بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ ربّ العالمین والصلوۃ والسلام علٰی سیّد الانبیاء والمرسلمین
وعلی الہ واصحابہ اجمعین۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک اسے کسی شئی کی افادیت کے بارے میں علم نہ ہویا
کسی شئی کی حقیقت سے آشنائی نہ ہو تووہ اسے نظر انداز کردیتا ہے، اسے اہمیت
نہیں دیتا لیکن اگر انسان کو اس شے کی افادیت کا انداز ہ ہوجائے یا اس کی
حقیقت کا علم ہو جائے تو اس کے حصول کے لئے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ
نہیں کرتا اسکی واضح مثال میدان جہاد میں لڑنے والے مرد مجاہد کی ہے جو
مرئی حیات (Visible life) کو غیر مرئی حیات (Invisible life) کے لئے قربان
کردیتا ہے، وہ انعامات وہ لذتیں جن کو وہ اس دنیا میں دیکھ رہاہے، جن سے
لطف اندوز ہورہا ہے اُن اَن دیکھی نعمتوں کے لئے صرف اس لئے قربان کردیتا
ہے کہ اسے تھوڑی سی آگاہی حاصل ہوجاتی ہے، اس حیات ابدی کے بارے میں اسے
معمولی سی آشنائی حاصل ہوجاتی ہے بالکل اسی طرح اسلام کے عظیم ترین رکن ’’روزہ‘‘
کے بارے میں جسے آشنائی حاصل نہیں ہوتی یا اس کے فوائد و نتائج کے بارے میں
واقفیت نہیں ہوتی تو وہ بالکل صحت مند وتندرست ہوتے ہوئے بھی جان بوجھ کر
مریض بن جاتا ہے، طرح طرح کے بہانے بناتا ہے یا پھر مال ودولت کے گھمنڈ میں
کفریہ جملے اداکرنے شروع کردیتا ہے کہ یہ کام ہمارا نہیں، روزہ رکھنا ،
بھوکا پیاسا رہنا غریبوں فقیروں کا کام ہے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) لیکن
جس پر روزے کے تھوڑے سے بھیاسرار و رموز کھل جاتے ہیں ،اپنے رب کے لئے بھوک
وپیاس برداشت کرنے کی حقیقت سے آشنا ہوجاتا ہے تو وہ قرآن کی اس آیت کی
عملی تفسیر بن جاتا ہے کہ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ
تَعْلَمُوْنَ (کہ روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں علم ہوجائے)
یعنی اگر تم پر اس کے حقائق ومعارف کھل جائیں تو کسی قیمت پر بھی روزے کو
نہ چھوڑو۔ یہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پر جب روزے کے کچھ
Economically اور Madicallyفوائد آشکارا ہوئے تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھا کہ
اسلام اگر اپنے ماننے والوں کو کوئی اور حکم یا ہدایت نہ بھی دیتا تو ایک
روزہ ہی کافی تھا اس طرح بے شمار اقوال و افکار غیر مسلم مفکرین کے اسلامی
احکامات کی صداقت اور جامعیت کے متعلق انٹرنیٹ اور کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔
الغرض فقیر نے بھی اپنی کم علمی و فہمی کے باوجود اپنے سلسلہ وار مضامین
میں چند دینی ودنیاوی فوائد و کمالات بیان کرنے کی کوشش کی ہے رسول علیہ
الصلوۃ والسلام کے اس فرمان کے مصداق کہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول
اللہ، اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے تو آپ نے فرمایا
اَنْفَعُ لِلنَّاس جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دیتا ہے، بس یہی امید ہے کہ
ہوسکتا ہے کائنات میں کسی کو بھی اس کلام سے نفع پہنچ جائے تو نگاہ خالق
وحبیب کا مستحق ہوجاؤں۔
طالبِ فضلِ وَدود صاحبزادہ عزیر محمودالازہری |