بسم ﷲ الرحمن الرحیم
ﷲ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں امتحان کے لئے بھیجا ہے اور اس امتحان کا
کامل نتیجہ آخرت میں نکلے گا اور اس کے کچھ اثرات دنیا میں بھی ظاہر ہوتے
ہیں۔ اس امتحان میں کچھ گھڑیاں اور اوقات ایسے رکھے ہیں کہ گویا سوال بالکل
آسان لیکن نمبر بہت زیادہ گویا کہ ﷲ تعالی اپنے بندوں کو نوازنے اور عطاء
کرنے بہانا بنا رہے ہیں۔
رمضان کا مہینہ بھی کچھ اسی شان کا ہے کہ سوال بالکل آسان کردیا یعنی اس کے
دشمن سرکش شیطان کو قید کردیاکہ وہ بندوں کو ورغلا نہ سکیں ، کچھ اسی کا
اثر نظر آتا ہے کہ رمضان کا چاند نظر آتے ہی مسجدیں بھر جاتی ہیں ، جن سے
سارا سال فرض نماز کا ادا کرنا مشکل ہوتا ہے وہ تراویح کی لمبی لمبی رکعتوں
میں نظر آتے ہیں۔دشمن قید ہو گیا اور کام آسان ہو گیا اور اس آسان کام کے
نمبر بھی بڑھا دیئے گئے یعنی اگر نفل ادا کیا تو فرض کا ثواب ملے گا اور
اگر فرض ادا کیا تو ستر فرضوں کے برابر اجر ملے گا -
رمضان المبارک میں چونکہ اجر بڑھا دیا جاتا ہے اس لئے اس سے خوب فائدہ
اٹھایا جائے ۔ دوسری مصروفیات کم سے کم ہوں ، روزے اور تراویح کے علاوہ خوب
نفلی عبادات کی جائیں خاص کر قرآن کریم کی خوب تلاوت کی جائے ، لیکن ایک
بات خیال رکھنے کی ہے ، علماء فرماتے ہیں کہ ان نفلی عبادات کرنے سے کسی کا
حق ضائع نہ ہو مثلا ایک ملازم ہے اس کی ڈیوٹی ہے ،اب اپنے فرائض منصبی کو
چھوڑ کر نفلی عبادات کرنا ٹھیک نہیں، ہاں اگر فارغ بیٹھا ہوا ہے یا کام
ایسا ہے جو موخر کیا جا سکتا ہے تو اور بات ہے۔ملکان بھی اس بات کا خیال
رکھیں کہ اپنے ملازمین کا کام کم کردیں اورا ﷲ تعالی اس کی مغفرت پائیں
رمضان المبارک ایک تربیتی کورس ہے جس کا مقصد بندے میں تقوی کا پیدا کرنا
ہے۔تقوی (ڈرنا اور بچنا ) یعنی اﷲ تعالی کا خوف اور اس کی نافرمانی نہ کرنا
۔ ایک صحابی ؓ نے آپﷺ سے دریافت فرمایا کہ میں سب سے بڑا عبادت گزار بننا
چاہتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ گناہ چھوڑ دو سب سے بڑے
عبادت گزار بن جاؤ گے ۔ اس لئے اگر ہم ر مضان کے اس امتحان میں کامیاب ہو
کر تقوی کی ڈگری لینا چاہتے ہیں تو ہمیں روزے تراویح کے ساتھ ساتھ گناہوں
سے بھی بچنا ہو گا۔ لیکن عموما اس کا اہتمام نہیں ہوتا حالانکہ نفل عبادت
سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ گناہ سے بچا جائے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہم
روزے میں حلال کو تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن حرام کو نہیں چھوڑتے ، مطلب یہ کہ
کھانا پینا عام حالت میں حلال تھا لیکن روزے کی وجہ سے منع ہوگیا تو چاہے
کتنی بھی بھوک،پیاس لگے ہم نہیں کھاتے لیکن جھوٹ بولنا، غیبت کرنا،کسی کو
تکلیف دینا، رشوت ،ملاوٹ وغیرہ یہ تو ویسے ہی حرام تھے لیکن ہم ان حرام اور
برے کاموں کو نہیں چھوڑتے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہے -
جس کا مفہوم ہے کہ بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو روزے سے بجز بھوکا اور
پیاسا رہنے کہ کچھ حاصل نہیں ہوتا، علمائفرماتے ہیں اس سے مراد وہ ہیں جو
روزے میں گناہوں کو نہ چھوڑے ۔
دو عورتیں آپﷺ کی خدمت میں لائی گئیں جن کی روزے میں بھوک کی شدت سے حالت
خراب تھی ۔آپﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ان عورتوں نے حلال سے تو روزہ
رکھا لیکن حرام کھاتی رہیں یعنی یہ لوگوں کی غیبت کرتی رہیں۔
اگر ہمیں اس تربیتی کورس سے تقوی حاصل کرنا ہے تو گناہ چھوڑنے ہوں گے، جس
طرح سخت بھوک و پیاس کے باوجود ہم افطار سے پہلے نہیں کھاتے اسی طرح عہد
کرنا ہو گا کہ رمضان میں غیبت نہیں کریں گے، جھوٹ نہیں بولیں گے، بیجاغصہ
نہیں کریں گے، رشوت لین دین نہیں کریں گے، ملاوٹ اور کم تولنے سے رکیں گے۔
اگر صرف ایک ماہ ہم نے اس طرح گزار لیا تو اس کا اثر یہ ہو گا ، ایک حدیث
شریف کا مفہوم ہے کہ جس کا رمضان سلامتی سے گزر گیا (کوئی گناہ نہ ہوا) اس
کا پورا سال سلامتی سے گزرے گایعنی تقوی کا ایسا جوہر ہاتھ آجائے گا جس سے
سارا سال اعمال بد سے بچنا آسان ہو جائے گا۔ |