وقوع طلاق ثلاثہ بجواب (ایک وقت کی تین طلاقیں دین یا
بدعت)
محتر م جناب عمران احمد راجپوت کا کالم ایک وقت کی تین طلاقیں دین یا بدعت
کے عنوان سے ہماری ویب میں چھپا جس میں فاضل کالم نگار نے عورت کی عفت و
عصمت اس کی بے بسی کا حل اس بات میں تلاش کیا ھے کہ اگر رشتہ ازدواج میں
کہیں رخنہ آجائے اور نوبت طلاق تک پہنچ جائے آن واحد کی یا مجلس واحد کی
تین طلاقیں ایک شمار کی جائیں۔انہوں نے اپنا مدعٰی ثابت کرنے کے لٔے قرآن و
سنت ،امام ابن تیمیہؒاورامام ابن قیمؒکے اقوال فقہ حنفی کی شہرۂ آق کتاب
ہدایہ اورامام ابوبکرجصاصؒکے قول نیزچند اسلامی ممالک کی شرعی عدالتوں کا
ذکر کرتے ہوے اپنے دلائل مکمل کیے۔اس اندازسے اس مسٔلے کو پیش کیا گویا امت
مسلمہ کا اجماعی مسٔلہ ایسا ہی ہے جیسا صاحب کالم نے لکھا ہے اور اس کے مد
مقابل مؤقف رکھنے والے اندھے مقلداپنے نظریات کے تحفظ کے لٔے قرآن و حدیث
کی واضح نصوص میں تاویلات کرکے شکوک و شبہات پیدا کر کے عوام الناس کو
الجھا کر اصل دین سے کوسوں دورلے جاتے ہیں ۔کالم نگار نے دوواقعات سے اپنے
کالم کو مزین کیا ہے اور انہیں کا سہارا لیکر اپنا کالم شروع کیا ہے۔
۱۔پہلا واقعہ کسی اداکارعثمان پیرزادہ اور انکی اہلیہ کا ہے جس نے اپنی
بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تھی ایک ہی مجلس میں بقول ان کے حنفی علما ٔ نے
طلاق مغلظہ کا فتوٰی جاری کیا جبکہ اھل حدیث کے فتوٰے کے باعث آج بھی وہ
خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔
۲۔دوسراواقعہ کسی کامران نامی شخص اور ان کی اہلیہ کا ہے ،یہاں بھی اسی طرح
کا فتوٰی سامنے آیا ۔
آغاز دلائل میں کالم نگا ر نے آیت:اطیعوااﷲ واطیعوالرسول واولی الامر
منکم۔اس کا ترجمہ کیا اطاعت کرو میری اور رسول کی تابعین وتبع تابعین کی
اور وقت کے حکمرانوں کی اور اگر جھگڑپڑو تو لوٹ آؤ اﷲ اور اس کے رسول کی
طرف۔
جواب ۔یہی آیت جمہور کی بھی دلیل ہے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔
دلیل ۲۔الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔
جواب ۔جمہور کے نزدیک اس کے بعدکی آیت میں حکم خداوندی ہے، فان طلقہا
فلاتحل لہ من بعد حتٰی تنکح زوجا غیرہ۔یہاں فا تعقیب کے لٔے ہے مطلب دو
طلاق کے بعد اگر فی الفور تیسری طلاق بھی کسی نادان نے دی تو اس کے لٔے اس
کی بیوی حلال نہیں۔یہ آیت مبارکہ متفرق تین طلاقوں ہی کے لئے متعین نہیں
اور نہ اس میں یہ نص ہے کہ یہ دفعتہ تین طلاقوں کو شامل نہ ہو۔لہذا اس کو
اپنے مسلک کے لئے واضح نص کہنا ٹھیک نہیں ہے۔چنانچہ علامہ ابن حزمؒکا قول
اس آیت سے متعلق فھذا یقع علٰی الثلاث مجموعۃ ومتفرقۃ ۔محلٰی ج ۱۰ ص ۲۰۷ ۔رئیس
المفسرین حضرت عبداﷲ بن عباسؓاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں یقول ان
طلقہاثلاثافلاتحل لہ من بعدحتٰی تنکح زوجا غیرہ(سنن الکبریٰ جلد ۷ص۳۷۶۔
دلیل۳۔سنن نسأی،کتاب الطلاق ج۲ص۸۹۔ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین
طلاق دیں آپﷺکو خبر دی گئی آپ نے اظہار ناراضگی فرمایا اور فرمایا کے میری
موجودگی میں کتاب اﷲ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
جواب ۔آپﷺنے ناراضگی کا اظہار تو ضرور فرمایا لیکن اس کے باوجود تین طلاقوں
کو نافذ بھی فرمادیا جیسا کہ حضرت عویمرؓکی حدیث میں ہے،ابو داؤد
ج۱ص۳۰۶۔میں ہے ۔فطلقہاثلاث تطلیقات عند رسول اﷲ ﷺفانقذہ رسول اﷲﷺ۔باوجود
غیر مستحسن اور ناراضگی کے تینوں کو نافذ فرما دیا۔
دلیل ۳۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ ج۲ص۳۵۵۔باب الطلاق السنہ کا حوالہ
دیتے ہوے فرمایا ایک مجلس کی تین طلاقیں بدعت ھیں اور اس طرح طلاق دینے
والاعاصی و گنہگار ہو گا۔
جواب۔یہ بات درست ہے کہ اس طرح طلاق دینا خلاف سنت ہے لیکن باوجود گناہ کے
وقوع طلاق ہو جاتا ہے۔جو کہ خود ہدایہ میں ہے۔
دلیل ۴۔امام ابن تیمیہؒکا مؤقف ایک طہر میں تین یا زیادہ طلاقیں ایک شمار
ہونگی ایک طہر میں اگر ہزارطلاقیں بھی دیں تو بھی اسے رجوع کا حق حاصل ہو
گا۔فرمان باری تعالٰی الطلاق مرتان میں دو طلاق نہیں بلکہ دو مرتبہ کا ذکر
ہے۔
دلیل ۵۔حافظ ابن قیم ؒ کے نزدیک صرف لفظی تکرار نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسری
دفعہ طلاق کا ذکر ہے ۔الطلاق مرتان ،لغت عرب اوردنیا کی تما م زبا نوں میں
مرتان کا یہی مطلب ہے۔اورقرآن و حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔علامہ ابوبکر
جصاصؒکے قول سے بھی تائیدلی۔
جواب ۔ان تینوں دلیلوں کا مقصد ایک ہی ہے اور اس کا جواب اوپر دیا جا چکا
ہے کہ الطلاق مرتان کے بعد والی آیت میں فان طلقہاالخ جس طرح متفرق طلاقوں
کو شامل ہے اسی طرح اگٹھی تین کو بھی شامل ہے۔
دلیل۶۔حضرت عبداﷲ بن عباس ؓکی روایت ہیکہ آپﷺکے مبارک دور ابوبکرؓاور عمرؓ
کے دورکے ابتدائی دوسال تک تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں،مسلم شریف
ج۱،اور ایک روایت میں ابوالصہباءؒکے سوال کے جواب میں یہی بات ارشاد
فرمائی۔
جواب۔طاؤسؒجوروایت کرتے ابن عباسؓ سے اس روایت کو مطلقا نہیں مانتے بلکہ
کہتے ہیں یہ مخصوص ہے غیر مدخول بہا کے ساتھ(جواہر النقی علٰی البہیقی
ج۷ص۳۳۱) اس کے علاوہ ابن عباس کے دیگر شاگردسعید ابن جبیرؒ عطاء بن ابی
رباحؒ،مجاہدؒعکرمہؒ،عمربن دینارؒ،مالک بن الحویرثؒ،محمد بن ایاس بن
بکیرؒاور معاویہ بن ابی عیاشؒ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓنے تین طلاق کو
تین ہی قرار دیا۔(سنن الکبرٰی ج۷ص۳۳۸)،جب خود ابن عباسؓ کا نظریہ تین کے
تین ہی ماننے کا ہے تو اس روایت کااطلاق ثابت نہیں ہوتا۔امام بہیقیؒ فرماتے
ہیں کہ امام بخاری ؒنے اس روایت کی تخریج اس لئے نہیں کی کہ ابن عباسؓ کی
جملہ صحیح روایت اس کے خلاف ہیں۔(محصلہ سنن الکبرٰی ج۷ص۳۳۷)لہذٰااس روایت
کو اپنا مدعٰی ثابت کرنے کیلئے دلیل بنا نا جبکہ خود راوی کا فتوٰی اس کے
خلاف ہواورطاؤس روایت بیان کرنے میں متفرد بھی ہیں۔وہ اس روایت کو مقید اور
مخصوص سمجھتے ہوں اور اسی پر فتوٰی بھی دیتے ہوں تو ایسی روایت کو سب سے
بڑی دلیل مانناجس پر حلال وحرام کا مدار ہومحض ضد بازی وتحکم کے سوا کچھ
نہیں۔
دلیل۷۔ابن عباس کی روایت ہے رکانہ ؓنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ایک ہی
مجلس میں آپﷺنے فرمایا رجوع کر لواور یہ آیت یاایھاالنبی اذاطلقتم النساء
الخ پڑھی۔
جواب۔اس کی سند میں محمد بن اسحاق ضعیف ہے،امام ابو حاتمؒ(کتاب العلل ج
۱ص۴۳۳) امام مالک اس کو دجال کہتے ہیں،یحیٰ بن معینؒ اس کو کذاب کہتے ہیں
علامہ ذھبیؒ کہتے ہیں حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح
نہیں۔رکانہ ؓکی صحیح روایت میں ثلاث کے بجائے البۃ کا لفظ ہے۔قاضی شوکانیؒ
نیل الاوطارج۶ص۲۴۶میں لکھتے ہیں،واثبت ما روی فی قصتہ رکانۃانہ طلقہا البۃ
لا ثلاثاالخ رکانہ نے البۃ طلاق دی نہ کہ تین۔
دلیل۔عبداﷲ بن عمرؓ نے ابنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاقیں دیں عمرؓ نے
آپﷺسے مسئلہ پوچھا آپ نے رجوع کا حکم دیا ابن عمرؓ سے پوچھا گیا تو انہوں
نے کہا تین طلاقیں دیں جو کہ ایک ہی ہوتی ہے۔
جواب۔واقعہ یوں ہے ابن عمرؓ نے حالت حیض میں طلاق دی تھی آپﷺنے ناپسند کیا
اور رجوع کا حکم دیا،ابن عمر ؓنے پوچھا۔یا رسول اﷲ افراٗیت لو انی طلقتہا
ثلاثاکان یحل لی ان اراجعہا قال لاکانت تبین منک وتکون معصیۃ(سنن الکبرٰی
ج۷ص۳۳۴)
اے اﷲ کے رسول اگر میں تین طلاقیں دیتا تو رجوع کر سکتا تھا آپ نے
فرمایانہیں وہ تم سے جدا ہو جاتی اوریہ اقدام معصیت ہوتاتو ابن عمرؓ کا
مسلک بھی تین طلاقوں کے وقوع کا ہے۔یہی فتوٰی محمدی ہے۔
اس کے بعد کالم نگارنے کہاکہ یہ مہر محمدی ہے ،مہرفقہا ء کو چھوڑ دو۔
قارئین آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ مہر محمدی اور مہر فقہاء کس فریق کے پاس ہے
جمہور کے پاس یا صاحب کالم اور ان کی جماعت کے پاس جو آٹے میں نمک کا مصداق
ہیں۔
مسئلہ تین طلاق یعنی ایک شخص اپنی بیوی کوایک ہی لفظ میں کہے تجھے تین طلاق
یا کہے تجھے طلاق طلاق طلاق یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے توتین ہی
شمار ہوں گی یا ایک شمار ہو گی(جیسا کہ صاحب کالم نے لکھا)؟
قراٰن کریم،مرفوع احادیث ،فتوٰی محمدی،خلفائے راشدین کے فتاوٰی جات اور
پوری امت کا اجماع اسی بات پر ہے کہ تین طلاقیں واقع ہو جاتیں ہیں،چائے ایک
لفظ سے دی جائیں یا متفرق،ایک مجلس میں دی جائیں یا ایک طہر میں۔اس موضوع
پر دلائل کے انبار لگائے جاسکتے ہیں لیکن یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو
سکتا۔اجمالاچند دلائل ذکر کئے جاتے ہیں۔
۱۔قراٰن کریم آیت۲۲۸بقرہ،فان طلقہافلاتحل لہ من بعدحتٰی تنکح زوجا غیرہ۔
۲۔مرفوع حدیث۔ان رجلا طلق امراٰتہ ثلاثاالخ(بخاری ج۲ ص۷۹۱)
۳۔مرفوع حدیث ۔عن الرجل یتزوج المراٗۃ فیطلقہاثلاثاالخ(مسلم ج۱ ص۴۱۳)
۴۔عن علی فیمن طلق امراٗتہ ثلاثا قیل ان یدخل بھا قال لا تحل لہ حتٰی تنکح
زوجا غیرہ۔(سنن الکبرٰی ج ۷ص۳۳۴)
۵۔عن الحسن بن علی قال لو لا انی سمعت جدی الخ(دارقطنی ج۲ص۴۲۷)
۶۔باب من یطلق امراٗتہ ثلاثا معا ان طلاقہ قد لزمہ وحرمہا علیہ فھذا کلہ
قول ابی حنیفۃؒویوسفؒ ومحمدؒ(شرح معانی الاٰثار ج۲ ص۴۱۸
۷۔شارح مسلم امام نوویؒ،شرح مسلم ج۱ص۴۷۸میں لکھتے ہیں،من قال لامراٗتہ انت
طالق ثلاثافقال شافعی ؒو مالکؒ و ابوحنیفۃؒ واحمدؒ وجماھیرالعلماء من السلف
والخلف یقع الثلاث۔
۸۔حضرت عمر کے دور خلافت میں اس مسٗلہ پر اتفاق ہو چکا کہ تین طلاقیں تین
ہی ہیں اورصحابہ کرامؓ کا قولی و فعلی دونوں قسم کا اجماع اس پر ہے چنانچہ
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ لکھتے ہیں اب اس مسئلے پر اختلاف کرنا مردود ہے(فتح
الباری ج۹ص۲۹۳)
۹۔علامہ آلوسی فرماتے ہیں صحابہ کرامؓ کا اس پر اتفاق ہو چکاتوبغیر کسی نص
کے تو یہ نہیں ہو سکتایہی وجہ ہے کہ جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے۔(روح
المعانی ج۲ص۱۱۸)
۱۰۔حافظ ابن القیم ؒ(جن کو صاحب کالم نے اپنے لیے دلیل بنایا )تحریر فرماتے
ہیں جمہور نے یہی مذہب عمرؓ،علیؓ،ابن مسعوؓد،ابن عمرؒ،ابن عباسؓ،ابن
عمروؓ،ابن زبیرؓ،عمران بن حصینؓ ،مغیرہ بن شعبہؓ اورحسن بن علیؓ کا نقل کیا
ہے اور تابعین کا تو کوئی شمار ہی نہیں(اغاثۃ اﷲان ج۱ص۳۲۲)یہ مختصرا دس
دلائل ہوےء تلکہ عشرۃ کاملۃ۔
آخر میں سعودی عرب کامتفقہ فیصلہ قارئین کی نظر کرتا ہوں تاکہ حق خوب واضح
ہو جائے،کیوں کے صاحب کالم نے سعودی عرب کی عدالت کا ذکر کیا تھاتوملاحظہ
کیجیے۔
حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد:ھیئۃکبارالعلماء۔
حکومت سعودیہ نے اپنے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ علماء حرمین اور ملک کے
دوسرے نامور ترین علماء کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی مجلس قائم کر رکھی
ہے،جس کا فیصلہ تمام ملکی عدالتوں میں نافذہے،بلکہ خود بادشاہ بھی اس کا
پابند ہے اس مجلس میں: طلاق ثلاث:کامسئلہ پیش ہوا۔مجلس نے اس مسئلہ سے
متعلق قراٰن و حدیث کی نصوص کے علاوہ تفسیروحدیث کی سینتالیس کتابیں
کھنگالنے اور سیر حاصل بحث کے بعدبالاتفاق واضح الفاظ میں فیصلہ دیا ہے،ایک
لفظ سے دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی ہیں۔
یہ پوری بحث اور متفقہ فیصلہ حکومت سعودیہ نے زیر نظررسالہ میں شائع کیا
ہے،غیرمقلدین اکثرمختلف فیہ مسائل میں اھل حرمین کے عمل کوبطور حجت پیش
کرتے ہیں،یہ فیصلہ بھی علماء حرمین کا ہے اس لئے غیرمقلدین پر حجت ہے۔(احسن
الفتاوٰی ج۵ص۲۲۵)
اس کے علاوہ اس کے تفصیل سہ ماہی مجلہ بحوث اسلامیہ،دارلافتاء ریاض ص۳ ج۱
میں دیکھا جاسکتاہے۔
پوری امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں ایک نہیں
ایک تاریخی حقیقت سے بھی پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جمہور کے اس
متفقہ مسئلہ کے خلاف آٹھویں صدی میں علامہ ابن تیمیہؒنے آواز اٹھائی جس کی
تردیدخود اکابر حنابلہ نے بھی کی تھی البتہ ابن قیمؒ نے اپنے استاد کی
تائید کی جس کی پاداش میں انہیں حکومت وقت کی طرف سے سزا دی گئی کیونکہ اس
وقت تک تین طلاق کو ایک قرار دے کر شوہر کے لئے مطلقہ ثلاثہ کو حلال قرار
دینا نہ صرف جمہور کے خلاف تھا بلکہ وہ روافض کا شعار بھی تھا،اس لئے تما م
علماء مذاہب وسلاطین اسلام کے متفقہ فیصلوں کی وجہ سے یہ فتنہ دب گیامگر
پانچ سو سال بعد ہندوپاک کے اہل حدیث نے اس فتنے کو پھر سے جگانے کی کوشش
کی اس تلبیس سے کام لیا جاتا گویا قراٰن وحدیث کے نصوص سے یہی مترشح ہوتا
ہے کہ تین طلاق ایک ہی ہوتی ہیں جیسے فاضل کالم نگار نے لکھا ساتھ ہی معتد
اسلامی ممالک کی عدالتوں کاذکر بھی کر دیا آں جناب سے ملتمس ہوں کے بلا
دلیل وحوالے کہ تومیں بھی آٹھاون اسلامی ممالک کے نام لکھ سکتا ہوں مہربانی
فرماکر حوالہ دیجئے ورنہ یوں دنیا کے قلابے مارنے سے حق ثابت نہیں ہوتا۔
قارئین اب فیصلہ آپ پر ہے۔۔۔۔فیصلہ کیجئے۔ |