رمضان کامبارک مہینہ اورمدارس کانظام چندہ:غوروفکر کے چند پہلو

باسمہ تعالیٰ

مکتب،مدرسہ،اسکول یاپاٹھ شالاؤں کاوجودماقبل تاریخ دنیامیں بھی تھا،جس وقت دنیامیں لکھنے کارواج نہیں تھا،لیکن حصول علم کاکوئی نہ کوئی طریقہ اس وقت بھی موجودتھا،ویدک دورمیں حصول علم کاطریقہ زبانی یاددہانی کاتھا،پھریہ ترقی کرکے پتھر،چمڑااورپتہ پرلکھنے کے دورمیں پہونچااوراس وقت کسی بھی پڑھی ہوئی چیزکومحفوظ کرنے کاطریقہ پتھر،چمڑایاپھردرخت کے پتوں یاچھال پر لکھنے کے ذریعہ ایجاد ہوا۔کاغذقلم اورپرنٹنگ مشین کے ایجادسے قبل تک دنیاکے سبھی مذاہب میں حاصل شدہ علوم کو محفوظ کرنے کا تقریباًیہی طریقہ رائج تھا۔یوں تویورپ اوردنیاکے دیگر حصوں میں بھی تعلیمی ادارے موجودتھے لیکن اس وقت متحدہ ہندستان تعلیم وتربیت کاایک بڑا مرکزہواکرتاتھا،تکشلااورنالندہ تعلیم کے دوبڑے مراکزتھے جہاں اپنے وقت کے بڑے بڑے آچاریہ اور گرودنیابھرسے آئے ہوئے طالب علموں کی علمی تشنگی دورکرتے تھے۔تکشلا’جوکہ اب پاکستان کاایک حصہ ہے‘ ۵ ویں صدی عیسوی تک مرکزعلم تھا اوریہی وہ تعلیم گاہ ہے جہاں آچاریہ چانکیہ نے ایک غریب بچہ کوتعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے ہندستان میں موریہ حکومت کی داغ بیل ڈالنے کے لائق بنایاجوتاریخ میں چندرگپت موریہ کے نام سے مشہورہے، نالندہ بھی ۵؍ویں صدی عیسوی سے تیرہویں صدی عیسوی تک ایک بڑاعلمی مرکزتھا جہاں ہندؤں کے لیے سنسکرت زبان میں مذہبی تعلیم کامعقول انتظام تھا۔لیکن ایک بات ان تمام تعلیم گاہوں کے سلسلہ میں مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اس طرح کے تعلیمی اداروں کانظم ونسق اس وقت کی حکومت کیا کرتی تھی یا امراء اوررؤساء اس کی ذمہ داری سنبھالتے تھے ۔

دارارقم کواسلامی تاریخ میں سب سے پہلی اسلامی درسگاہ ہونے کاشرف حاصل ہے،چوں کہ مکہ میں اسلام کے لیے ماحول سازگارنہیں تھااسی لیے یہ درسگاہ باضابطہ نہیں تھی بلکہ یہاں بہت ہی خفیہ طریقہ سے لوگ اسلام سیکھنے آیاکرتے تھے یاپھرایسے لوگ حاضرہوتے تھے جن کے قلوب کواﷲ اسلام کی جانب پھیردیا کرتاتھااوروہ حلقہ بگوش اسلام ہوجایاکرتے تھے جیساکہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے واقعہ سے ظاہرہے۔باضابطہ طورپراسلامی درس گاہ کا قیام ہجرت کے بعدمدینہ میں ہواجسے اسلامی تاریخ ’’صفہ ‘‘کے نام سے یادکرتی ہے۔

اسلام میں’’صفہ‘‘کے چبوترہ کوپہلاباضابطہ اسلامی مدرسہ ہونے کاشرف حاصل ہے،جہاں صحابہ کرامؓ قرآن وسنت کادرس لیاکرتے تھے، صفہ کے اہم طالب علموں میں جلیل القدرصحابی حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کانام نمایاں ہے،جن سے سب سے زیادہ احادیث مروی ہیں۔اسلام کے اس پہلے مدرسہ کے طالب علم صحابہ کرامؓ تھے اوراس مدرسہ کے معلم اورمنتظم اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تھے،اورتاریخ اس بات پرشاہدہے کہ اس مدرسہ کانظم ونسق عام مسلمانوں کے صدقہ وہدیہ کے ذریعہ چلتاتھا،جب بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ مال آتااس میں سے ایک حصہ اصحاب صفہ کے لیے نکال لیتے بقیہ عام ضرورت مندمسلمانوں میں تقسیم کردیتے ،اسی طرح اہل ثروت صحابہ اپنے گھروں میں ان کے کھانے کاانتظام کرتے تھے۔

’’صفہ‘‘سے اسلامی مدارس کے قیام کاجوسلسلہ شروع ہواوہ الحمدﷲ آج تک قائم ہے،اوریہ بھی حقیقت ہے کہ جس نظام کی بنیادپہلے مدرسہ کے پہلے معلم اورمنتظم نے رکھی تھی وہی نظام آج تک رائج ہے،سوائے چندمخصوص مدارس کے کہ جن کانظم ونسق ارباب حکومت کے ہاتھوں میں ہے،اوران کافائدہ اورنقصان بھی سب کے سامنے ہے۔ جومدارس آزادہیں وہ توالحمدﷲ دین کی نشرو اشاعت میں مصروف ہیں اوراس کی افادیت سے عوام وخواص سبھی بخوبی واقف ہیں،لیکن ایسے مدارس جوحکومت کے ماتحت ہیں ان کی حالت بھی عوام وخواص سے پوشیدہ نہیں ہے، اگر ہندستان اسلامی ملک ہوتاتومیں قاضی القضاۃ اورمفتی اعظم سے درخواست کرتاکہ بورڈ کے مدارس میں پڑھنا اور پڑھانا حرام قراردیدیاجائے،ایسے دگرگوں حالات کے باوجود مستقل طورپرکچھ لوگ مرکزی مدرسہ بورڈکامطالبہ کررہے ہیں،اوراس وقت دہلی مدرسہ بورڈکامطالبہ بھی عروج پرہے۔یوں تو ہندستان میں مدارس و مکاتب کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن موجودہ زمانے میں مدارس کے جو خدو خال ہیں اور نظام تعلیم اورانتظامی امورکے جونظام قائم ہیں اس کی کڑی ام المدارس دارالعلوم دیوبند سے جا کر ملتی ہے،دارالعلوم کے قیام کے وقت حضرت نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے ہاتھوں سے اصول ہشت گانہ مرتب کیاتھاجو دارالعلوم کے کتب خانہ میں آج بھی محفوظ ہے،جس کاآخری اوراہم اصول یہ ہے کہ :اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ انشاء اﷲ بشرط توجہ الی اﷲ اسی طرح چلے گااوراگرکوئی آمدنی اس کویقینی ہوگئی جیسے جاگیر،کارخانہ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کاوعدہ توپھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاء جوسرمایہ رجوع الی اﷲ ہے ہاتھ سے جاتارہے گااورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوں میں باہم نزاع پیداہوجائے گا‘۔(تاریخ دارالعلوم :۱۰۶)

مدرسہ کیاہے؟مدرسہ کاکیامقصدہے؟اس کوجاننے کے لیے مفکراسلام حضرت مولاناابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اﷲ علیہ کایہ بیان کافی اہمیت کاحامل ہے: ’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اورمردم سازی کاکام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اوراسلام کے سپاہی تیارہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کابجلی گھر (پاورہاؤس) ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اورذہن ودماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کااحتساب ہوتاہے ، اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کافرمان پورے عالم پرنافذہے،عالم کافرمان اس پرنافذنہیں،مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، کسی تمدن،کسی عہد،کسی کلچر،زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کاشبہ اوراس کے زوال کاخطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدیؐ سے ہے جوعالمگیربھی ہے اورزندۂ جاوید بھی،اس کاتعلق اس انسانیت سے ہے جوہردم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جوہردم رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم وجدیم کی بحثوں سے بالاترہے،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدیؐ کی ابدیت اورزندگی کانمواورحرکت دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘(پاجاسراغ زندگی:۹۴)

مدارس کی اسی اہمیت وافادیت کے مدنظر اکابرعلماء نے ہندستان ہی نہیں بلکہ دنیاکے طول وعرض میں جہاں کہیں بھی گئے وہاں مدارس کے جال بچھائے،خودبانی دارالعلوم دیوبند جہاں گئے وہاں مدرسہ کی بنیادڈالی جس کی زندہ مثال مدرسہ شاہی مرادآباداورگلاؤٹھی کامدرسہ ہے،اس وقت دنیا کے جس گوشہ میں آپ جائیں یورپ ہویاامریکہ،ساؤتھ افریقہ ہو یا آسٹریلیا جیسا دور درازملک ہرجگہ علمائے دیوبنداورسلسلہ ولی اﷲی سے جڑے ہوئے مدارس آپ کو مل جائیں گے،میں نے ساؤتھ افریقہ کے کئی شہروں میں دارالعلوم دیوبندسے جڑے ہوئے مدارس کامشاہدہ کیا جن میں جوہانسبرگ سے قریب آزادویل کادارالعلوم ہے،پہلی نظرمیں وہ آپ کودارالعلوم کے بالکل مشابہ نظرآئے گا،تعلیم میں تویکسانیت ہے ہی تعمیرمیں بھی بہت حدتک یکسانیت پیداکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن ان تمام اداروں کے نظم ونسق کاانحصار عوامی چندہ پرہی ہے،کیوں کہ مدارس کی حفاظت اوراس کی بقاء کے لیے،مدارس کی روح کو زندہ رکھنے کے لیے غیریقینی سبیل ہی بہترذریعہ ہے،حکومتی امدادیاکسی رئیس کی مالی مددان اداروں سے اس کی روح کوختم کردیتی ہے جیساکہ ہم اورآپ حکومت کے تحت چلنے والے بورڈکے مدارس کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔

مدارس کی تاریخ پرنظرڈالنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مدارس کے انتظام وانصرام کاانحصارعوامی چندہ ہی ہے،اوراکابرنے اسی کوپسندفرمایاہے ،لیکن تلاش بسیارکے باوجودیہ بات معلوم نہ ہوسکی کہ رمضان میں چندہ کاسلسلہ کب اورکیسے شروع ہواجواس وقت رائج ہے اورجس پر اس قدرسختی کے ساتھ عمل کیاجاتاہے جیسے کہ یہ اسلامی تعلیمات کااہم حصہ ہو۔دین کی حفاظت کے لیے مدارس کاوجودضروری ہے،اورمدارس کی بقاء کے لیے عوام کاتعاون انتہائی اہمیت کاحامل ہے،لیکن اس کے لیے رمضان کے مہینہ کاہی انتخاب سمجھ سے باہرہے۔اب ہمارے لیے قابل غور وفکر یہ مسئلہ ہے کہ اس کاطریقۂ کارکیاہو؟کیاچندہ کاموجودہ نظام اورطریقۂ کارصحیح ہے؟یاپھراس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟

رمضان جوکہ اسلامی مہینوں میں سب سے بابرکت مہینہ ہے،حضوراقدس صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کی تیاری رجب سے ہی شروع کردیاکرتے تھے،اوررمضان تک پہونچنے کی دعاء مانگاکرتے تھے،یہاں رمضان کے فضائل ومسائل ذکرکرنامقصودنہیں ہے بلکہ صرف یہ بتانامقصودہے کہ رمضان جوکہ خیروبرکت اورنیکیوں میں اضافہ کامہینہ ہے ،مدارس کے محصلین ومدرسین حضرات اس سے محروم کیوں ہیں؟ اگر میں یہ کہوں توبے جانہ ہوگاکہ چندہ لینے اوردینے کے چکرمیں محصلین کے ساتھ اہل خیرحضرات بھی اس مہینہ کی خیروبرکت اورنیکیوں سے محروم رہ جاتے ہیں، یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ ہروہ شخص جواس پرخطروادی سے گذرچکاہے اسے اس کابخوبی احساس ہے کہ رمضان میں چندہ کے حصول کے لیے کیاکیاپاپڑبیلنے پڑتے ہیں، کس طرح کے لوگوں کا سامناکرناپڑتاہے،بسااوقات توڈانٹ پھٹکارتک کی نوبت آجاتی ہے،اورافسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایساصرف اورصرف اس لیے ہوتاہے کہ ہم نے توکل کادامن ہاتھ سے چھوڑدیا ہے، جو کام اﷲ کاہے اسے ہم غیراﷲ کے سہارے چلانے کی کوشش کرتے ہیں،اوربسااوقات جھوٹ اورغلط بیانی کاسہارالیتے ہیں، بھکاری کی طرح دست سوال درازکرنا،خوشامدی اورچاپلوسی کے ذریعہ چندہ حاصل کرنا،جھوٹ بول کرغلط اعدادوشمارپیش کرکے بڑی رقمیں حاصل کرناکیااسی کانا م دین ہے؟کیااﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کایہی فرمان ہے کہ دین کا کام غیردینی طریقہ سے انجام دو،نہیں!اسلام ہرگزاس کی اجازت نہیں دیتا،بلکہ اسلام کا اصول تو یہ ہے ’’کہ علماء اہل ثروت کے سامنے سوال کی ذلت سے بچیں۔‘‘صیانۃ العلماء عن الذل عندالاغنیاء۔

رمضان کابابرکت مہینہ جوکہ صرف اورصرف عبادت کے لیے مخصوص ہے،افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایک طرف معلمین حضرات چندہ کی خاطردردربھٹکتے رہتے ہیں،دوسری طرف جہاں سال کے ۱۰؍مہینے قال اﷲ اورقال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں،رمضان کے مبارک مہینہ میں وہاں سناٹاچھایارہتاہے،اکثر مدارس کاحال تویہ ہوتاہے کہ وہاں کوئی روشنی کاانتظام کرنے والاتک نہیں ہوتا،کیایہ مناسب ہے کہ رمضان جیسے مقدس اوربابرکت مہینہ میں ہم مدارس کوبالکل ویران کردیں،جس مہینہ میں ہر نیکی کاثواب ستر گناتک ہوجاتاہے ہم قرآن وحدیث کی تلاوت کے ایک ثواب سے بھی محروم ہوجائیں،کیااسلام ہم سے یہی چاہتاہے؟کیادین کایہی تقاضاہے؟نہیں بلکہ ہوناتویہ چاہیے کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں ہم یکسوئی اوردلجمعی کے ساتھ مدرسوں میں مقیم رہ کرقرآن کی تلاوت میں مشغول رہتے،تفسیروحدیث کادرس جاری رکھتے اوربقیہ اوقات ہم خالص ہوکراﷲ کے ذکر میں گذارتے۔مدارس سے تعلق رکھنے والاہرفردجانتاہے کہ رمضان میں حصول چندہ کی خاطرکس طرح نمازوروزہ اورتراویح سے غفلت برتی جاتی ہے،کبھی یہ غفلت توجان بوجھ کربھی ہوتی ہے اورکبھی اہل خیرحضرات کے اوقات چندہ کی وجہ کربھی۔سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ جوچیزآپ کوہرحال میں دینی ہی ہے،کیوں کہ جوآپ دے رہے ہیں وہ آپ کاہے ہی نہیں وہ تو اﷲ کامال ہے،اسے آپ اپنے پاس رکھ کراپنے بقیہ مال کوناپاک نہیں کرسکتے توپھراس چیز کودینے میں اتناتامل کیوں؟عجیب وغریب حرکت رمضان میں دیکھنے کوملے گی، کوئی صاحب فجر کے بعدتقسیم کریں گے،کسی صاحب کامعمول سحری کے وقت کاہے اورکوئی صاحب توحد کردیں گے کہ ہمارے یہاں صرف ستائیسویں کی شب کوہی تقسیم کیاجاتاہے،اب ایسے میں بیچارے محصلین حضرات کی حالت قابل رحم ہوتی ہے انہیں ان اوقات کوپکڑنے کے لیے کبھی تراویح کی قربانی دینی پڑتی ہے توکبھی یہ نوبت آجاتی ہے کہ روزہ کوبھی قربان کر دینا پڑتا ہے، بھلایہ کیسا اسلامی کام ہے؟ اور کیسے اسلام کے داعی ہیں ؟کہ اسلام کے نام پر تمام غیراسلامی کام کوانجام دینے پرمجبورہیں،اصل مقصودکی نافرمانی کرکے مقصودتک پہونچنے کاخواب دیکھ رہے ہیں ! آخر کیوں؟غوروفکرکامقام ہے،یہ مقام عبرت ہے اہل مدرسہ کے لیے بھی اوراہل خیرحضرات کے لیے بھی، کیوں کہ اہل مدرسہ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کام کریں جہاں پہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہورہی ہواصل مقصودفوت ہورہاہووہ اس سے الگ ہوجائیں،اﷲ اپنے دین کی حفاظت کرنے کے لیے کافی ہے،اکابرکاطرزعمل ہمیں یہی سبق دیتا ہے، اور اہل خیرحضرات کویہ سمجھناہوگاکہ آپ جودے رہے ہیں وہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ وہ آپ کافرض ہے، آپ کوان علماء اوراہل مدارس کاشکرگذارہوناچاہیے کہ وہ آپ کی مشکل آسان کررہے ہیں،لہٰذاآپ اپنا دینی فریضہ اوراپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کوشش کریں کہ جس کا جوحق ہے اس تک آپ خودپہونچائیں،یااگروہ آپ کے پاس آتے ہیں توبلاچوں چرا ان کاحق ان کے حوالے کردیں، اور بہترشکل یہ ہے کہ رمضان کوآپ اپنی عبادت کے لیے مخصوص کریں اور زکوٰۃ وصدقات کی تقسیم کے لیے کوئی اورمہینہ منتخب فرمائیں تاکہ رمضان کی برکتوں سے آپ خود بھی فائدہ اٹھائیں اوراہل مدارس بھی اس سے مستفیدہوسکیں۔افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ نہ جانے کتنے ایسے محصلین حضرات ہیں جنہیں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عیدکی خوشیاں بانٹنابھی نصیب نہیں ہوتا۔عیدجوکہ اﷲ کی جانب سے روزہ داروں کے لیے ضیافت کادن ہے وہ اس دن بھی کسی اہل خیرکی ڈیوڑھی پرمہمانان رسول کی فکرمیں بیٹھے رہتے ہیں۔کیاانہیں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عیدکی خوشیاں بانٹنے کاکوئی حق نہیں ہے؟کیااسی کانام انسانیت ہے؟

اس سلسلہ میں بہارسے ایک خوش آئندخبرہے کہ شمالی بہارکے مدھوبنی ضلع کے قدیم دینی ادارہ مدرسہ محمودالعلوم دملہ کے مہتمم حضرت مولانامفتی اعجازاحمدقاسمی صاحب نے مدارس کے ذمہ داروں سے رابطہ کرکے اپیل کی ہے کہ وہ رمضان کے مبارک مہینہ میں مدرسہ میں درس وتدریس کے ماحول کو باقی رکھیں،یہ ایک اچھی کوشش ہے،لیکن میری تمام مدارس کے ذمہ داروں سے بالخصوص ام المدارس دارالعلوم دیوبندوندوۃ العلماء لکھنؤ کے ارباب وحل عقدسے گذارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں رائے عامہ ہموارکرکے اہل مدارس کوبھی اس بات کاپابندبنائیں کہ وہ رمضان کے مبارک مہینہ میں چندہ کا کام نہ کریں بلکہ اس مہینہ میں درس و تدریس کاسلسلہ جاری رکھیں اوراس کی برکتوں سے بھرپورلطف اندوزہوں،اسی طرح اہل خیرحضرات کوبھی اس جانب متوجہ کیاجائے کہ رمضان کے بابرکت مہینہ کووہ اپنی عبادتوں کے لیے مخصوص کریں،اوراپنی زکوٰۃوصدقات کی تقسیم کے لیے سال کاکوئی اورمہینہ منتخب کریں تاکہ رمضان کے مبارک مہینہ کی عظمت دلوں میں برقرار رہے، اور اس کا تقدس پامال نہ ہو۔یادرکھیں!اگرآپ نے ان مدارس کی بقاوتحفظ کے کام میں بڑھ چڑھ کرحصہ نہ لیا،آپ نے خوش دلی کے ساتھ اپناتعاون جاری نہ رکھا،اوراگرآپ کی کوتاہیوں کی وجہ سے مدارس ومکاتب بندہونے لگیں تووہ دن دورنہیں کہ ہندستان دنیاکے نقشہ پردوسرااندلس بن کرابھرے گا،علامہ اقبال رحمۃٖ اﷲ علیہ نے اندلس سے واپسی پرقوم کے نام اپنے خطاب میں جو کچھ کہا تھاوہ آج بھی تاریخ کے صفحات پرسنہرے حرفوں میں موجودہے،انہوں نے کہاتھا: ’’ان مکتبوں(مدرسوں)کواسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہی مدرسوں میں پڑھنے دو اگریہ ملااوردرویش نہ رہے توکیاہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔اگرہندستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثرسے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی ۸ سوبرس حکومت کے باوجودآج غرناطہ و قرطبہ کے کھنڈر اورالحمراء اورباب الخواتین کے نشانات کے سوااسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اورلال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی ۸ سوسالہ حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہ ملے گا۔‘‘(علامہ اقبالؒ) ٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50692 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More