حرمین شریفین جا کرعبادت و ریاضت ضرور کریں، ان مقامات
مقدسہ کی زیارتوں سے خوب خوب مستفید ہوں، لیکن ان کے آداب،ان کے منعلق
معلومات اورمسائل ودیگر چیزیں بحسن وخوبی ذہن نشیں فرماکر وہاں جائیں ،
تاکہ ان کے جانے سے وہاں راحت ہو، ورنہ بصورتِ دیگر اہل حرم کے لیے وبالِ
جاں نہ بنیں،ان کے لیے مشکلات ومصائب کا باعث نہ ہوں، حرمین و اہل حرمین کو
کچھ دیکر آئیں، نہ یہ کہ وہاں کے اسفار دنیوی مال ومتاع بٹورنے کے لیے ہوں،
وہاں کے رفاہی منصوبوں، تعلیمی اداروں، اور سرکاری پالیسیوں، قوانین اور
نظم وضبط میں ان کے ساتھ مختلف النوع تعاون اور امداد کے لیے اپنے تن من
دھن واریں، تاکہ اس طرح ہم سب حرمین کو ان کے بین الأقوامی مرکزیت ومرجعیت
میں ان کا صحیح اور جائز مقام و مرتبہ دلاسکیں، اور اس حوالے سے اپنا خفیف
ہی سہی پوراوزن ڈال سکیں۔ نیز حرمین شریفین جانے والوں سے یہ بھی گذارش ہے
کہ جانے سے قبل عربی زبان کے کچھ ضروری جملے اور اس سفر کے لازمی اصطلاحات
کو بھی از بر کریں۔ جمعہ وعیدین کے اجتماعات کے لئے اسلام میں جس طرح
پاکیزگی ، شائستگی اور نظافت ونفاست کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ، یہاں کے
لیے بھی ان کو ضروریات میں سے گردانا جائے، کہ یہاں سے بڑھ کر اجتماعات
کہاں ممکن ہیں !!!!!!
٭ کچھ ممالک اپنے حجاج و معتمرین کی صحیح تربیت کراکے انہیں حرمین روانہ
کرتے ہیں، لیکن بَرِّ صغیر کے خطّے کے ممالک ایسا نہیں کرتے ،یہ قابلِ
تشویش ہے ۔ نیز سعودی حکومت، رابطۃ العالم الإسلامی، جامعہ اسلامیہ مدینہ
منورہ ، جامعہ ام القریٰ وغیرہ کو مل کر یہاں ڈیوٹی پر مامور جمیع موظفین
کی ہمہ جہتی ٹریننگ وتربیت کرنی چاہیے، تاکہ وہ ان زائرین کی صحیح خدمت و
رہنمائی کرسکیں، جن میں سے بہت سوں نے نہ دنیا اس سے قبل دیکھی ہوتی ہے، نہ
ہی حرمین ،اور یوں وہ سہمے ہوئے ، ڈرے ہوئے اور بدکے ہوئے چڑ چڑے سے ہوتے
ہیں، ان میں خواتین ، بوڑھے اوربچے زیادہ قابلِ رحم وشفقت اورقابل توجہ
ہوتے ہیں۔
٭ اہل علم کو یہاں کے علماء، دینی اداروں اورمشایخ وبزرگوں کی خدمت میں بھی
جانا چاہیے ،تاکہ ان سے کسبِ فیض کرسکیں، ان کی حوصلہ افزائی کرسکیں، ان کی
خدمت کرسکیں اور ان سے عالم اسلام کے مسائل شِیَر کرسکیں۔باہر سے آنے والے
علماء کرام ومشایخ ِعظام کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنی علاقائی ، قومی ،
مسلکی اور مشربی آرا ء وافکار کا زیادہ پرچار حرمین میں نہ کریں، بلکہ
حرمین کے علماء کی آراء وافکار کا احترم کرتے ہوئے انہیں کی طرف لوگوں کو
یہاں متوجہ کرائیں ۔ بعض مرتبہ دیکھاگیاہے کہ مسلم اقلیات میں بھی بجائے اس
کے کہ اسلام کا مجموعی پیغام پھیلایاجائے، اپنے اپنے مسالک ومکاتب فکِر کے
مخصوص نظریات کی نشرواشاعت کا اہتمام ہوتاہے۔ جس سے وہاں کی قلیل تعداد
مسلمانوں بھی میں ناگفتہ بہ چپقلشیں بسااوقات رونماہوتی ہیں،جن کا سدِّ باب
بھی بعض اوقات ناممکن ہوجاتاہے۔برصغیر اور بعض دیگر مسلم ممالک کے کچھ علما
ایسے ہیں جو حرمین اور ارضِ حرمین میں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کے لیے
کوشاں رہتے ہیں ،جس کی وجہ سے حج کے موسم میں بطورِ خاـص اور دیگر اوقات
میں بالعموم بدگمانیوں کاشائبہ ہوجاتاہے،اس قسم کے لوگوں سے ہمارے لیے
دوقسم کے نقصانوں کے اندیشے ہیں :
_1ان اکابر سے مشایخ ِعرب کا بدظن ہونا۔
_2ان سے علمائے حرمین شریفین کے بارے میں تذبذبات کا شکار رہنا۔
گویا مذکورہ بالا حضرات تعلقات کے انقطاع میں دودو ھاری تلوار کی طرح کام
آتے ہیں۔
٭ عالم عرب اور بالخصوص ارضِ حرمین میں موجود ہمارے علماء وفضلاء میں
اکثریت ان حضرات کی ہے جو عربی زبان وأدب سے کماحقہ نابلدہوتے ہیں ،جس کی
وجہ سے ان کی شہرت و پذیرائی وہاں سوالیہ نشان بنی رہتی ہے ،بعض اوقات یہ
بھی ہوتاہے کہ عرب دنیا کے اہل علم ودانش اپنی قومی ترقیوں کی وجہ سے
انتہائی ایڈوانس اورترقی یافتہ ہوتے ہیں، اور ظاہر ہے اس سے ان کی فکر میں
جدت وندرت کا واقع ہونا ایک فطری عمل ہے، جبکہ ہمارے بعض احباب میں فرسودگی
اور فکری بوسیدگی ہوتی ہے،عرب علماء اکثر جہاں دیدہ، گلوبل اور اور عالم
گیر ہوتے ہیں ، جبکہ ہمارے ساتھی ایک مخصوص ومحدود قسم کی فکر وفلسفے اور
مخصوص ومحدودقسم کی اصطلاحات و لہجے کے پابند ہوتے ہیں ،یہ چیزیں بھی ہمارے
ساتھیوں کی قبولیت و مقبولیت میں رکاوٹ بنتی ہیں۔
٭ عرب حضرات کی نگا ہیں اکثر قرآن وحدیث کی نصوص وعبارات پر ہوتی ہیں ،
استدلال واستشہاد میں بھی یہی چیز ان کے یہاں نمایاں ہوتی ہے،جبکہ بدقسمتی
سے ہمارے بعض دوست اس کے مقابلے میں اکابر کی عبارات و ملفوظات پیش کرتے
رہتے ہیں، جس سے کہیں کہیں تقابل وتعارض کی صورت پیداہوجاتی ہے۔ مثلاًہم یہ
خیال کرتے ہیں ، کہ ہماری وہ حکمت عملی جو ہمارے مشایخ نے یہاں برصغیر پاک
وہند اور پڑوسی ملکوں میں قرونِ وسطیٰ میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے
اور مسلمانوں کی بقا ء کے لئے اپنائی ہوئی ہوتی ہے، وہ ہر وقت ،ہر علاقے
اورہرقوم کے لئے ہے، اور اس پر سختی سے کار بند رہناہے، جبکہ درحقیقت وہ شی
ہرزمان ومکان کی نہیں ہوتی،مثلاً: ذکر بالجہر غیر مسلم علاقوں میں بعض
اذکارکی تعلیم ، تلقین، تحفیظ اور خاص ماحول کے انشاء کے لئے نسخہ اکسیر ہے،
مگر حرمین میں اگر اس کے حلقے لگ جائیں ،تو اس ے وہاں کتنا خلل ہوگا، واضح
سی بات ہے !!!!ملنگی اور درویشی کی بعض مخصوص صورتوں میں ہمارے مشایخ اور
دیگر بڑے اولیاء اﷲ جیسے داتا گنج بخش، نظام الدین اولیاء ، بہاء الدین
زکریا، لعل شہباز قلندر، پیر بابا، پیر مہر علی شاہ گولڑوی وغیرہ نے جو
مبنی بر مصالح ِدینیہ اپنی اپنی حکمت عملیاں مرتب کیں ،جس سے ان علاقوں میں
ان کے ایک ایک کے ہاتھوں لاکھوں لوگ مشرف باسلام ہوئے ، کیا بعینہ وہی
طریقے آج بھی ہر دم ہر قدم اسی طرح نافذ کئے جائیں؟؟ کیا آج بھی مجمع بنانے
کے لئے ڈگ ڈگی بجائی جائے؟؟ لنگر بانٹے جائیں ؟؟ قوالیاں کی جائیں؟؟ یا ان
اسٹراٹیجیز میں زمانے کے تقاضوں کے پیشِ نظر تبدیلی کی اجازت اور گاہے گاہے
ضرورت ہے؟؟
٭ اس دور میں عالم عرب کے علماء وحکام ردّ فِرق کے بجائے ردّادیان و تقریب
بین المذاہب الاسلامیہ سے زیادہ حوار و مکالمہ بین الأدیان پرزور دے رہے
ہیں ، تاکہ دنیا کے چپے چپے پر موجود مسلم جماعتوں، تنظیموں، افراد
وخاندانوں کے لئے پرامن بقائے باہمی کے کچھ اسباب مہیاہوں، اور ہم اندرونِ
خانہ تکفیر، تبدیع، تفسیق اور تضلیل وتحمیق پر تُلے ہوئے ہیں ۔ ․․․․․ببین
تفاوتِ راہ از کجاہست تابکجا؟؟؟
٭ ایک کام عرب ملکوں، اداروں اورتنظیموں کے کرنے کایہ بھی ہے کہ وہ اپنی
زبان وأدب کے فروغ کے لئے جدید تکنیکی طریقوں کو اپنا ئیں، عالم عرب میں
کام کرنے والے لوگوں کو عربی سکھائیں، صحیح عربی جاننے والوں اور نہ جاننے
والوں کے لئے ویزے اور دیگر مراعات میں واضح فرق رکھیں، تاکہ یوں خود بخود
عالم عرب کی مادیت سے استفادہ کرنے والے مسلم و غیر مسلم یہاں کی زبان
وثقافت کی سیکھنے پر مجبور ہوں، ورنہ ہویہ رہاہے کہ اب عربی زبان بعض شہروں
میں انگریزی اور ہندی کاخلطہ بن چکی ہے کیاانگریزی زبان کے ترویج کے جو
تکنیک آج پوری دنیا میں رائج ہیں، وہ عربی کے احیاء وترویج کے لئے معاون
نہیں ہوسکتے؟؟؟
٭ ہمارے یہاں مُلَقِّبِین ب ’’حضرت،اعلی حضرت، شیخ التفسیر، فقیہ ملت،
علامہ، حجۃ الإسلام، شیخ الإسلام، امام، مجدد، شیخ العرب والعجم کاجب وہاں
تعارف ہوتاہے ،تو آگے سے وہ خطاب و محاضرات تو درکنار عام تکلم کے لئے بھی
فرماتے ہیں :’’ترجمان کہاں ہیں؟‘‘ مشہور صحافی مصطفی صادق صاحب نے مودودی
صاحب کے متعلق اپنے ایک ایسے ہی مشاہدے کا تذکرہ اپنے نوائے وقت کے ایک
کالم میں مذکور کیاہے، اس سے آپ ہمارے یہاں ان القابات کی ارزانی کا اندازہ
بڑی آسانی سے لگاسکتے ہیں۔
٭ عرب لوگ بت پرستی کے سخت ترین مخالف ہیں ، جبکہ ہم اپنے ملکوں میں آئے دن
بدعتیوں اورمشرک نما لوگوں کودیکھ دیکھ کر قبروں اورمزاروں کی پوجاپاٹ سے
مانوس ہوگئے ہیں، اس لئے ہمارے بہت سے حضرات جب حرمین کا سفر کرتے ہیں تو
وہاں مزارات کے انہدام کا رونا روتے
ہیں ، اور بنا بریں آل سعود پر تنقید وتبری کرتے ہیں، سفرنامے لکھتے ہیں،
توبھی یہی موضوع نمایاں نمایاں تحریر میں ہوتاہے، شورش کاشمیری مرحوم
ومغفورجیسے ’’بزرگوں کے مصاحب ‘‘کودیکھئے، اپنے سفرنامے میں یہی رونا روتے
ہیں۔ نیزعرب لوگ طبعاًوفطرۃً آتش پرستی ، مجوسیت، ثنویت اور مانویت کے بھی
شدید تر مخالف ہیں، اورہم ہیں کہ ان کی اصطلاحات دھڑلے سے اپنی تقریر و
تحریر میں استعمال کرتے ہیں ’’فارسی شیریں است ‘‘کا ہمارے اوپرا تنا اثر ہے
کہ جتنا خود عربی کے مقابلے میں انتھائی باریک بینی کے ساتھ اس نعرے کے
لگانے والے چاہتے تھے ، ہماری کتابوں کے نام فارسی میں، مضامین کے عنوانات
فارسی میں ، اور عبارات میں ترکیبِ کلمات تک فارسی دخیل ہے، یہی مرحوم شورش
صاحب جوکہ ختمِ نبوت کے ایک عظیم سپوت تھے، کو لیجئے کہ خود ان کانام
ولقب’’شورش‘‘اورحرمین کے متعلق ان کے سفر نامے کانام ’’شب جائے کہ من بودم‘‘
اردوخواں طبقے کے لئے مکمل وضع قطع کے ساتھ ٹھیٹھ فارسی میں ہیں ،جبکہ ہمیں
اپنا وزن فارسی ، یا اور کوئی بھی زبان جو عربی کے علاقائی، بین الأقوامی
یا کسی اورطور پرمقابل ہوکے بجائے عربی زبان وأدب کے پلڑے میں ڈالنا
چاہیے۔واضح رہے ۔ہم یہ باتیں عربی زبان سے محبت اور اس کے احیاء کے زمرے
میں لکھ رہے ہیں ، نیز ہم بحیثیت ایک مسلمان کے عربی پر کسی بھی زبان کو
فوقیت یاہمسری دینے کے قائل نہیں ہیں،یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم مسلم
اقوام میں سے کسی کی زبان یاتہذیب وثقافت کے مخالف ہیں،حاشا وکلا۔
٭ عرب حضرات مزاجاً وفطرۃً بہادر، سیدھے اورکھرے ہیں، اسلام نے ان کے ان
خوبیوں کودوبالا کردیاہے، جبکہ ایرانی ہندوستانی معاشرے ان کے مقابلے میں
چوں چرا، بے جا تکلفات، القابات، انسان پرستی، غلامانہ ذہنیت ،شخصیت پرستی،
نفاق، بزدلی، جھوٹ، چالاکی، دھوکہ دہی اور بظاہرکچھ اور اندر کچھ کے مسائل
سے دوچار ہیں ۔ صدافسوس یہ کہ ہمارے یہاں کے معاشروں میں ایسی صفات کے
حاملین زیرک اور ہیرو سمجھے جاتے ہیں، جبکہ عربوں کی نظر میں ایسے لوگ’’
زیرو‘‘ ہیں۔
٭ قرآن وسنت اور قرون اولی کی تعلیمات ِ اسلام کو عجمیوں نے دانستہ یا
نادانستہ کا فی نہیں سمجھا، چنانچہ اپنے اپنے علاقائی کچھ رسم ورواج کو
اسلامیات کا حصہ بنایاگیا، ترکوں نے بدعات کا ارتکاب کیا، قبوں شبوں کی خوب
پرورش کی، ان کے دور کی حرمین میں پرانی تعمیرات اس پر شاہد ہیں۔․․․اتراک
نے خلافتِ عثمانیہ کے دور میں عالم اسلام کو تعلیمی لحاظ سے جتنا پسپاکیا،
اتنا شاید ہی کبھی ہواہو، عربوں کو مفتوحہ اقوام کی طرح رکھا،’’ تجہیل
العالم الإسلامی ‘‘کو اپنی خلافت کا ’’رمز سری‘‘ بنایا، اپنی زبان وثقافت
کو عرب زبان وثقافت پر ترجیح دینے میں فارسیوں کا مقابلہ کیا۔ نتیجۃً․․․․․عرب
لٹیرے، ڈاکواور قطاع الطریق بن گئے ، جب انہوں نے دیکھاکہ ترکوں سے خلاصی
ممکن ہے تو اس میں دریغ نہیں کیا، اور خلافتِ عثمانیہ کے بعد اس قلیل مدت
میں عرب اقوام ، زبان، أدب اور تہذیب وتمدن نے جتنی ترقی کی اس کی مثال
نہیں ملتی، اموی اور عباسی ادوار خلافت کے بعد اور اس انفتاح کے دور کے
مابین ایسے لگتاہے کہ عرب قوم گویا مقبور ومدفونتھی، ان حقائق کا ادراک نہ
کرنے سے بھی مشکلات اور الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے
یہاں کی ہے کہ علامہ اقبال مرحوم غلام قادر روھیلہ کو معتوب کرکے کہتے ہیں:
غلام قادر روھیلہ بڑا ظالم تھا
نکالی شاہِ تیمور ی کی آنکھیں نوکِ خنجر سے
اس سے ظاہر بین لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ روھیلہ نے شاہِ تیموری کی آنکھیں نکال
کر بڑا ہی ظلم کردیا، جبکہ اسی حضرت کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ شاہ تیمور جیسے
بظاہر سنجیدہ اور مہذب آقاؤں نے غلام قادر ر وھیلہ جیسے بے چارے ماتحتوں کی
کیا چیزیں نکالیں تھی، اور کس طرح ان کی نصیں اور۔۔۔ کاٹ کر انہیں بے نسل
کردیا تھا۔ ․․یہاں عربوں پر بھی خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا الزام بڑے
زور وسے لگایاجاتاہے، مگر یہ کوئی تحقیق کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ ترکوں
سے اپنے ادوا رمیں عربوں کے حوالے سے کیا کیاسنگین غلطیاں سرزد ہوئیں تھیں:
٭ ایک ستم یہ کہ عربی زبان کی کچھ اصطلاحات ایسی ہین جنہیں عرب لوگ کچھ اور
معنی میں استعمال کرتے ہیں اورہم نے کچھ اور معنی میں لیاہوا ہے، مثلاً:
صداقت ان کے یہاں دوستی اور ہمارے یہاں سچ کے معنی میں ہے اس طرح کے الفاظ
کا مسئلہ تب کھڑاہوتاہے جب ہم عربوں سے گفتگو
کرتے ہیں اور یہ الفاظ اپنے مزعومہ معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔نیز حروف کی
ادائیگی (قاف، کاف، عین، غین، ذال، زاء، ح، خ) حرکات وسکنات کے تلفظ
(مُشاہَدہ، مُشاہِدہ۔ اِنتِخاب، اِنتَخاب۔ وِفاق، وَفاق۔ وُکَلَاء، وُکلاء)
میں بھی ہم مضحکہ بن جاتے ہیں۔․․․․․اصطلاحات ، مثلاً: پاکستان جو ایک
جمہوریہ ہے ہم اسے ہمیشہ مملکت کہتے ہیں، ملت فارسی لفظ ہے ۔
٭ ہم اگر عربی داں بھی بنتے ہیں، یا کچھ ہم عجمیوں میں سے عربی زبان وأدب
پر کچھ دسترس رکھتے ہیں، تو اس میں بھی یہ بہت بڑا نقص ہوتاہے کہ ہم سوچتے
اپنی عجمی زبانوں میں اوراس کے لئے عربوں سے مسموع یا منقول عربی کے بجائے
اپنی مصنوعی عربی استعمال کرتے ہیں، اس سے تمام الفاط وتعبیرات کا خلفیہ،
پس منظر وپیش منظر اور سیاق سباق کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ ہم عربی
بول یا لکھ رہے ہوتے ہیں اور عرب اسے سمجھ نہیں پارہے ہوتے ، اس قسم کی
مسامحات پر مشتمل تعبیرات و عبارات سے ہم جیسے أعجمیوں کی عربی بھری ہوئی
ہے ، املاء وترقیم عربی لہجہ ورسم الخط میں بھی بے شمار کمزوریاں ہوتی ہیں
۔ ․․․․․․یہ اﷲ تعالیٰ کا شکر اور اِحسانِ عظیم ہے کہ عربوں کا یَد یَدِ
عُلیا ہے اگر ان کا یَد یَدِسُفلیٰ ہوتااور وہ عجمیوں کے بارِ اِحسان تَلے
دبے ہوتے ،تو اور کیا کیا تماشے ہوتے۔ ․․․مجھ پہ احسان ہوتاجواحسان نہ
کرتے۔
٭ قرآن کریم پڑھنے والے قراء وعلماء اگر عجمی ہوں ، تو ان کی لَے بھی عجمی
ہوتی ہے، إلّاماشاء اﷲ۔ ایسا ہی ہمارے علماء وطلباء جب کتابوں یا مخصوص
احادیث کی کتب کی عبارتیں پڑہتے ہیں ، تو اس میں بھی عربی پڑھتے ہوئے بھی
کوئی عجمی زبان پڑھ رہے ہوتے ہیں ، قرآن کریم اور دیگر عربی کتب کو عربی
سمجھ کر اور مفہوم و معنی کو مدنظر رکھ کر اگر پڑھاجائے ، تو سننے والے
بشاشت و انبساط سے جھوم جاتے ہیں۔ اگر ہمارے کچھ یہاں کے پڑھے ہوئے نوجوان
وہاں جاکرکسی بھی مسجد و مدرسے والے کام میں تعینات ہوجاتے ہیں ، تو ان کی
اس مشکل کی وجہ سے وہ لوگ انتھائی ضیق اور تنگی وترشی میں مبتلیٰ ہوتے ہیں
( مستثنیات کا اعتبار ملحوظ رہے )، رمضان شریف کی تروایح والی ہمارے یہاں
والی تلاوتیں سب کو معلوم ہیں ۔ جمعہ وعیدین کے خطبے لیجئے ، کہ خطیب ایک
((گیت)) آنکھیں بند کرکے پڑھ رہا ہوتاہے، اور آنکھیں کھولیں بھی ہو، تو اس
کے دونوں بازو جس طرح اس کے دونوں پہلؤوں سے پیوست ہوتے ہیں، اور سر اوپر
اٹھائے ٹکٹی باندھ کر ایساکھڑاہوتاہے، جیسے سربراہانِ مملکت یا جناح کے
مزار پر گارڈز ہوتے ہیں ۔ کہ اگر انہیں کہیں دائیں بائیں دیکھنا بھی ہو،تو
سرموڑے بغیر صرف اور صرف کن آنکھیوں پر اکتفا کرتے ہیں ، کبھی کبھی تو
بالکل صنم اور بت کی طرح لگتے ہیں۔․․․․․الفاظ کا بھی کیا کہئے گا! رٹے
رٹائے الفاظ اور خطبے ہوتے ہیں 99فیصد نہ خود سمجھتے ہیں نہ ہی عوام کو
سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر فتوے اور شیخی بیگارنے کا موقع آجائے
،تو ابن حنبل ، ابن عربی، ابن تیمیہ اور ابن قیم نیز کچھ تو مجتھدین کرام
امام ابو حنیفہ ودیگر ایمۂ متبوعین کو ایسی ایسی ڈانٹ پلاتے ہیں، گویا کہ
وہ حضرات ان کے معاذ اﷲ نالائق وناخلف شاگرد ہوں۔․․․․․پھر اگرکہیں اس میں
جدت و تحدیث کی کوشش کی بھی گئی ہو، تو وہ تکلفاتِ محضہ پر مبنی مقفی و
مسجع تُک بندیاں ہوتی ہیں۔ مذکورہ امور پر اگر لطائف و طرائف کی لکھنے کی
کوشش کی جائے، تو اچھی خاصی ضخیم کتاب ہوگی۔
٭ ہمارے ہاں بعض حضرات طلبہ کو جامعہ ازہر ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ،
جامعہ اُمّ القریٰ ، جامعہ اسلامیہ عالمیہ اسلام آباد اور جامعۃ الایمان
(یمن)میں پڑھنے اورداخلہ لینے سے کیا روکتے ہیں ‘ جامعہ فاروقیہ کراچی کے
معہد اللغۃ العربیۃ ودیگر جامعات کے معاہد میں بھی داخلے سے روکتے ہیں ،
عذر یہ کرتے ہیں کہ فنون میں پختگی نہیں ہوگی اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ عربی
جاننے والے طلباء بے ادب وبدتمیز ہوتے ہیں ، بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ سلفی
ولامذہبی بن جائیں گے۔
حضرت شاہ ولی اﷲ دھلوی اور ان کے خانوادہ وسلسلہ کے دیگر بزرگوں سے لے کر
حضرت نانوتوی ، حضرت شیخ الھند، حضرت حکیم الامت تھانوی، حضرت مدنی، حضرت
ندوی، حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی ، حضرت مفتی محمود، حضرت کیرانوی،
حضرت ڈاکٹرسکندر اورحضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی،یہ سب اس میدان کے
شہسوار ہیں،ان میں سے تو کوئی بھی بے ادب یابدتمیزنہ بنا ،نہ ہی ان میں سے
کوئی سلفی یالامذھبی بنا،تو پھر یہ واویلا کیسے؟؟؟۔
بہرحال اس تمام بصرخراشی سے کسی کی تنقیص یاتوھین مقصود نہیں ہے،بلکہ عالم
عرب سے ارتباط اورحرمین شریفین سے جوایمان کاآفتاب طلوع ہواتھا ،جس کی وجہ
سے ساری دنیا یہاں کی زیارت وسفرکرتی ہے، اس سے حقیقی معنوں میں کسبِ فیض
کا ذریعہ بنایا جائے۔
|