موت کی مہمان دو روزہ دار مظلوم بہنیں

ماہ رمضان کی آمد آمد تھی پورا گاؤں اس مقدس مہینے کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا گاؤں کے مولوی صاحب لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے گاؤں کے باسیوں کو روزے رکھنےکی دعوت دے رہے تھے اورساتھ ساتھ بتا رہے تھے امید ہے کہ کل پہلا روزہ ہو گا اگر کل پہلا روزہ نہ ہوا تو پرسوں ہر صورت رمضان کی پہلی تاریخ ہو گی۔گاؤں کے تمام باسی مولوی صاحب کا اعلان سن رہے تھے کچھ لوگوں نے تو اس اعلان کے بعد شہر کا رخ کر لیا تاکہ اشیا خورونوش خریدی جا سکیں ۔

پورے گاؤں میں سب کی زبان پر ماہ مبارک کا نام تھا ہر کوئی رمضآن کے بارے میں بات کررہا تھا کوئی کہہ رہا تھا کہ اس رمضان میں تراویح کی نماز ہر صورت پڑھوں گا تو کوئی اس عزم کا اظہار کر رہا تھا کہ اس رمضان قرآن پاک دومرتبہ پڑھوں گا۔ نمبردارنی شیداں کی بیٹیوں کو شاید ماہ رمضآن کی آمدکی کوئی خوشی نہیں تھی وہ اپنی ماں سےکہہ رہی تھیں کہ ایک تو اتنی گرمی ہے اوپر سے ماہ رمضان آگیا ہے پورا دن بھوکا رہنا کتنامشکل ہے ۔ان کی ماں کہہ رہی تھی ٹھیک کہتی ہو اس گرمی میں روزہ رکھنا بڑا مشکل ہے میں نے تو پچھلے رمضان میں بھی چند روزے ہی رکھے تھے جب بھی کوئی پوچھتا تو میں کہتی ہاں مجھے روزہ ہے اب بندہ کیا کرے ہمارے پنڈ کی زمیندارنیاں شیخیاں جو بگھیرتیں ہیں کہ وہ روزے سے ہیں اس لیے عزت رکھنے کے لیے جھوٹ بولنا پڑناہے۔ شیداں کی ایک بیٹی بولی امی اس دفعہ تو واقعا بڑی گرمی ہے میں تو دو چار روزے ہی رکھوں گی اس کی دوسری بہن بولی نہ بھیٔ میں توسارے روزے ہی رکھوں گی تم جانتی ہو کہ آج کل دھان کی فصل کی کاشت جاری ہے کچھ لوگ روزہ رکھ کر شدید گرمی میں پانی میں کھڑے ہو کر دھان کی فصل کی کاشت کریں گے اس کی بہن نے کہا کہتی توتم ٹھیک ہی ہوچلو کوشش کروں گی۔

مولوی صاحب جب ماہ رمضان کی آمد کا اعلان کر رہے تھے اس وقت ۲۱ سالہ نجمہ اور ۲۵ سالہ فریدہ اپنی ماں اور اپنے ضعیف باپ کے ساتھ انتہائی گرمی میں گرم پانی میں کھڑی دھان کی پنیری ہاتھوں میں لیے پودے زمین میں گاڑنے میں مصروف تھیں نجمہ نے اپنی بہن سےکہا کہ فریدہ باجی ہم بھی روزہ رکھیں گے تو فریدہ نے کہا نجمہ دل تو بہت کرتاہےکہ ہم بھی روزہ رکھیں لیکن تو جانتی ہے کہ اتنی گرمی میں روزہ رکھ کر ہم کام نہیں کر سکیں گی۔وقت گزر رہاتھا اور نجمہ اور فریدہ اپنےماں باپ کے ساتھ مسلسل دھان کی فصل کاشت کر رہے تھیں۔ نجمہ اور فریدہ کے والدکو زمین دار نےکہا تھا کہ ایک ایکڑ زمین میں دھآن کاشت کرنے کے اسے پانچ سو روپے ملیں گے عام طور پر گاؤں میں ایک ایکڑ کا یہی ریٹ تھا۔ماہ رمضان بڑی تیزی سے گزر رہا تھا ہر روز نجمہ اور فریدہ اپنے ماں باپ سے روزہ رکھنےکی ضد کرتیں لیکن وہ منع کر دیتے۔لیکن دونوں بہنوں کا روزہ رکھنے کااشتیاق بڑھ رہاتھا۔ بالاخر دونوں بہنوں نے ایک دن اپنے ماں باپ سےچھپ کر روزہ رکھ لیا اور حسب معمول صبح زود دھان لگانے کے لیے چلی گییں راستےمیں نجمہ اپنی بہن فریدہ سے کہہ رہی تھی آج میں خود کو بڑا ہلکا محسوس کر رہی ہوں فریدہ نےآسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ٹھیک کہتی ہو مجھے جتنا سکون مل رہا ہے میں تمہیں بتا نہیں سکتی نجمہ نےکہا باجی آپ ٹھیک کہتی ہو مجھے ایسے محسوس ہو رہا ہے جیسے میں ہوا میں اڑ رہی ہوں اب تو ہم ہر روز ہی روزہ رکھیں گی فریدہ نے کہا ٹھیک ہے لیکن امی ابا کو نہیں بتانا نہیں تو وہ منع کر دیں گے ۔

نجمہ اور فریدہ اپنےماں باپ کے ساتھ دھان کے پودے زمین میں گاڑ رہی تھیں کہ ان کے باپ نے ان کی ماں سےپوچھا کہ بارہ بج رہے ہیں لیکن نجمہ اور فریدہ نے آج پانی نہیں پیا آج تو بہت گرمی ہے ہم کئی مرتبہ پانی پی چکے ہیں ۔نجمہ اور فریدہ کی ماں ان سے پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ نجمہ پیاس کی شدت سے پانی میں گر گئی فریدہ کی حالت بھی خراب تھی فریدہ نے اپنے والدین کو بتایا کہ ہم نے آج روزہ رکھا ہوا ہے ۔اس پر نجمہ اور فریدہ کے والدین نے انہیں کام کرنے سے منع کر دیا تھوڑی ہی دیر میں فریدہ بھی بے ہوش ہوگئی۔دونوں کو ایک پیڑ کےسایہ میں لایاگیا دوسرے کیھتوں میں کام کرنے والے لوگ بھی آ گئے تھے جب انہوں نےبچیوں کی حالت خراب دیکھی تو ان کے والد کو مشورہ دیا کہ مولوی صاحب کو بلایا جائے اوران سےپوچھا جائے کہ بچیوں کی حالت خراب ہے آیا یہ روزہ توڑ سکتی ہیں یا نہیں ۔دونوں بچیاں پیاس اور بھوک کی شدت سے بےہوش پڑیں تھیں کہ گاؤن سے مولوی صاحب کو بلایا گیا جب مولوی صاحب پہنچےتو بچیاں زندہ تھیں لیکن مولوی صاحب نے کہا کہ بچیوں کو روزہ ہر صورت پورا کرنا ہو گا ۔یہ فتوی دےکر مولوی صاحب چلےگئے تو ان کے جانے کے نصف گھنٹے بعد نجمہ اور فریدہ نے جان دے دی۔اور دونوں بہنیں آسمانوں کی سیرکے لیے روانہ ہو گئیں دو بچیوں کی اس موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کچھ لوگوں نے پولیس کو اطلاع کر دی جس نے گاؤں کے مولوی صاحب کو گرفتار کرلیا -

کیا نجمہ اور فریدہ کی موت کا ذمہ دار صرف مولوی ہے یا ہمارا پوارامعاشرہ اور ہمارے حکمران جو عیش و عشرت میں مصروف ہیں اور مظلوم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی اقدامات کرنے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔
ibne raheem
About the Author: ibne raheem Read More Articles by ibne raheem: 29 Articles with 30822 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.