلیغ سیاست و امامت ہر محاذ پر آپ نے امت کی قیادت فرمائی
اور اسی طرح ہر بے دین فتنے کی بیخ کنی کی آپ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے
قائد و جر نیل تھے اور اس نظریئے پر کام کرنے والوں کے محسن و مربی تھے
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت آپ کی روایات کی امین اور آپ کا صدقہ جاریہ ہے -
آخر کار بذن الہی ختم نبوت کا بطل جلیل تمام عمر خاتمی مرتبت کے تاج ختم
نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے دین پور شریف کی مدفن اولیاءوصلحاءکی زمین پر (28
اگست 1994 ء) کو ہمیشہ کے لئے آسودہ خاک ہوگئے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را |